کراچی کے ’بنگالی پاکستانی‘

کراچی کے ’بنگالی پاکستانی‘

کراچی میں لوگ آتے ہیں اور سما جاتے ہیں

کراچی شہر میں بنگلہ بولنے والوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کے ادارہ نارا (نیشنل ایلینز رجسٹریشن اتھارٹی) کے مطابق کراچی میں بنگالیوں کی تعداد 11 لاکھ ہے۔ نیز ان سے ملتی جلتی ثقافت کے

حامل برما کے تارکین وطن ڈھائی لاکھ کی تعداد میں مقیم ہیں۔
کراچی میں لوگ آتے ہیں اور سما جاتے ہیں

دوسری طرف بنگالیوں کی سیاسی تنظیم پاک مسلم الائنس کا دعوی ہے کہ یہ تعداد کراچی میں 22 لاکھ اور ملک بھر میں35 لاکھ ہے۔ الائنس برمیوں کے وجود سے سرے سے انکاری ہے۔

الائنس کے صدر ایس ایم فاروق کہتے ہیں کہ ’یہاں کوئی برما کا باشندہ نہیں، سب بنگلہ بولنے والے ہیں‘۔ ان کے اس دعوے میں اتنی حقیقت ضرور ہے کہ برما(موجودہ نام میانمار) میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد بالخصوص برمی صوبہ اراکان سے بڑی تعداد میں پاکستان آ جانے والے مسلمانوں کی کثیر تعداد بنگالیوں کے علاقوں میں ہی مقیم ہے اور وہ بنگالی تنظیموں بالخصوص پاک مسلم الائنس میں شامل ہو کر ان تنظیموں کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ انہیں برمی شناخت کی بجائے بنگالی شناخت میں پاکستانی شہریت حاصل کرنے کے مواقع کہیں زیادہ نظر آتے ہیں۔

بنگالی اب سیاسی طور پر بھی منّظم اور فعال ہو چکے ہیں۔ پاک مسلم الائنس نام سے وجود میں آنے والی تنظیم اس فعالیت کا واضح اور نمایاں ترین مظہر ہے۔

اس الائنس نے بلدیاتی اور بعد ازاں عام انتخابات میں حصّہ لیا اور بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کئے۔ الائنس کے مطابق کراچی کے بلدیاتی اداروں میں اس کے 36 کونسلر ہیں۔ الائنس کی سیاست کا دائرہ کراچی ہی تک محدود نہیں رہا۔ الائنس کے مطابق اس کے حیدرآباد میں تین اور بدین کے قریب گولارچی نامی شہر میں چھ کونسلر ہیں۔

عام انتخابات میں الائنس نے کراچی سے سندھ اسمبلی کے لئے 11 اور قومی اسمبلی کے لئے سات امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا۔ الائنس کوئی سیٹ توحاصل نہ کرسکا مگر ایک لاکھ 25 ہزار ووٹ لے کر بنگالیوں کی نمائندہ تنظیم کے طور پر ضرور ابھرا ہے۔ سیٹ نہ ملنے کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ کراچی میں رہائش پذیر بنگالی ووٹ کا حق نہیں رکھتے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق کراچی میں آباد بنگالیوں کی 80 فیصد تعداد نہ صرف شناختی کارڈ حاصل کر چکی ہے بلکہ ووٹنگ لسٹوں میں ان کے ناموں کا اندراج بھی ہو چکاہے۔ دراصل شہر کی تمام فعال سیاسی جماعتوں نے جو ووٹوں کے اس خزانے کو للچائی ہوئی نظر سے دیکھتی ہیں انتخابی موسم میں بنگالی بستیوں کے پھیرے لگائے اور انتخابی جلسوں میں بنگالیوں کے پاکستانی شہریت کے دعوے میں ہاں میں ہاں ملا کر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

شناختی کارڈ اور شہریت
شناختی کارڈ پاکستانی شہریت کی دلیل نہیں۔ ’شہریت سیٹیزن شپ سرٹیفیکیٹ لئے بغیر نہیں مل سکتی

نارا کے ڈائریکٹر جنرل مظہر علی شیخ
یوں ان جماعتوں کے امیدواروں نے بنگالیوں کی کثیر تعداد کا دل جیت کر ووٹوں سے جھولی بھر لی۔ انتخاب میں فتح کیلئے ’بنگالی پروری‘ کی سیاست میں کوئی جماعت پیچھے نہیں۔ اس معاملے میں مسلم لیگ کے تمام دھڑے ‘ بنگلہ دیش میں مقیم بہاریوں کو پاکستان لانے کی مخالف پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی سب کی سب ایک ہی صف میں کھڑی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک زمانے میں کراچی میں آبادی کے دباؤ کے خلاف نعرہ زن متحدہ قومی موومنٹ بھی اس مسئلے پر ان جماعتوں کی ہم رکاب نظر آتی ہے۔ ضمنی انتخاب حلقہ این اے 242 میں پاک مسلم الائنس کی جانب سے متحدہ کے امیدوار کی حمایت بھی کسی ایسے سمجھوتے کا پتہ دیتی ہے جس کی بناء پرمتحدہ نےبنگالیوں کو پاکستانی شہری تسلیم کر لیا ہے۔

انتخابات میں شکست نے الائنس کی ہمت نہیں توڑی بلکہ شاید بڑھائی ہی ہے۔ اس لئے الائنس کے صدر کہتےہیں کہ’ ہم آئندہ انتخابات میں ملک بھر سے اپنے نمائندے کھڑے کریں گے‘۔

ان کا دعویٰ ہے کہ الائنس کراچی میں صوبائی اسمبلی کی سات اور قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ جبکہ ضلع بدین سے ایک اور لاہور سے بھی ایک نشست ملنے کی امید ہے۔

مچھر کالونی‘ کیماڑی ٹاؤن‘ علی اکبرشاہ گوٹھ کورنگی‘ ضیاء کالونی گلشن اقبال اور اورنگی ٹاؤن کے مختلف سیکٹرز سیمت کراچی میں بنگالیوں کی 103 چھوٹی بڑی آبادیاں ہیں۔

نارا کے ڈائریکٹر جنرل مظہر علی شیخ کہتے ہیں کہ 1991 میں ایک سرکلر کے ذریعہ حکومت پاکستان نے واضع کیا تھا کہ شناختی کارڈ پاکستانی شہریت کی دلیل نہیں۔ ’شہریت سیٹیزن شپ سرٹیفیکیٹ لئے بغیر نہیں مل سکتی‘۔

الائنس کا دعویٰ ہے کہ بنگالی باشندوں کے پاس پاسپورٹ سمیت تمام تر دستاویزات موجود ہیں۔ طرفین کے دعوؤں سے قطع نظر قومی دستاویزات بشمول شناختی کارڈ رکھنے والے بنگالی یا بنگلہ دیشی باشندوں کے موثر سیاسی عنصر بن جانے کے بعد شاید نارا کے پاس اس معاملہ میں زبان بندی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے اور حالات بتاتے ہیں کہ بنگالیوں کی یہ منزل اب زیادہ دور نہیں۔

بنگالیوں کی حمایت جہاں ووٹوں کے حصول کے لئے سیاسی حلقوں کی جانب سے ہو رہی ہے وہیں صنعتکار بھی اس حمایت اور اعانت میں پیش پیش ہیں۔ انتہائی کم تنخواہوں پر فیکٹریوں میں کام کرنے والے بنگالی مزدور ان صنعتکاروں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں جن کی وجہ سے وہ اجرتوں کی مد میں کروڑوں روپے بچا رہے ہیں اور شہریت کے متمنی ان ’بنگالی پاکستانیوں‘ کا استحصال جاری ہے۔

M Usman Jamaie
About the Author: M Usman Jamaie Read More Articles by M Usman Jamaie: 36 Articles with 29641 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.