یہ ناگوار سی باتیں ہمارے
وزیراعظم کے دورہ کراچی سے متعلق موصول ہونے والی خبروں سے یاد آئیں۔ انھوں
نے یہاں تک کہا کہ ’’ملکی مسائل نے میری مسکراہٹ تک چھین لی ہے‘‘ ہمارے
سنگین ملکی مسائل اگر کسی کی مسکراہٹ کے دشمن ہیں تو وہ ہمارے وزیراعظم کی
مسکراہٹ ہے جو ملک کے ذمے دار ہیں اور انھیں 66 برس سے ملتوی چلے آنے والے
مسائل نہ صرف حل کرنے ہیں بلکہ حتی الوسع آیندہ کے لیے مسائل سے محفوظ ایک
ملک بھی بنانا ہے اور میں جو یہ بات کہہ رہا ہوں تو یہ محض میری خوش فہمی
یا ایک آرزو ہے بلکہ وزیراعظم کے چہرے کو مزید اداس بنا دیتا ہے کیونکہ
انھیں معلوم ہے کہ وہ یہ نہیں کر سکتے صرف اس کی دلی خواہش کر سکتے ہیں۔
ہمارے وزیراعظم میرے جانے پہچانے ہیں اگرچہ اقتدار کے موجودہ دور میں ان سے
رابطہ نہیں ہوا لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ ایک نیک نیت انسان ہیں اور ان کی
شرم و حیا تو مثالی ہے جو انھیں ورثے میں ملی ہے چنانچہ میں اس لیے بھی بلا
خوف یہ سب لکھ رہا ہوں
ہاں بدتعریفی ہوئی تو ان کے کارندے اسے پہلی فرصت میں ان کی نظروں یا کانوں
سے گزار دیتے۔ ذاتی بات عرض کر دوں کہ میں اب اس قدر تھک گیا ہوں کہ اپنی
ذات کے لیے تعلقات عامہ کی ہمت نہیں کر پاتا پھر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس
قدر ہم کالم نگاروں میں زوال آ گیا ہے اور کالم نویسی عرضی نویسی اور
درخواست گزاری بن گئی ہے اسی طرح حکمرانوں کے چمچہ گیروں میں بھی زوال آ
چکا ہے اور بہت چھوٹے لوگ حکمرانوں کے گرد و پیش میں دیکھے جاتے ہیں اس لیے
کوئی ان کے ساتھ تعلقات عامہ کیا استوار کرے اگرچہ اکا دکا فرض شناس دکھائی
دیتے ہیں لیکن وہ کسی دیانت دار ملازم کی طرح ہیں جس کا سارا دفتر جانی
دشمن ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی تو ہے کہ ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے جب انسان کی
بنیادی باتیں اور ضروریات صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں تو پھر اس کے
بندوں کے ساتھ تعلقات کی کیا ضرورت اور اہمیت سوائے ان کے ساتھ محبت اور
پیار کے اور اچھی ملاقات کے جو جاری رہے تو خوشی ہوتی ہے۔
میرا خیال ہے اوپر کی یہ باتیں بڑی حد تک بے موقع ہیں اس وقت اگر کچھ کہنا
ہے تو یہ کہ میاں صاحب کراچی کو سمجھیں اور اس کے دشمنوں پر پکا ہاتھ ڈالیں
چور کے پائوں نہیں ہوتے اور کراچی کے چور تو ہیں ہی پائوں کے بغیر ۔ حوالہ
کے لیے جنرل بابر کی مہم یاد کریں جب انھوں نے یہی کراچی صاف کر دیا تھا۔
آج بھی پاکستان میں ایسے امرت دھارے موجود ہیں جو ملک دشمنوں کا صفایا کر
سکتے ہیں لیکن ان کو مکمل اختیار اور آزادی دیں۔ شکر ہے کہ میاں صاحب کو
احساس ہو چکا ہے کہ کراچی اس ملک کے لیے کتنا اہم شہر ہے۔ یہ ملک کی زندگی
ہے اس کی بقا ہے اگر ایک وزیراعظم جو قوم نے منتخب کیا ہے یہ کام نہیں کرے
گا تو اور کون کرے گا۔ میاں صاحب اپنی چھنی ہوئی مسکراہٹ لوٹا کر اسے ایک
کرخت عزم میں بدل دیں اور چہرے پر ملک دشمنوں کے لیے سفاک تاثر لے آئیں جسے
دیکھ کر ملک دشمنوں پر کپکپی طاری ہو جائے ایک دہشت۔ ان ملک دشمنوں کے لیے
میاں صاحب خود ایک دہشت گرد بن جائیں کیونکہ وہ اور ان کے تمام ووٹر اس ملک
کے مالک ہیں کرایہ دار نہیں ہیں انھیں ہر حال میں چور اچکوں سے اپنا گھر
بچانا ہو گا۔
اگر میاں صاحب محترم، ملک میں کسی حتمی آپریشن کا ارادہ رکھتے ہیں وہ اگر
مناسب سمجھیں تو قوم سے خطاب کریں اور اپنے ارادوں سے قوم کو مطلع کریں اور
اس سے تعاون کی درخواست کریں اگر کہیں سے اس کا مثبت جواب نہیں آئے گا یا
چونکہ چنانچہ ہو گا تو وہ ایسے لوگوں پر پل پڑیں ورنہ پھر اللہ کے حوالے۔
ایک کارٹون دیکھا کہ بیوی شوہر سے پوچھتی ہے کہ کراچی کو تو فوج کے حوالے
کیا جا رہا ہے، مہنگائی کے مارے ہوئے ہم کس کے حوالے، تو شوہر جواب دیتا ہے
اللہ کے حوالے۔
میاں صاحب دنیا کے جو تازہ حالات ہیں اور پاکستان جن بے رحم لوگوں کی نظروں
میں ہے ان کے سدباب کے لیے ایک بات ضروری ہے کہ ملک اللہ کے بندوں کے حوالے
ہو جو اسے حاضر ناظر جان کر ملک کے تحفظ کے لیے تیار ہوں۔
کراچی کی انتظامیہ کی ناقص کارکردگی سے ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ حکیم سعید
مرحوم کے قتل پر وزیر ِ اعظم نواز شریف اس حد تک دل گرفتہ تھے کہ ان کا
کہنا تھا کہ اگر ان کا بس چلے تو صرف ایک حکیم سعید جیسی نابغہ روزگار ہستی
کے قتل کے جرم میں سارے شہر کی انتظامیہ کو گھر بھجوا دوں۔ اس قتل کاا
نہیںاتنا دکھ تھا کہ انہوں نے تمام تر سیاسی مصلحتوں کو فراموش کرتے ہوئے
کراچی آپریشن کا حکم دے دیا تھا۔ اب بھی حا لات اتنے ہی سنگین ہیں۔ وزیر
اعظم کو چاہیے کہ وہ کراچی شہر کی پولیس ، رینجرز ، انتظامیہ اور صوبائی
محکموں میں موجود سیاسی مافیاز کے تمام کارندوں کو نکال باہر کریں جو نہ
صرف سرکاری خزانہ کے اربوں کھربوں روپے لوٹ کر کھاگئے ہیں بلکہ کراچی کے
شہریوں کو بھی رشوت ، بھتہ خوری سے لوٹ رہے ہیں ۔ اس ضمن میں صوبائی سطح پر
ایسے گورنر کی تقرری ناگزیر ہے جو نہ صرف سخت گیر اور ایماندار ہو بلکہ
اسکا کوئی سیاسی یا لسانی دھڑا نہ ہو ۔ وہ شہر میں قانون کی حاکمیت قائم
کرے۔ اس گورنر کو وفاق کی جانب سے اچھے فرض شناس اور دیانتدار افسران کی
ٹیم دی جائے جن کا کراچی شہر سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ انتظامیہ اور ایجنسیوں
میں سالہا سال سے بیٹھے ان گھاگ اہلکاروں کو کراچی بدر کر دیا جائے جو اپنے
اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مختلف لسانی و مذہبی گروپوں اور
مافیاز کی سر پرستی کرتے ہیں۔ صاف ستھری اور موثر انتظامیہ کی تقرری کے بعد
کراچی میں آپریشن کیا جائے جسے کراچی کے پر امن تاجروں ، صنعت کاروں اور
تمام شہریوں کی بھرپور مدد و تعاون حاصل ہو ۔ عوام کی نشاندہی پر غنڈہ گردی
اور لاقانونیت کے تمام ٹھکانوں کو مسمار کیا جائے ، دہشت گردی اور جرائم
میں ملوث عناصر کو انکے سر پرستوں سمیت گرفتار کر کے انسداد ِ دہشت گردی کی
خصوصی عدالتوں کے ذریعے عبرتناک سزائیں دلوئی جائیں۔ فوج مسائل کا حل نہیں
نہ ہی سرحدوں سے اٹھا کر فوج کو کراچی کی گلیوں میں الجھایا جائے ۔ یہ کام
وفاقی حکومت کے ماتحت قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کا ہے جو سرکاری
خزانے سے تنخواہیں اور سہولیات حاصل کر رہے ہیں بالخصوص رینجرز کو محض شو
پیس نہیں ہونا چاہیے انہیں جرائم کے خاتمے کے لئے موثر کردار ادا کرنا
چاہیے۔ اگر وزیر ِ اعظم یہ جرأت مندانہ فیصلے کر لیں تو کراچی کا امن بحال
ہو سکتا ہے۔ نواز شریف ماضی میں ایسے فیصلے کرنے کا شاندار ریکارڈ رکھتے
ہیں۔ انہیں ایک بار پھر سیاسی جرأت سے کام لینا ہوگاوگرنہ یہ شہر بد امنی
کی آگ میں یونہی جلتا رہا تو خدشہ ہے کہ پاکستان کے دشمن ہماری معاشی شہ رگ
پر مستقل تسلط نہ جما لیں
صوبائی حکومت گذشتہ کئی سالوں سے دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس بار پولیس اور
رینجرز کو مکمل اختیارات دیے گئے ہیں۔ آئندہ کراچی میں ہر حال میں امن بحال
کرایا جائیگا۔کراچی میں امن امان کی بحالی گذشتہ5 سالوں سے نہ کرانے والی
سندھ حکومت پر اب عوام کا بھی اعتماد اٹھ چکا ہے۔کراچی میں کونسا ایسا
علاقہ ہے جہاں سے لاشیں نہیں اٹھیں ۔کونسا ایسا محلہ ہے جہاں خواتین بیوہ
اور بچے یتیم نہیں ہوئے ۔ یوں تو تمام سیاسی جماعتیں کراچی میں امن کی
بحالی کے لیے آوازیں دے رہی ہیں،تاجر لاکھوں کروڑوں روپے سرکار کو ٹیکس
دینے کے باوجود اغوا کاروں اوربھتہ خوروں سے محفوظ نہیں ہیں ۔وہ حکمرانوں
سے امن کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں- |