ملک بھر میں حالیہ ہونے والے ضمنی انتخابات اس حوالے سے
کامیاب ترین تصور کیے جاتے ہیں یہ انتخابات فوج کی نگرانی میں ہونے کی وجہ
سے دھاندلی سے بھی کافی حد تک محفوظ رہے اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں اور
عوام کے لئے کافی حیران کن نتائج کے حامل ان انتخابات میں حیرانی اس بات کی
ہے گیارہ مئی کے عام انتخابات میں جن بڑے رہنماؤں نے ایک سے زیادہ نشستوں
پر کامیابی حاصل کی تھی ضمنی انتخابات میں وہ اپنی خالی کردہ نشستیں بچانے
میں کامیاب نہیں ہو سکے ماسوائے چند ایک کے اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ دو
ماہ کی قلیل مدت میں اگر یہ رہنما اپنے ووٹرز کو مطمئن نہیں کر پائے تو
پورے پانچ سال گزرنے کے بعد یہی ووٹرز ان کا کیا حشر کریں گے اس کا اندازہ
ان ضمنی انتخابات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔جن رہنماؤں کی پارٹیاں ان کی
خالی کردہ نشستوں سے محروم ہو گئی ہیں ان میں عمران خان، میاں شہباز شریف،
مولانا فضل الرحمٰن اور پیر صدرالدین شاہ راشدی شامل ہیں عمران خان پشاور
کی سیٹ اوراپنے آبائی اور جدی حلقے میانوالی کی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے
ہیں میاں شہباز شریف کی پارٹی کو راجن پور کی نشست سے محروم ہونا پڑا ہے
اسی طرح مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاالرحمن لکی مروت سے ہار گئے
اور سانگھڑ سے پیرصدرالدین شاہ کی خالی کردہ نشست پر پیپلزپارٹی کی شازیہ
مری جیت گئی ملک بھر میں قو می اور صوبائی اسمبلیوں کے 41 حلقوں میں
ہونیوالے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی
5پنجاب اسمبلی کی 11بلوچستان اسمبلی کی 2نشستوں پرکامیابی حاصل کرکے پہلی
پوزیشن پاکستان پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 3پنجاب کی 2سندھ اسمبلی کی
1نشست حاصل کرکے دوسری جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 2پنجاب
اسمبلی کی 2اورخیبرپختونخواہ کی 1نشست حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
تحریک انصاف کوقومی اسمبلی کی 2مسلم لیگ ن کوپنجاب اسمبلی کی 3اورقومی
اسمبلی کی ایک نشست پراپ سیٹ شکست کا سامنا کرناپڑا ضمنی انتخابات میں قومی
اسمبلی کی 15نشستوں پرانتخابات ہوئے قومی اسمبلی کی نشست این اے ون پشاورون
میں سب سے بڑااپ سیٹ ہواجہاں پرعمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست پراے این پی
کے غلام احمدبلورنے تحریک انصاف کے گل بادشاہ کوشکست دی این اے 48اسلام
آبادمیں تحریک انصاف کی چھوڑی گئی نشست پرانہی کی جماعت کے اسدعمرنے مسلم
لیگ ن کے چوہدری اشرف گجرکوشکست دیدی مسلم لیگ ن کی چھوڑی گئی نشست این اے
68سرگودھامیں مسلم لیگ ن کے شفقت بلوچ69431ووٹ لیکرکامیاب ہوئے جبکہ
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی چھوڑی گئی نشست این اے
71میانوالی پرمسلم لیگ ن کے عبیداﷲ شادی خیل نے 85836ووٹ لیکرکامیابی حاصل
کرلی جبکہ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے نواب زدہ وحید70485ووٹ حاصل کرسکے
این اے 83فیصل آباداین اے 103حافظ آباداین اے 129لاہورکی نشستوں پرمسلم لیگ
ن نے واضح برتری حاصل کی جبکہ این اے 177مظفرگڑھ پرجمشیددستی کی خالی کردہ
نشست پرپاکستان پیپلزپارٹی کے نورربانی کھر جیت گئے این اے 235سانگھڑمیں
مسلم لیگ فنکشنل کے صدرالدین شاہ راشدی کی خالی نشست پرپاکستان پیپلزپارٹی
کی شازیہ مری نے خدابخش کواپ سیٹ شکست دی اوراین اے 237ٹھٹھہ پرمسلم لیگ ن
کے ریاض شاہ شیرازی کوپاکستان پیپلزپارٹی کی شمس النساء نے اپ سیٹ شکست
دیدی ہے این اے 262قلعہ عبداﷲ میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے 17471ووٹ
لیکرکامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدمقابل جے یوآئی کے قاری شیرعلی 10104ووٹ
حاصل کرسکے پنجاب اسمبلی کی 15نشستوں میں سے مسلم لیگ ن نے 11پیپلزپارٹی
اورتحریک انصاف نے 2،دونشستیں حاصل کی ہیں مسلم لیگ ن نے پی پی 6،پی پی
51فیصل آبادپی پی 118منڈی بہاؤالدین 123سیالکوٹ
142،150اور161لاہور،210لودھراں 217خانیوال ،254مظفرگڑھ 289رحیم یارخان میں
کامیابی حاصل کی جبکہ پی پی 193اوکاڑہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے
جہانگیروٹوذوالفقارخان کھوسہ کی خالی کردہ نشست پی پی 243ڈی جی خان
اورشہبازشریف کی خالی کردہ نشست پی پی 247راجن پورمیں تحریک انصاف نے مسلم
لیگ ن کواپ سیٹ شکست دی جو کہ بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کے لئے حیران کن ہے
سندھ اسمبلی کی چارمیں سے دونشستوں پرایم کیوایم اوردوپرپیپلزپارٹی
کوکامیابی ملی پی ایس 12شکارپوراورپی ایس64میرپورخاص پرپاکستان پیپلزپارٹی
جبکہ پی ایس95اور103کراچی میں ایم کیوایم نے میدان مارلیاخیبرپختونخواہ میں
پی کے 23مردان کی نشست پراے این پی پی کے 27مردان میں آزادامیدوارنے
کامیابی حاصل کی بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی 3نشستوں میں دوپرمسلم لیگ ن
نے کامیابی حاصل کی جبکہ ایک آزادامیدوارکامیاب ہواضمنی انتخابات کے نتائج
نے تمام سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کو حیران کر دیا ہے مجموعی طور پر
ضمنی الیکشن پرامن ،شفاف اور فوج کی نگرانی میں ہوئے یہی وجہ ہے کہ کسی
پارٹی نے مخالف پارٹی پر دھاندلی کا الزام اس طرح عائد نہیں کیا جیسا کہ
عام انتخابات کے بعد دیکھنے میں آیا تھا جو کہ یقینی طور پر یہ ایک اچھی
روایت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنے بہترانداز میں ضمنی
انتخابات ہو سکتے ہیں تو عام انتخابات میں یہی بندوبست کرنے میں کون سی
خفیہ طاقتیں رکاوٹ تھیں جنھوں نے انتخابات کی شفافیت پر دھاندلی کا داغ
لگوایا۔ یقینا اس بارے میں الیکشن کمیشن کو اپنے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے
ان عوامل کو ختم کرنے کوششیں کرنی پڑیں گی جو الیکشن کی شفافیت پر برا اثر
ڈالیں تاکہ ملک میں صاف شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن بنایا جا سکے |