ٹارگٹ
سماعتوں کے بحران میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لفظ اپنے معانی کھو
بیٹھتے ہیں۔کائنات کی ازلی سچائیاں لفظیات کے گورکھ دھندے میں سر پھٹکتی
رہتی ہےاور حقیقت جھوٹ کے بلند بانگ دعوؤں کے سامنے دم توڑنے لگتی ہےایسے
حالات میں حکمران طبقہ اقتدارکے نشے میں دھت رہتا ہے افسر شاہی سارا دن
اختیارات کی بھول بھلیوں میں الجھی رہتی ہےصاحباںِ علم و دانش مصلحت کی
چادریں اوڈھے اپنی اپنی چائے کی پیالی میں انقلاب برپا کر رہے ہوتے ہیں جس
کی بہترین نمائش ہم ہر شام ٹیلی وژن سکرین پر ہونے والی دانش بندانہ گفتگو
میں دیکھ رہے ہیں اور عام انسان جن کے بارے میں سید ضمیر جعفری مرحوم نے
کہا تھا کہ ۔عام انسان بھیڑوں کا وہ گلہ ہیں جن کو چرواہے ہر حال میں چاہیے۔
ایک بار پھر کسی نجات دئندہ ، مسیحا یا اوتار کے خواب دیکھنے لگتے ہیں ۔
دنیا کی معلوم تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ محروم قوموں کو ظالموں کے چنگل
سے آزاد کروانے اور پائیدار امن اور سلامتی کے حصول کے لیے جنگوں کا چلن
صدیوں سے عام رہاہے ۔ ٹینک اور توپیں ہر دور میں فتح اور سلامتی کے جشن
منانے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں ڈرون اور تھنڈر اب بھی دھرتی کی کوکھ کو
امن کا گہوارہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور نیو کلیئر پاورڈ ائیر کرافٹ
کیرئیر ،یو ایس ایس نمٹز دیگر جنگی جہازوں کے ہمراہ جمہوریت کی سر بلندی کے
لیے شام کے قریب پہنچ چکے ہیں ۔
کہا جاتا ہےکہ دنیا میں سب سے ذیادہ خون امن کے نام پر بہایا گیا اور اس
قرعہِ ارض پر سب سے زیادہ قتل و غارت گری مذ ہب کی بنیاد پر کی گئ عام
انسانوں کے نزدیک جنگ کی بنیادی وجہ مذہب کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی لیکن
جنگ کے پجاری ہمیشہ جنگ کو معاشیات کی نظر سے دیکھتے ہیں امریکہ کے سابق
صدر روزویلٹ نے کہا تھا کہ جنگ کا بنیادی مقصد cash & carry کے سوا کچھ
نہیں ہوتا۔ دوستو عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والی اقتدار کی رسہ کشی نے
جنگِ عظیم اول اور جنگِ عظیم دوم کو جنم دیا جس میں لاکھوں انسان گولی اور
بارود کی نظر کر دیے گئے اور امریکہ نئی عالمی طاقت کے طور پر دنیا کے نقشہ
میں ابھرنے لگا اور عالمی منظرنامے میں امریکہ کا کلیدی کردار کھل کر سامنے
آنے لگا ۔
دوستو ایک وقت تھا جب مسئلہ کشمیر خطے میں پائیدار عالمی امن کے حصول کی
راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا عالمی برادری اپنے معاشی مفادات کی خاطر خطے
میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے اپنی خارجہ پالیسیاں کشمیر کے پسِ منظر
میں ترتیب دیتی اور عالمی میڈیا میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی منصفین
اور متحدہ اقوام کی کو ششوں کو خراج پیش کیا جاتا۔پھر آہستہ آہستہ مسئلہ
کشمیر اقوامِ متحدہ کے کسی سرد خانے میں چلا جاتا ہے اور عالمی فورمز پر
کشمیر اور حقِ خود ارادیت جیسے لفظ اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں کیونکہ اب
امن پسند قوموں اور انسان دوست تنظیموں کو ایک نیا خطرہ درپیش ہے جوعالمی
طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے سوشلزم کے نعرے بلند ہونے لگتے ہیں اور دنیا
امریکی اور روسی بلاک میں تقسیم ہونے لگتی ہے عالمی میڈیا اور عالمی برادری
اس نئے خطرے کو سویت یونین کا نام دیتی ہے۔سفید ایوانوں میں اس سرخ خطرے سے
نمٹنے کے لیے covert coded operations ڈیزائن کیے جاتے ہیں افغانستان کی سر
زمین پر میدانِ امن سجتا ہے ہم بھی الحکم للہ والملک للہ کا نعرہ بلند کرتے
ہیں اور میدان میں کود پڑتے ہیں دو عالمی طاقتوں کے درمیان دس سال تک آگ
اور خون کا کھیل جاری رہتا ہے بالآخر سویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے اور
خطے میں پائیدار امن کا خواب پورا ہو جاتا ہے مگر زمین آگ اگل رہی ہے دھرتی
خون آلود ہے اور انسانیت خون کے آنسورو رہی ہے اور آگ اور خون کا یہ کھیل
جنم دیتا ہے اداس نسلیں اورانتہا پسند تنظیمیں۔
وقت تھوڑا سا آگے بڑھتا ہےسوشلزم اور سویت کے لفظ بھی مسئلہ کشمیر کی طرح
اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں اور کمیونزم اپنے معانی بھول بیٹھتا ہےکیونکہ اب
مہذب دنیا کو ایسے ہتھیاروںسے ایک بڑا خطرہ درپیش ہے جو اپنے اندر وسیع
ترپیمانے پر تباہی کی صلاحیت رکھتے ہیں عالمی میڈیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے
خلاف مہم کا آغاز کیا جاتا ہے ہیروشیما اور ناگاساکی کے پسِ منظر میں امن
کے گیت فلمائے جاتے ہیں عالمی تفتیش کار ایجنسیاں دور دیشوں کی جامہ
تلاشیاں شروع کرتی ہے قوموں پر شب خون مارا جاتا ہے انسانیت کو ایک با پھر
بلا تفریقِ مذہب و نسل بارود کی نظر کر دیا جاتا ہے اور دنیا پائیدار امن
کے حصول میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن یاد رہے جنگیں ہمیشہ cash & carry کے
لیے لڑی جاتی ہیں۔
تہذیب اپنے جوبن پہ آتی ہے تمدن اکیسویں صدی میں داخل ہوتا ہے میڈیا
انگڑائی لیتا ہے امریکہ میں انیس دہشت گرد چار مسافر طیارے ہائی جیک کرتے
ہیں اورکیمرے کی آنکھ کے بالکل سامنے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دیتے ہیں کم و
بیش تین ہزار انسان لقمہ اجل بنا دیے جاتے ہیں- نائن الیون کیو ں ہوا کیسے
ہوا کس نے کیا اور اس سے کس نے کیا پایا یہ ایک الگ بحث ہے دلچسپی رکھنے
والے دوستوں کے ذوقِ مطالعہ کے لیے میری اس موضوع پر ریسرچ Framing War
Against Terrorism حاضر ہے۔یہاں سے عالمی امن، عالمی برادری، عالمی مفادات
اور عالم گیریت یعنی Globalizationکو سب سے بڑا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے
جسے دہشت گردی یا Terrorism کانا م دیا جا تا ہے مہذب دنیا اپنے وسائل کا
بیشتر حصہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں انویسٹ کرنے کے لیے تیا ر ہو
جاتی ہے امن پسند قومیں اور انسان دوست طاقتیں ان انیس دہشت گردوں کو
کیفرِکردار تک پہنچانے کا تہیہ کر کے اٹھتی ہیں اور دنیا پر ایک نہ ختم
ہونے والی جنگ مسلط کر دی جاتی ہے ہری بھری فصلیں راکھ کے ڈھیر بنا دیے
جاتے ہیں بستیاں قبرستانوں میں بدل جاتی ہیں اور مکانات تورا بورا بنا دیے
جاتے ہیں نسلیں مفلوج اور قومیں معذور کر دی جا تی ہیں کم و بیش 23لاکھ
انسان انسانوں کی لگائی ہوئی اس آگ میں جل جاتے ہیں اور اپنے اپنے پرچموں
میں لپٹی ہوئی لاشیں دنیا بھر کی ماؤں کا مقدر بنا دی جا تی ہیں۔
عالمی برادری گیارہ سال کی اس بے ننگ و نام جنگ کے بعد خطے میں پائیدار امن
کی قیام کا اعلان کرتی ہے مر مری ایوانوں میں محفلِ رقص و سرود سجتی ہے
مہذب دنیا میں فتح کے جشن منائے جاتے ہیں اور میڈیا سکرینوں پر امن کے
شادیانے بجائے جاتے ہیں کہ دنیا کو دہشت گردی سے پاک کر دیا گیا ہے اور یو
ں خطے میں پائیدار امن کے قیام کا خواب اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے۔
لیکن ذرہ ٹھہریے پائیدار عالمی امن اور بہارِعرب جسے اتنی قربانیوں کے بعد
حاصل کیا گیا تھا ایک بار پھر خطرے میں ہے کیونکہ بشارلاسد پر الزام ہے کہ
اس نے نہ جا نے کتنے ہی معصوم انسانوں کو زہریلی گیس کے ذریعہ ہلاک کیا
ہےاور اب امریکہ اور امن پسند طاقتیں شامی عوام کو بشارلاسد کے مظالم سے
نجات دلانے کے لیےشام کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں لیکن بشارلاسد کو یہ یاد
رکھنا چاہیے کہ جنگیں ہمیشہ False Flag Operations ہی ہوتی ہیں اور جنگوں
کا آخری مقصد cash & carry کے سو ا کچھ نہیں ہوتا۔
|