بعض سیاسی مبصرین، تجزیہ نگاروں
اور ذمے دار حلقوں کا یہ ماننا رہا ہے کہ پاکستان دشمن عناصر جو دہشت گردی
کے واقعات کی سر پرستی کررہے ہیں دراصل اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنا چاہتے
ہیں۔انہوں نے بعض لوگوں کو یہ ذمے داری سونپ رکھی ہے کہ جونہی کوئی ایسا
سانحہ رونما ہو تو وہ اسے اپنی کارکردگی قرار دے کر اس کے اسباب و عوامل
بیان کرنے کیساتھ ساتھ آئندہ کی مفروضہ منصوبہ بندی کا بھی اعلان کردیں
تاکہ اصل محرکات اسباب اور ذمے داروں حکومتی حلقوں اور خاص طور پر تحقیقاتی
اداروں کی توجہ ہٹائی جاسکے۔لیکن جب اداروں کے نام سے ایسی چیزیں منظر عام
پر سامنے آئیں کہ جس کی تصدیق اور پھر تردید سے عوام میں بے چینی پیدا ہو
تو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام کی توجہ کسی خاص نقطے کی جانب مبذول کرائی جا
رہی ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے حصول کا مقصد ہندو اور
انگریز کے پنجہ ء استبداد سے نجات کیلئے بنایا تھا۔انھوں نے مسلسل دس سال
یہ لڑائی ، ہندوؤں اور انگریزوں سے ہی نہیں بلکہ خود نیشنلسٹ مسلمانوں ،
جمعیت العلما ء ، جمعیت الانصار ، سرحد کے سرخ پوش مجلس احرار ،نیز جماعت
اسلامی اور یونینسٹ پارٹی کی مسلسل مخالفت کے علی الرغم پاکستان حاصل
کیا۔مخالفین پاکستان کے دلوں کا اضطراب کے اندازہ لگانے کیلئے ہمیں اِن کے
خیالات اور اِن کے مذموم ا عزائم کو سامنے رکھنا ہوگا۔ڈاکٹر شیام پرشاد مکر
جی کا کہنا تھا کہ"ہمارا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کو پھر سے
ہندوستان کا حصہ بنالیا جائے ، اس حقیقت کے متعلق میرے دل میں ذرا سا بھی
شبہ نہیں کہ ایسا ہوکر رہے گا ، خواہ یہ معاشی دباؤ سے ہو یا سیاسی دباؤ سے
یا اس کیلئے دیگر ذرائع استعمال کئے جائیں۔"دیوان چمن لال جیسے(بظاہر
اعتدال پسند ہندو) یہ کہہ کر ہندوؤں کی ڈھارس بندھا رہے تھے کہ"میں نا امید
ہونے والوں میں سے نہیں ہوں ، اس لئے مجھے یقین ہے کہ تقسیم ہند ایک عارضی
حادثہ ہے ، اس کے باوجود ہمیں تیس کروڑ ہندوؤں کو اس مقصد کے حصول کیلئے
جان تک دے دینے کیلئے تیار رہنا چاہیے ، یہ بہت غلط ہوگا کہ ہم (اپنی قوم
کو) امن اور شانتی کی لوریاں دے دیکر اسی طرح سلائے رکھیں جس طرح ہم نے
انہیں اِس وقت سلائے رکھا اور جس کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے ۔ ہم میں
بنیادی نقص یہ ہے کہ ہم ضرورت سے زیادہ امن پسند واقع ہوئے
ہیں"۔(آرگنائزر)۔تقسیم ہند کیلئے جب بل برطانوی پارلیمان میں پیش ہوا تو
انگریز وں کی دلی آرزو اس کے لبوں تک کچھ اس طرح آئی جب بر طانیہ کے وزیر
اعظم لارڈ ایٹلی (جو اس وقت میجر ایٹلی تھے) نے اپنی تقریر میں کہا
کہ"ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے ، لیکن مجھے امید واثق ہے کہ یہ تقسیم زیادہ
عرصہ تک قائم نہیں رہ سکے گی اور یہ دونوں مملکتیں جنہیں ہم اس وقت الگ کر
رہے ہیں، ایک دن پھر آپس میں مل کر رہیں گی"۔(آرگنائزر)۔۳؍جون ۱۹۴۷ ء کو
تقسیم ہند کا اعلان ہوا اور ۱۶؍ جون کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے ، حسب
ذیل ریزولیوشن پاس کیا۔"آل انڈیا کانگریس کمیٹی کو پورا پورا یقین ہے کہ جب
موجودہ جذبات کی شدت میں کمی آجائے گی تو ہندوستان کے مسئلہ کا حل صحیح
صحیح پس منظر میں دریافت کرلیا جائے گا اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے دو الگ
الگ قومیں ہونے کا باطل نظریہ مردود قرار پا جائے گا"۔تقسیم ہند کے فیصلے
پر دستخط کرنے والے جواہر لال نہرو اپنی قوم کو یہ کہہ رہے تھے کہ"ہماری
اسکیم یہ ہے کہ ہم اس وقت جناح کو پاکستان بنا لینے دیں اور اس کے بعد
معاشی طور یا دیگر انداز سے ایسے حالات پیدا کرتے چلیں جائیں جن سے مجبور
ہوکر مسلمان گھٹنوں کے بل جھک کر ہم سے درخواست کرے کہ ہمیں پھر سے
ہندوستان میں مدٖ غم کرلیجئے"۔(پاکستان فیسز انڈیا صفحہ۹۹)۔راجہ مہندر
پرتاپ نے ۱۹۵۰ ء میں اپنی قوم کو مشورہ دیا کہ"جب تک پاکستان کا وجود ختم
نہیں ہوجاتا ہمارا ملک کوئی ترقی نہیں کرسکتا ، حالات اس طرح بدل رہے ہیں
کہ مجھے یقین ہوتا چلا جارہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں جنگ لانیفک
ہوگئی ہے بنا بریں میں حکومت ہند کو مشورہ دونگا کہ وہ افغانستان کو اپنے
ساتھ ملا کر پاکستان کو ختم کردے"۔(دیر بھارت،۲۱؍دسمبر ۱۹۵۰ ء)سوشلٹ پارٹی
کے لیڈر ڈاکٹر رام منوہر لوہیانے اپنی کتاب"اگلا قدم"میں لکھتے ہیں کہ"ہم
زیادہ عرصہ انتظار نہیں کرسکتے ، شائد دو تین سال کے عرصہ ہی میں امرتسر
اور پاکستان کی درمیانی حدِ فاصل مٹ جائے گی ، ہمیں پاکستان کے اس زہر کو
ختم کرکے تقسیم ِ ہند کو معدوم کردینا چاہیے ، مجھے یقین ہے کہ مصنوعی
تقسیم ختم ہوجائے گی اور پاکستان اور ہندوستان پھر سے ایک ملک ہوجائیں
گے"۔گاندھی نے پاکستان بننے سے تین دن قبل بڑے دعوے کے ساتھ کہا تھا کہ"اگر
سارا ہندوستان جل کر راکھ ہوجائے ہم پھر بھی مطالبہ ء پاکستان کو منظور
نہیں کریں گے خواہ مسلمان اسے بزور شمشیر ہی کیوں نہ طلب کریں"۔(دی ٹرانسفر
دف پاور اِن انڈیا مصنفہ ای، ڈبلیو آر․ لوبی)۔پاکستان کی تشکیل کی بعد
قربانی دینے والوں نے نقل مکانی کی اور لاکھوں کی تعداد میں نئی سرزمین
پاکستان کا رخ کیا اور اسی طرح پاکستان سے نئے ہندوستان کی جانب لاکھوں
ہندو ہجرت کرگئے۔ قیام ِپاکستان کے بعد معاشی طور پر کمزور اور دفاعی طور
پر ناتواں مملکت تھی اور معاشی و سرکاری دفاتر میں تعلیم یافتہ افراد کی
کمی کو ہندوستان سے آنے والوں مہاجروں نے پُر کرکے سندھ بالعموم اور
بالخصوص کراچی جیسے سندھ سے الگ کرکے وفاق کا درجہ دے دیا تھا ، دن رات
محنت کرکے نوزائیدہ ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کردیا ۔کراچی ،پاکستان کا
دارالخلافہ بنا اور کراچی نے پاکستان کے اخراجات پورا کرنے کیلئے اپنی تمام
افرادی قوت کو بروئے کار لاکر اس قابل بنا دیا کہ کراچی ، پاکستان کو
70فیصد ریونیو فراہم کرنے لگ گیا۔مخصوص معتصبانہ سوچ کے تحت پاکستان کے
پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد کراچی کے باسیوں کو اپنے اُن
رشتے داروں کی وجہ سے معتوب اور ناقابل ِ اعتبار سمجھنا شروع کردیا گیا
جنھیں 1951ء کے بعد پاکستان میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا اور جھنوں نے
دو قومی نظریہ کے تحت بننے والے ملک میں اپنے لئے گنجائش نہ ملنے کے سبب
بھارت میں ہی سکونت اختیار کرلی۔ پھر ایک آمرانہ سازش کے تحت دارالخلافہ
کراچی کو ختم کرکے اسلام آباد منتقل کردیا گیا ۔ون یونٹ میں بھی مغربی
پاکستان کا درالخلافہ لاہور کو بنا دیا گیا ، جس سے کراچی کے احساس محرومی
میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔تئیس سال ، سندھ سے الگ رہنے والے کراچی کو جب
دوبارہ سندھ میں شامل کیا گیا تو اُس وقت تک کراچی ایک اقتصادی ماں کے طور
پر پورے پاکستان کا بوجھ اٹھا رہا تھا لیکن اس کے احساس محرومی کو ختم کرنے
کے بجائے خاص منصوبہ بندی کرکے ۱۹۷۲ ء میں لسانی تفریق وکوٹہ سسٹم بل منظور
کرلیا گیا اور کراچی کے باسیوں کو یہ احساس باور کرایا گیا کہ سندھ میں دو
قومتیں آباد ہیں جنہیں دیہی سندھی اور شہری سندھی کہا جاتا ہے، جیسے عرف ِ
عام میں اب مقامی اور غیر مقامی اصطلاح کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔اسی
طرح سندھی کو صوبائی سرکاری زبان قرار دینے کے قانون سازی کرنے کی کوشش نے
بھی کراچی و حیدرآباد سندھ بھر کے اردو بولنے والے مہاجروں کو احسا س دلایا
کہ انھیں دل وجاں سے تسلیم نہیں کیا گیا ۔سرکاری ملازمتوں سے مہاجروں کی
بیدخلی اور پی پی پی کے زیڈ اے بھٹو ، بے نظیر بھٹو سے لیکر زرداری گروپ تک
نے شہری اور دیہی تفریق کو فروغ دیا یہاں تک کہ مہاجرستان ، جناح پور ،
اردو صوبہ ، جنوبی سندھ جیسے ہوائی منصوبوں کو فروغ دینے کی کوشش میں
طبقاتی تفریق کو مزید پھیلا دیا۔اب مہاجر لبریشن آرمی کے نئے شوشے نے تمام
پاکستانیو ں کو متفکر اور خود کراچی والوں کو حیراں کردیا کہ کیا انھیں
کوئی لائن آف ایکشن دی جارہی ہے۔ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے والوں کے
دعوؤں کو کراچی والوں نے خاک میں ملا دیاتھا ۔اس لئے ہمیں اور خاص
طورپاکستان سے محبت کرنے والے تمام اداروں کے اہلکاروں کو کراچی کی عوام یا
سیاسی مینڈیٹ حاصل کرنے والی تمام سیاسی قوتوں کے مینڈیٹ کے برخلاف افوہ
سازی سے گریز کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ماضی سے افوہ سازیوں اور انا
پرستیوں کی بنا ء پر ہی کراچی بے امنی کا شکار ہے ، اس لئے بہی خواہوں سے
یہی درخواست ہے کہ کراچی کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور ایسی سوچیں
عوام میں پیدا نہ کریں جس سے ۶۷ سالوں سے احساس محرومی کے شکار عوام میں
منفی سوچ ابھرے ۔مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننے کی بھی یہی وجوہات
اورمنفی روش تھی جو اب سندھ کے شہری علاقوں کے لئے روا رکھی جا رہی ہے۔اس
عمل سے گریز ملکی مفاد میں ہوگا۔ |