الحمدلِلّٰہ وسلام علیٰ عبادہٖ الذین اصطفٰی
فصیح اللسان واعظ شیرِیں مقال حضرت مولانا عبدالرحمن اشرفی رحمۃ اﷲ علیہ کا
نام نامی زبان پر آتے ہی ایک ایسی باغ وبہار شخصیت کا تصور ابھرتا ہے جو
حسنِ صورت اور حسنِ سیرت کے ساتھ حُسنِ کلام کا بھی مرقع تھی۔ حضرت مولانا
رحمۃ اﷲ علیہ کو حق تعالیٰ شانہٗ نے گوناگوں خوبیوں سے نوازا تھا۔ میں نے
اپنی زندگی میں بہت کم افراد کو مولانا ؒکی طرح جامع الصفات پایا ہے۔ شریعت
وطریقت کے مسائل پر گہری نظر، دل میں اُتر جانے والا منفرد اندازِ گفتگو،
کسی کی دل آزاری کے بغیر اختلافی مسائل کی تفہیم، خوش مزاجی وبذلۂ سنجی،
سامعین کی رعایت سے علمی محافل میں فاضلانہ اور عمومی مجالس میں عام فہم
اندازِ خطاب ایسی خوبی تھی جو حضرت مولانا رحمۃ اﷲ علیہ کو معاصر علماء سے
ممتاز کرتی ہیں۔
حضرت مولانا رحمۃ اﷲ علیہ کی رحلت سے بلاشبہ دینی، علمی، تدریسی اور تبلیغی
حلقے ایک مخلص جامع شخصیت سے محروم ہوگئے، یوں تو دنیائے فانی سے روزانہ
جانے والوں کی تعداد ہزارو ں میں ہے، اور زندگی کے بیسیوں شعبوں میں رجالِ
کار کم ہوتے جارہے ہیں مگر قحط الرجال کے اس دور میں خدمتِ دین اور درس
وتدریس کے حوالے سے یکے بعد دیگرے تمام شعبے ویران ہورہے ہیں، ہرجانے والا
اپنے پیچھے ایک تاریک او رمہیب خلا چھوڑ جاتا ہے جس کے پُر ہونے کے آثار
دور دور تک نظر نہیں آتے، تاریکیاں بڑھتی جارہی ہیں اور اجالے کم ہورہے ہیں،
درس وتدریس کی مسندیں ہوں یا احسان وسلوک کی مجلسیں، وعظ وتذکیر کی محفلیں
ہوں یا ذکر وفکر کے حلقے ہوں، عصرِ حاضر کے فتنوں کے خلاف یورش کا مسئلہ ہو
یا مسلک وعقیدہ کے تحفظ کی جدوجہد، ہرجگہ رونقیں ماند اور ویرانیاں بڑھ رہی
ہیں، تدریس کی مسندیں اُجڑتی ہیں تو پھر آباد نہیں ہوتیں، منبرومحراب شیریں
مقالی سے محروم ہوتے ہیں تو دوبارہ سامعہ نواز نہیں ہوتے، خانقاہیں خالی
ہوتی ہیں تو عقابوں کی بجائے زاغوں کا بسیرا ہوجاتا ہے غرضیکہ ہر طرف زوال
وانحطاط کے آثار ہیں، یہ صورتِ حال اہلِ فکر ونظر کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے،
فکرو آگاہی اور علم وعمل کے اعتبار سے ہمارا مستقبل مخدوش اور دو ر دور تک
تاریک نظر آتا ہے، کہیں کہیں چراغ روشن تھے تو وہ بھی یکے بعد دیگرے بجھتے
جارہے ہیں ۔
حضرت مولانا عبدالرحمن اشرفی رحمۃ اﷲ علیہ کا وجود اس دورمیں بساغنیمت تھا،
وہ بہت سی نسبتوں کے جامع اور امین تھے اُن کے نام کے ساتھ ’’اشرفی‘‘ کا
لاحقہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدّس سرہٗ سے گہری عقیدت اور
اُن کے مسلک اور مشرب پر پختگی اور استقامت کی دلیل تھا، وہ مسندِ تدریس پر
ایک پختہ کار ، کہنہ مشق اور جیّدُالاستعداد محدّث وفقیہ نظر آتے تھے تو
منبرومحراب پر ایک شیریں بیان اور نکتہ آفریں واعظ ومصلح کی صورت میں جلوہ
گر ہوتے تھے۔ احباب ورفقاء کی محفل میں اُن کی ذات سب کی نظروں کا مرکز
ومحور ہوتی تھی، اُن کی بذلۂ سنجی اور خوش مزاجی محفل کو خوشگوار وپُر بہار
بنا دیتی تھی، مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک صاحب نے اُن سے سوال کیا کہ
نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے چاہییں یا ناف کے نیچے؟ اس مشہور اختلافی
مسئلے کا انہوں نے بے ساختہ ایسا جواب دیا کہ پوری محفل کشتِ زعفران بن
گئی۔ مولانا نے فرمایا کہ بھائی یہ کوئی ایسا مشکل مسئلہ نہیں جن لوگوں نے
نماز اپنی والدہ سے سیکھی ہے وہ سینے پر ہاتھ باندھ لیں۔اور جنہوں نے اپنے
والد سے سیکھی ہے وہ ناف کے نیچے باندھ لیں(عورتوں کو سینے پر ہاتھ باندھنے
کا حکم ہے)
حضرت مولانا رحمۃ اﷲ علیہ کی ایک اور خوبی جو بہت کم خطباء وواعظین میں نظر
آئی یہ تھی کہ آپ مشکل مضامین اور عالمانہ مباحث کو خداداد صلاحیت اور
انداز بیان سے اس قدر سہل فرمادیتے تھے کہ عوام وخواص یکساں مستفیدہوتے
تھے۔
ایک مرتبہ جامعہ خیرالمدارس ملتان کے سالانہ جلسۂ عام میں آپ رحمۃ اﷲ علیہ
نے’’ حجیتِ حدیث ‘‘کے خالص علمی موضوع پر ڈیڑھ گھنٹہ خطاب فرمایا اور اس
بات کے دلائل پیش کیے کہ وحی صرف قرآن کریم میں منحصر نہیں، قرآن کریم ہی
کی آیات سے بطور استدلال فرمایا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر قرآن کریم
کے علاوہ بھی وحی نازل ہوتی تھی، حقیقت یہ ہے کہ آپ کا انداز اس قد ر
پُر تاثیر تھا کہ علماء کے علاوہ عوام بھی عش عش کراُٹھے ، مواعظ و خطبات
میں بھی آپ رحمۃ اﷲ علیہ کا انداز تدریسانہ ہوتا تھا، طویل جملہ ادا کرتے
وقت آنکھیں بند کرلیتے تھے، جب جملے مکمل کرکے آنکھیں کھولتے تو مضمون
سامعین کے دِل ودماغ میں اُتر جاتا، آپ کے الفاظ کی روانی اور جملوں کی
بندش قلوب کو نہال کردیتی، حضرت مولانا رحمۃ اﷲ علیہ نہایت خوش مزاج اور
زندہ دِل تھے، نوجوان تعلیم یافتہ حضرات وخواتین کو اُن کے استفسارات کے
جواب اُن کی ذہنی سطح کے مطابق ایسی محبت وشفقت سے دیتے تھے کہ وہ علماء کے
اخلاق کے گرویدہ ہوجاتے، آپ کا وعظ، جوش وخروش ترنُّم اور تکلّف سے
مبرّاہونے کے باوجود نہایت مؤثر دلچسپ اور مسحور کُن ہوتا تھا۔
جامعہ خیرالمدارس کے سالانہ اجتماعات پر عوام کے ساتھ اہلِ علم کو بھی آپ
رحمۃ اﷲ علیہ کے خطاب کا انتظار رہتا تھا، لاہور جامع مسجد اشرفیہ میں جمعہ
کی خطابت وامامت آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے سپرد تھی مولانا رحمۃ اﷲ علیہ کی شیریں
بیانی اور عالمانہ خطاب کی وجہ سے بعض حوالوں سے بڑی بڑی شخصیات سالہا سال
تک آپؒ کی اقتداء میں نماز ادا کرتی رہیں۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم اور مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کے
تفردات اور جمہور علماء کے مقابلہ میں کمزور دلائل پر مبنی آراء سے اہلِ
علم باخبر ہیں، تاہم دونوں شخصیات نے سالوں تک آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے پیچھے
جمعہ کی نماز ادا کی۔
مولانا ؒ علم وعمل میں اپنے جلیل القدر والد محترم حضرت مولانا مفتی محمد
حسن امرتسریؒ خلیفہ اجل حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہٗ کا نمونہ تھے، اور
مدرّس، محدث، مفسر ہونے کے ساتھ مصنف، محقق اور مدبّر بھی تھے، ’’نکات
القرآن‘‘ کے نام سے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی بلند پایہ تصنیف قرآن مجید کے طلبہ
کے لیے لائق مطالعہ ہے، نکتہ ٔ آفرینی کے لحاظ سے بے تکلف محافل میں آپ
رحمۃ اﷲ کو ’’ابوالنکات‘‘ کہا جاتا تھا۔
حضرت مولانا رحمۃ اﷲ علیہ نے ۱۸صفر۱۴۳۲ھ مطابق 23جنوری2011ء کو داعی اجل کو
لبیک کہا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن کی جدائی کا غم اور صدمہ اب بھی تازہ ہے
اور اُن کے مخصوص لب ولہجہ اور اسلوبِ بیان کی باز گشت اب بھی سُنائی دے
رہی ہے۔
;زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے |