ہم محبت کے پیا می ہیں سیاست کے
نہیں
آؤ مل جل کے کریں کام اگر کرنا ہے
حضرت وا صف علی وا صف فرما تے ہیں دراصل کسی شے سے اس کی فطرت کے خلا ف کام
لینا ظلم ہے جو شے جس کا م کے لیے تخلیق کی گئی ہے اس سے وہی کام لینا چا
ہیے ۔ اس کے بر عکس ظلم ہے۔ کسی انسان سے اس کے مزا ج کے خلا ف کام لینا
ظلم ہے ، جبر ہے ۔ اس سے انسان کے اندر ایک حبس کی کیفیت پیدا ہو تی ہے ۔
اس پر جمو د طا ری ہو جا تا ہے اور پھر یہ جمو د اندر ہی اندر لا وے کی طر
ح کھو لتا ہے اور پھر کسی نامعلوم لمحے میں ابل کر لا وا با ہر آجا تا ہے
اور ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا تباہ کر دیتا ہے ۔ مظلوم کی خا مو شی
ظالم کی عبرت کی ابتدا ہے ۔ خا موش مظلوم ، خا مو ش طو فان کی طر ح بڑا
خطرناک ہو تا ہے ۔کسی انسان سے اس کے معا وضے سے زیادہ کام لینے کا نام بھی
ظلم ہے۔ معا وضہ دینے والے کی ہستی کے مطا بق ہو نا ضروری ہے۔ سب سے بڑا
ظلم کسی کی محنت کو را ئیگا ں کرنا ہے ۔ کسی انسان میں وسوسہ پیدا کرنا بھی
ظلم ہے ۔ قوم کو تذبذب میں گرفتا ر کرنا ظلم عظیم ہے ۔ بلا شبہ قلم تلوا ر
سے زیا دہ طا قتو ر ہے اور دہشتگردوں کے خلا ف استعمال ہو نے والی تلو اری
قلم ہر لکھا ری کے لیے مو ت کا سامان ثا بت ہو سکتی ہے ۔ امن و آشتی کی با
ت دہشتگر د اپنے نظریا ت و احساسات اور سوچ کے خلا ف پر وپیگنڈہ گردانتے
ہیں ہر وہ شخص دہشتگردوں کا دشمن ہے جو حقوق انسانی کی با ت کرتا ہے جو علم
و حکمت کی با ت کرتا ہے جو قرآن و سنت کی با ت کرتا ہے ہما را دین اور ہما
را ضا بطہ تو گھو نسلے میں بیٹھے ہو ئے پر ندے کو بھی امان بخشتا ہے دین
اسلام نام ہے امن کا ،دین اسلام نام ہے صبر کا ، دین اسلام نام ہے بردبا ری
کا ، دین اسلام نام ہے برداشت کا ، دین اسلام نام ہے پناہ کا ، دین اسلام
نام ہے عزت و آبر و کا ، دین اسلام نام ہے محبت اور چا ہت کا پھر یہ چا رسو
نفرتو ں کا سما ں کیو ں دکھائی دیتا ہے؟ کیو ں من گڑ ھت مذہبی عقائد اور
نظر یا ت کے مرہو ن منت دین کا دستو ر اور طریقہ مسخ کیا جا رہا ہے دین کے
مسیحا اور قائد و رہنما رسول اکرم ﷺ نے عملی زندگی میں سیرت و کردار کا
ایسا سچا اور ستھرا طر یقہ چھوڑا ہے کہ اب کسی کے قا عدے قانون کی گنجا ئش
نہیں نام نہا د دین کے ٹھیکیدار اسلام کا چہرہ مسخ کرنا چا ہتے ہیں انسانیت
میں نفرتوں اور قدورتو ں کے بیج بونا چا ہتے ہیں لیکن ان عقل کے اندھوں کو
کیا معلو م کے محمد عربی ﷺ کے غلام کسی کی خود سا ختہ شریعیت کے پیروکا ر
نہیں بلکہ رسول ہا شمی ﷺ کی حقیقی محبت اور زندگی کے پرستا ر ہیں آج کا تبا
ہی و بربادی پھیلا نے والا دہشتگرد خود کو مجا ہد اور غا زی کہلوا کر دین
کی تو ہین کا مرتکب بنتا ہے ہمیں مسلک ، منصب ، لسانی، علاقائی ، نسلی اور
نصبی گروہ بندی کے جال سے نکلنا ہوگا فرقہ واریت اور انا پر ستی نے عراق کو
جنگ کا شکا ر بنا یا اسی آگ نے شام اور مصر کے اندر خونی انقلا ب برپا کر
کے رکھ دیا اسی تفریق اور اختلاف نے مسلمانو ں کو پستی اور تنزلی کا شکا ر
بنا دیا خلفا ئے راشدین نے تو اپنی سلطنت میں موجود غیروں کو بھی پناہ اور
امان بخشی پھر آج کے مسلمان کے دل میں مسلمان کا خوف کیو ں دکھائی دیتا ہے
؟ پیغمبران دین کی بعثت کا مقصد ہی سچائی ، ایما نداری ، دیانتداری اور عدل
و انصا ف کا حصول تھا پھر آج کا مسلمان نا انصافی اور بے راہ روی کے گہرے
کنویں میں گرا ہوا دکھائی کیو ں دینے لگا ہے؟ محمد مصطفیﷺ سے لیکر حضرت
عیسیٰ ؑ تک سیرت و کردار نے حکمرانی کی پھر آج کا مسلمان اپنے آپ کو ان
مقدس اور معتبر ہستیو ں سے بھی زیادہ عقل مند اور فہم و فراست کا منبع کیو
ں سمجھتا ہے؟ اگر ہم دنیا میں خیر ، آزادی ، امن اور ترقی کے خواہا ں ہیں
تو ہمیں آس پاس رہنے والوں کے امن ، آزادی ،سکون اور راحت کا بھی خوب خیال
رکھنا ہو گا دہشتگرد کا کوئی مذ ہب کوئی مسلک اور کو ئی دین و ایمان نہیں
وہ تو صرف دنیا میں تباہی و بربادی اور افرا تفری کا موجد بنتا ہے اب
دہشتگردوں کے ساتھ برابری کی رسم نبھا نا ہو گی کیو ں کہ ظالم کے ساتھ نرمی
اور انصاف بھی سب سے بڑی بزدلی اور گناہ کبیرہ ہے جو لوگ انسانیت کو نیست و
نا بوت کرنا چا ہتے ہیں جو لوگ انسانی حقوق کو پامال کررہے ہیں ان کو سبق
سیکھانا ہو گا خیبر پختونخواہ میں علم و کتاب کی روشنی پھیلا نے والی نرم و
نازک ملا لہ کو بھی خا موش کر نے کیلیے دہشتگردی اور آتشی اسلحہ کا استعمال
عمل میں لایا جا تا ہے امن کا نام لینے والو ں کو بس یونہی خاموش کیا جا نے
لگا تو پھر عدل و انصاف اور قاعدہ قانون ملک سے ختم ہو جا ئے گا کوئی بھی
چھو ٹا موٹا دہشتگردگروپ اور تنظیم اپنے من چا ہے عزائم کو پائیہ تکمیل تک
پہنچا نے کے لیے حکومت کو بلیک میل کرنے لگے گیں اور ملک کا نظم و نسق تباہ
ہو جا ئے گا جو لو گ ہما رے آئین اور قانون کو تسلیم کر لیں اور ہتھیا ر
ڈال کر پرامن مزاکرات کے لیے تیا ر ہو جا ئیں ان کو تو چھوٹ دی جا سکتی ہے
لیکن جو مسلح گروپ اپنی ہٹ دھرمی اور بغا وت کو چھو ڑنے کے لیے رضا مند
نہیں ہیں ان کے لیے نرم گو شہ رکھنے والا بد بخت اور ظالم ہے ۔ چا ہے وہ
عسکریت پسند ہو ، مذہبی انتہا پسند یا نام نہا د سیاست دان دنیا میں ہر ملک
کا آئین اور قانون اسلیے بنایا جا تا ہے تا کہ وہا ں کے با شندے اس کا
احترام کریں وہا ں پر امن و امان اور نظم و ضبط کی فضاء قائم رکھی جا سکے
اگر اس نگر کے با سی غیر آئینی ، غیر قانونی ، غیر انسانی اور غیر فطری مو
قف اختیا ر کریں تو یہ سب بغا وت اور ہٹ دھرمی کے زمر ے میں آتا ہے ایسے
منفی سوچ کے حامل افراد کے خلا ف قانونی کا روائی سٹیٹ کی اولین ذمہ داری
ہے اگر حکمران اپنی جان کی امان پا نے کے لیے یو نہی رعایا کی قربانی دیتا
رہے گا تو عدل و انصاف کا دامن ہا تھو ں سے چھوٹ جا ئے گا اور معا شرتی بگا
ڑ زمانے میں کھلے عام سراعیت کرنے لگے گا خطرناک دہشتگرد قیدیو ں کو ایک
لمحہ بھر کی چھوٹ اور مہلت بھی بد امنی کو فروغ دینے کی نا پاک جسا رت ہے
اگر یو نہی کھلے عام قتل و غا رت کا با زار گر م کرنے والو ں کو آزاد کیے
جا نے لگا تو پو ری قوم غلام بن جا ئے گی قتل کا بدلہ قتل اور ظلم کا بدلہ
ظلم فطری تقاضا ہے ملک بھر میں موجود 468 دہشتگرد سزائے مو ت کے قیدیو ں کو
چند سیکنڈ کے لیے بھی تختہ دار سے دور رکھنا ملک وقوم کو تباہی و بربادی کی
طرف دھکیلنے کے مترادف ہے اسلامی جمہو ریہ پاکستان کو دہشتگردی ، بد امنی ،
افراتفری ، انتہا پسندی ، فر قہ واریت ، قتل و غا رت گری ، بھتہ خوری اور
دوسرے تمام جرائم اور سازشو ں سے محفوظ بنا نے کے لیے پر امن مزاکرات اور
فو جی ایکشن دونو ں آپشنز کو زیر غور رکھنا ہوگا۔
ہم تو چلتے ہیں لو خدا حافظ
بت کدہ کے بتو خدا حافظ
کر چکے تم نصیحتیں ہم کو
جا ؤ بس نصیبو خدا حافظ |