ہمارے ہاں جس وقت پانی سر تک نہ آجائے ہمیں ہوش نہیں
آتااوربیشتر واقعات میں ہمارے ارباب اقتدارواختیارآفت یامصیبت گزرجانے کے
بعدمحض لکیر پیٹ رہے ہوتے ہیں اور یہ پچھلی کئی دہائیوں سے ہورہا ہے ،خداجانے
ہم کب سنبھلیں گے۔پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کیلئے کوئی موثراورمنظم
ادارہ تک نہیں جوزمینی یاآسمانی آفات کی صورت میں جدیدسازوسامان سے مصیبت
زدگان کی بحالی کاکام انجام دے۔ہمارے ہاں بروقت اورٹھوس منصوبہ بندی کرنے
کارواج اورقانون کاراج نہیں ہے ۔جوبھی وردی یا شیروانی پہنے اقتدارمیں آتے
ہیں ان کے ساتھ ان کے چہیتوں کی ایک فوج آتی ہے اور پھروہ پانچ سال تک
پاکستان اورپاکستانیوں کاخون چوستے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت کی آڑ میں
اقرباء پروری،بدعنوانی اورخوشامدعام ہے ۔رشتہ داری ،فرمانبرداری ،وفاداری ،رازداری
اوراداکاری کی بنیاد پراہم عہدوں پرپروفیشنل کی بجائے نان پروفیشنل
افرادکوبٹھادیا جاتا ہے اورنتیجتاً اداروں کاکباڑہ ہوجاتا ہے ۔پی آئی اے
اورپاکستان ریلوے کی حالت زارکسی سے پوشیدہ نہیں۔میں وثوق سے کہتا ہوں
اگرپولیس اورجیل پولیس سمیت ہمارے قومی اداروں میں سیاسی مداخلت ختم ہوجائے
توکوئی ان اداروں کی کارکردگی اورکمٹمنٹ پرانگلی نہیں اٹھاسکتا ۔قانون فطرت
کے تحت تبدیلی ہمیشہ اوپرسے نیچے کی طرف آتی ہے ،جس ملک کاحکمران طبقہ
بدنیت اوربدعنوان ہوگا وہاں کے لوگ اورسرکاری اہلکار بھی کرپشن کے کینسر سے
محفوظ نہیں رہ سکتے ۔حکمران طبقہ کی مراعات اوراپنے فرض کی بجاآوری کے
دوران جان ہتھیلی پررکھنے والے جانباز اورجانثار سرکاری اہلکاروں کی
تنخواہوں کافرق دیکھیں تو ہماری اجتماعی ناکامی کی روٹ کازکااندازہ ہوجائے
گا۔
پچھلے دنوں ڈی آئی خان میں جیل پرحملے اوردہشت گردوں کے فرارکی بازگشت ابھی
تک سنی جاسکتی ہے۔ہم اپنی قومی روایات کوبرقراررکھتے ہوئے بحث برائے بحث
میں الجھے ہوئے ہیں اورمستقبل میں اس قسم کے واقعات کاسدباب یقینی بنانے
کیلئے کوئی راہ حل تلاش کرنے کی بجائے ایک دوسرے پرتنقید کررہے ہیں۔اس
واقعہ کے بعدچاروں صوبوں میں دوسری جیلیں کس حدتک محفوظ ہیں یاانہیں کس طرح
محفوظ بنایا جا ئے یہ ایک غورطلب بات ہے تاہم پنجاب کے آئی جی جیل خانہ جات
میاں فاروق نذیرپنجاب بھرکی جیلیں سکیورٹی پوائنٹ آف ویوسے پوری طرح محفوظ
اورمضبوط بنانے میں مصروف ہیں اورمجھے ان کی قابلیت ،نیت اورکمٹمنٹ پرکوئی
شبہ نہیں ہے۔پرجوش اورپرعزم میاں فاروق نذیر کی ٹیم میں ملک
مبشراحمدخاں،میاں سالک بلال،نویدرؤف چودھری،راناعبدالرؤف خاں،ملک شوکت
فیروز،مرزاشاہدسلیم بیگ،پروفیشنل اورکہنہ مشق چودھری محسن رفیق، خوش اخلاق
اورباذوق گلزار بٹ، فاروق لودھی،کامران انجم،نویداشرف اوردبنگ عبدالرزاق
نیازی کی صورت میں ہرقسم کے چیلنجز سے نبردآزماہونے والے آفیسرزموجود ہیں
جو کسی صورت جیل کے اندرونی نظام اورڈسپلن پرکمپرومائز نہیں کرتے ۔میں
سمجھتاہوں جیل میں ہونیوالے بعض واقعات کوضرورت سے زیادہ اچھالنا مناسب
نہیں۔کوٹ لکھپت جیل میں بھارت کے جاسوس کاقتل ایک افسوسناک واقعہ تھا مگریہ
جیل حکام کی ملی بھگت سے ہرگزنہیں ہوا جبکہ اس واقعہ کی بنیادپرکوٹ لکھپت
جیل کے سابق سپرنٹنڈنٹ چودھری محسن رفیق خوامخواہ زیرعتاب آگئے۔اس واقعہ کے
ری ایکشن میں بھارت کی ایک جیل میں پاکستان کے ایک قیدی کوجان بوجھ
کربیدردی سے قتل کیا گیامگربھارتی میڈیانے اسے ایشونہیں بنایا اورنہ اس جیل
کے سپرنٹنڈنٹ کومعطل کیا گیا ،اگرہم نے بھارت کادباؤقبول کرلیا تووہ
دباؤبڑھاتا جائے گا۔بھارت کامیڈیا اپنے قومی مفادات پرآنچ نہیں آنے دیتا
جبکہ ہمارے ہاں اسلام آبادمیں شعبدہ بازی کرنیوالے ایک مسلح شخص کومسلسل
پانچ گھنٹوں تک براہ راست کوریج دی جاتی ہے۔ہمارے ہاں بعض عناصرنے نان
ایشوزکوایشوزبنانااورمعمولی واقعات کوغیرمعمولی اندازمیں اچھالنااپنافرض
سمجھ لیا ہے،کیاموت کافرشتہ جیل کی اونچی دیواروں کے اس پار نہیں جاتا،کیا
ہسپتال میں زیرعلاج انسانوں کوموت نہیں آتی ظاہر ہے جیل میں بھی حوالاتی
اورقیدی بیمارہوتے ہیں اوران کاآپس میں جھگڑابھی ہوجاتا ہے اوردونوں صورتوں
میں ضروری کاروائی کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود موت کاایک وقت اورمقام
مقررہے۔افراداوراداروں کی اصلاح کی نیت سے تنقید ضرورکی اورتجویزبھی دی
جائے مگرتوہین کرنے یا معاشرے میں سنسنی پھیلانے اوراداروں کوبدنام کرنے کی
روش سے اس ملک کوفائدہ نہیں نقصان پہنچتا ہے۔ان کے نزدیک ہروہ پولیس مقابلہ
جعلی ہے جس میں کوئی پولیس آفیسریااہلکار زخمی یا شہید نہ ہو۔ہمارے ہاں جیل
میں ہونیوالی ہرطبعی یاحادثاتی موت کوپراسرارموت ڈکلیئر کردیاجاتا ہے۔
آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر ایک جہاندیدہ اورمتحرک شخصیت ہونے کے
ساتھ ساتھ اپنے منصب سے پوری طرح انصاف کرتے ہیں ۔میاں فاروق نذیرنے جیل
سپرنٹنڈنٹ سے آئی جی جیل خانہ جات کاسفراپنی اہلیت اورقابلیت کی بنیاد پرطے
کیاہے۔ وہ بحیثیت آئی جی جیل خانہ جات اپنے ادارے سے بدعنوانی کے سدباب
سمیت قیدیوں کی ویلفیئر کیلئے قابل قدرخدمات انجام دے رہے ہیں۔پچھلے دنوں
ڈی جی رینجرزپنجاب میجر جنرل میاں محمد ہلال حسین اورآئی جی جیل خانہ جات
پنجاب میاں فاروق نذیر کے درمیان طویل ملاقات میں پنجاب کی جیلیں محفوظ
بنانے اورممکنہ دہشت گردی سے بچانے کیلئے مختلف آپشن زیرغورآئے ، میں
سمجھتاہوں میرے ایک کالم کاعنوان ''جہاں ڈینجروہاں رینجر'' ہمارے نڈررینجرز
پرپوری طرف صادق آتا ہے ۔ ڈی جی رینجرزپنجاب میجر جنرل میاں محمد ہلال حسین
کی قیادت میں ہمارے وطن پرست رینجرز سرحدوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ شہروں
اورشہریوں کودرپیش مختلف چیلنجز سے بھی بااحسن عہدہ برآہورہے ہیں اورمجھے
امید ہے پنجاب کی بتیس جیلیں دہشت گردی سے محفوظ بنانے کیلئے ہمارے
جانبازرینجرزسردھڑ کی بازی لگادیں گے تاہم یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے کیونکہ
ان دنوں بھارت کے جارحانہ اورانتہاپسندانہ عزائم کودیکھتے ہوئے رینجرزکی اس
وقت سرحدوں پر زیادہ ضرورت ہے۔جیل حکام اوراہلکار وں کوچاردیواری کے
اندرکانظام کنٹرول کرنے کی تربیت دی جاتی ہے وہ بیرونی حملے کی صورت میں
جیل اورقیدیوں کا دفاع نہیں کرسکتے ۔میں سمجھتاہوں دہشت گردوں کوکسی عام
جیل میں رکھنا مناسب نہیں ،ان کیلئے خصوصی طورپرزیرزمین جیلیں بنائی جائیں
اوران کانظم ونسق حساس اداروں کے پاس ہویا اس کیلئے کوئی خصوصی فورس بنائی
جائے۔زیرزمین جیل کی حفاظت کرنااوراسے بم وغیرہ سے بچانا کافی حدتک آسان ہے
اوراس وقت زیرحراست دہشت گرد جس بھی جیل میں ہیں انہیں وہاں سے کسی مخصوص
جیل میں منتقل کردیا جائے کسی ایک جیل میں دہشت گردوں کورکھنااور انہیں
چھڑانے کیلئے دہشت گردوں کے ممکنہ حملے کوناکام بناناقدرے آسان ہے۔زمین کی
سطح کے نیچے ایک خاص گہرائی میں جیل بنائی جائی یقینا اس گہرائی میں کوئی
موبائل کام کرے گااورنہ اس کی بیرونی سطح پر کسی بم یاخود کش حملے سے شگاف
پڑے گا۔غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی فیصلے کرناہوں گے،جیل حکام
کوتدبراورتدبیر کی ضرورت ہے۔ خطرناک قیدیوں کے مقدمات کی سماعت اوران سے ان
کے عزیزواقارب کی ملاقات ویڈولنک کی مددسے کرائی جائے اورماں باپ ،بیوی
بچوں اوران کے ایڈووکیٹ کے سواکسی کوملنے کی اجازت نہ ہو ۔ جیل کے اندرپی
سی اوسسٹم شروع ہونے سے یقینا موبائل کے استعمال اوربدعنوانی میں کمی آئے
گی۔
ایک ساتھ زیادہ جیلیں محفوظ بنا نے کیلئے وہاں مستقل بنیادوں پرزیادہ
اہلکار تعینات کرنااوران کی مختلف ضروریات کاخیال رکھناایک بہت بڑا جھنجھٹ
ہے اورغیرمعمولی انتظامات سے جیل کے عام حوالاتی ،قیدی اورملاقاتی بھی بری
طرح متاثرہوتے ہیں اورجیل اہلکاروں کی نفسیات پربھی برااثرپڑتا ہے لہٰذاء
اس کے برعکس کسی ایک جیل میں شدت پسندوں کورکھنااوربیرونی حملے کی صورت میں
جیل اورقیدیوں کی حفاظت کرنا کافی حدتک آسان ہے ۔اب تک کے واقعات
اورمشاہدات کی روشنی میں دیکھا جائے تو دہشت گردپورے اعتماد اورمنصوبہ بندی
اورمنظم انداز سے حملے کرتے ہیں جبکہ ہمارے اہلکاروں میں تربیت ،خوداعتمادی
اورمنصوبہ بندی کافقدان ہوتا ہے اوران کے پاس دہشت گردوں کے مقابلے میں
جدیداورخودکار ہتھیار بھی نہیں ہوتے دہشت گردوں کوگولیاں گنتی کرکے نہیں دی
جاتیں اورنہ ان سے بعدمیں استعمال ہونیوالے کارتوسوں کاحساب لیا جاتا ہے
۔شدت پسند بے دھڑک گولیاں برساتے ہیں جبکہ ہمارے اہلکاروں کے ہاتھ بندھے
ہوئے ہوتے ہیں اگرخدانخواستہ دہشت گردوں کے حملے کے دوران کسی سرکاری
اہلکار کی گولی سے کوئی شہری ماراجائے توادارہ اس اہلکار کے ساتھ کھڑا نہیں
ہوتا ،اوربھی کئی مجبوریاں اورکمزوریاں ہیں جواداروں کی کارکردگی پر بری
طرح اثراندازہورہی ہیں۔پولیس یاجیل پولیس کے جوآفیسریااہلکاردہشت گردوں
کامقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہیں ان کے ورثاکوایک معمولی رقم
اداکرنے کے بعدکوئی نہیں پوچھتا ۔
ڈی آئی خان جیل توڑنے کاواقعہ اندرونی عناصر کی ملی بھگت اوراندرونی نقشہ
کے بارے میں بھرپور معلومات کے بغیر نہیں ہوا۔بدقسمتی سے کئی ایک جیلیں
موبائل فون سمیت ممنوعہ سامان سے بھری پڑی ہیں اوریہ جیل اہلکاروں کی مٹھی
گرم کئے یاسیاسی اثرورسوخ کے بغیر نہیں ہوسکتا۔آئی جی جیل میاں فاروق نذیر
کی خصوصی ہدایات پرآئے روزکسی نہ کسی جیل کااچانک معائنہ کیاجاتا ہے
اوروہاں سے متعددموبائل سیٹ برآمدہوتے ہیں لیکن اس کے باوجودمیاں فاروق
نذیرپوری طرح اس کاسدباب کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ دوسرے اداروں کی
طرح گندی مچھلیاں جیل کی چاردیواری کے اندربھی پائی جاتی ہیں ۔ آئی جی جیل
خانہ جات یادوچارجیل سپرنٹنڈنٹ اپنے طورپر بدعنوانی کے بھوت کوبوتل میں
بندنہیں کرسکتے اس کیلئے معاشرے کے ہرطبقہ کواپنا مائنڈسیٹ بدلناہوگا۔پچھلے
دنوں پنجاب کے صوبائی وزیرجیل نے لاہورکیمپ جیل کادورہ کیا اورجان بوجھ
کرقیدی سے ملاقات کیلئے1300روپے رشوت دی جس پرسپرنٹنڈنٹ اعجازاصغر کوآئی جی
جیل خانہ جات کے آفس میں رپورٹ کرنے کاکہا گیا مگرصوبائی وزیرکیخلاف رشوت
دینے پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی کیونکہ اس واقعہ میں ان کی بدنیتی
کارفرماتھی ۔لوگ بھی اپنے چندمنٹ بچانے کیلئے یااپناناجائزکام کرانے کیلئے
سرکاری اہلکاروں کوا ن کے مانگے بغیر رشوت دیتے ہیں جوایک سنگین جرم ہے
۔جیل میں کسی حوالاتی یاقیدی سے ملنے اورسامان بجھوانے کیلئے قاعدہ قانون
بنایا گیا ہے اورجولوگ اس کی پاسداری کرتے ہیں یقیناانہیں رشوت نہیں
دیناپڑتی اورجولوگ شارٹ کٹ کے عادی ہیں وہ دوسروں کی عادتیں بھی بگاڑتے
ہیں۔ |