پاکستان کے نامور ادیب ،دانش ور ،ماہر تعلیم نقاد ،محقق
اور مزاح نگار پروفیسر محمد طحٰہ خان خالق حقیقی سے جا ملے ۔وہ کچھ عرصے سے
بستر علالت پر تھے ۔اس پیرانہ سالی میں وہ بلند فشار خون ،اعصابی کم زوری
اور ذیا بیطس کے امراض کا بڑی استقامت سے مقابلہ کر رہے تھے ۔ گزشتہ تین
ماہ سے وہ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال پشاور میں زیر علاج تھے ۔علم و ادب کا وہ
ماہ منیر جو 2۔فروری 1936کو لکھنو (بھارت )سے طلوع ہوا ،وہ 25۔اگست 2013کو
پشاور میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے شہر خموشاں کی
زمین نے اردو زبان و ادب کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا ۔اردو
شاعری میں طنزو مزاح کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمین بوس ہو گئی ۔اردو
اور پشتو زبان ایک یگانہ ء روزگار ادیب سے محروم ہو گئی ۔وہ عالمی شہرت کے
حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب تھے ۔وطن اور اہل وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنے
والے اس یگانہء روزگار ادیب کی وفات کی خبر سن کر ہر آنکھ پر نم ہے اور ہر
دل غم و اندوہ میں ڈوب گیا ہے ۔
لوح مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
پروفیسر محمد طحٰہ خان کی وفات سے اردو شاعری میں طنزو مزاح کے ایک عہد کا
اختتام ہوا ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم و ادب تھے ۔ان کی گل
افشانیء گفتار کا ایک عالم گرویدہ تھا۔وہ جب بولتے تو ان کی باتوں سے پھول
جھڑتے اور محفل کشت زعفران بن جاتی ۔ان کی وفات پر بزم ادب برسوں تک سوگوار
رہے گی ۔ایسی تابندہ صورتوں کا پیوند خاک ہو جاناایک بہت بڑاسانحہ ہے ۔وہ
لوگ جنھیں ہم ہر لمحہ دیکھ کر جیتے ہیں جب دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو اس
سانحے پر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔منوں مٹی کے نیچے ایسے آفتاب و ماہتاب رکھ
کر ہم تقدیر کے ستم سہہ کر کار جہاں کے بے ثبات ہونے پر دل گرفتہ ہو جاتے
ہیں ۔تقدیر تو ہر لمحہ اور ہرگام انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے ۔ہم
اپنے رفتگاں کی لوح مزار اور مر قد کی مٹی سے ایک قلبی تعلق کو زندگی بھر
نبھاتے ہیں یہاں تک کہ ہم بھی خاک ہو جاتے ہیں۔
کس مٹی سے کس مٹی کا رشتہ ہے معلوم تو ہو
کتبوں پر یہ بات بھی لکھ دو لوگ کہا ں سے آئے تھے
محمد طحٰہ خان کا تعلق لکھنو کے ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا
۔زمانہ طالب علمی ہی سے وہ شعر و ادب میں دلچسپی لینے لگے ۔ان کے بزرگوں کے
مولانا صبغت اﷲ فرنگی محلی سے مراسم تھے ۔ اس وسیلے سے محمد طحٰہ خان کو
مولانا صبغت اﷲ فرنگی محلی سے اکتساب فیض کے مواقع میسر آئے ۔اس کے علاوہ
انھیں مولانا عبدالماجد دریا بادی سے ملنے اور ان سے علمی مسائل سمجھنے کے
مواقع ملے۔اس عہد کے نامور ادیبوں سے محمد طحٰہ خان کے معتبرربط کا سلسلہ
جاری رہا۔ آزادی سے قبل سفید بارہ دری لکھنو میں کل ہند مشاعرے کا انعقاد
ہوتا تھا ۔ا س قسم کی علمی و ادبی محافل میں شرکت سے محمد طحٰہ خان کے ذوق
ادب کو صیقل کرنے میں مدد ملی ۔اس عہد کے بڑے شعرا سے ملنے کے جو مواقع ملے
ان کے اعجاز سے محمد طحٰہ خان کے ذوق ادب اور تخلیقی فعالیت کو مہمیز کرنے
کی صورتیں پیدا ہوتی چلی گئیں۔وہ جوش ملیح آبادی ،مولانافضل الحسن حسرت مو
ہانی ،فانی بدایونی ،فراق گورکھپوری ،حفیظ جالندھری ، سید غلام بھیک نیرنگ
،احسان دانش ،سید جعفر طاہر ،مجید امجد اور محمد شیر افضل جعفری کے اسلوب
کے بہت مداح تھے ۔ 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد محمد طحٰہ خان کے آباو
اجدا دنے برصغیر میں برطانوی استعمار کے خاتمے کے لیے بہت قربانیا ں دیں
۔ان کے والد نے تحریک پاکستان میں فعال کردار اداکیا۔مولانا محمد علی جوہر
اور مو لانا شوکت علی کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔وہ تحریک خلافت کے سر
گرم کا رکن تھے اس سلسلے میں انھوں نے قندھار اور کابل کا سفر کیا۔برطانوی
استبداد کے خلاف جدو جہد کے دوران وہ درہ آدم خیل میں مقیم رہے اور کسی
دشواری اور صعوبت کی پروا نہ کی ۔فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم دیکھنے کی
تمنا میں ان کے بزرگوں نے ابتلا اور آزمائش کے اس دور میں جس صبر و استقامت
کا مظاہرہ کیا اس پر محمد طحٰہ خان کو بہت ناز تھا ۔ان کی شاعری میں وطن
اور اہل وطن کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کے جذبات نمایاں
ہیں۔پشتو دھنوں پر ان کے لکھے ہوئے اردو ملی نغمے بہت مقبول ہوئے ۔اس طرح
وہ تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتے تھے ۔ان کا یہ ملی
نغمہ آج بھی کانوں میں رس گھو لتا ہے اور سننے والوں پر وجدانی کیفیت طاری
کر دیتا ہے۔
محبتوں کا آشیانہ،جنت نگاہ یہ چمن میرا حیا کے پھول کھلے ہیں گلاب چہروں پر
نئی سحر ہے
قیام پاکستان کے بعد محمد طحٰہ خان اپنے خاندان کے ساتھ پشاور پہنچے
اوریہیں مستقل قیام کا فیصلہ کیا۔1958میں محمد طحٰہ خان نے جامعہ پشاورمیں
ایم۔اے اردو میں داخلہ لیا اور اس میں امتیازی حیثیت سے کا میابی حاصل کی
۔اس کے بعد وہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے ۔انھوں نے شعبہ تعلیم میں اپنی
ملازمت کاآغاز 1964میں کیا جب وہ ایڈور ڈ کالج پشاورمیں تدریسی خدمات پر
مامورہوئے ۔اس تاریخی کالج میں انھوں نے چار سال تک خدمات انجام دیں اور
فروغ علم و ادب کے لیے مقدور بھر سعی کی ۔ایڈورڈ کالج پشاور میں ان کی
خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اوراسے اس ادارے کی تاریخ کاایک
یادگار دور قرار دیا گیا ۔اس کے بعد 1968میں انھوں نے پشاور میں واقع
پاکستان فضائیہ کے ڈگری کالج میں تدریسی خدمات انجام دینے کا فیصلہ کیا
۔یہاں ان کی بے حد پذیرائی کی گئی ۔اس لیے انھوں نے اپنی ساری مدت ملازمت
اسی ادارے میں نہایت عزت اور وقار کے ساتھ گزاری ۔اسی مادر علمی سے وہ
1999میں ریٹائر ہوئے ۔ پاکستان کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں وہ مسلسل
پینتیس سال مصروف رہے ۔وہ ایک ہر دل عزیز استاد تھے ان کی موثر تدریس کے
اعجاز سے طلبا کے دلوں میں ایک ولولہ ء تازہ پیدا ہوا اور ان میں ستاروں پر
کمند ڈالنے کا حوصلہ نمو پانے لگا۔ 1988میں علالت کی وجہ سے وہ بصارت سے
محروم ہو گئے لیکن اس سانحے پر وہ دل برداشتہ نہ ہوئے ۔پورے عزم و استقامت
سے زندگی گزاری اور اپنی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ مسلسل پرورش لوح
و قلم میں مصروف رہے۔ وہ ہر حال میں راضی برضا رہتے ۔اﷲ کریم نے انھیں دل
بینا سے نوازا تھا اس لیے وہ کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائے ۔ ان کے اسلوب
میں واقعہ کر بلا کو حریت فکر کے استعارے کی حیثیت حاصل ہے ۔اپنی زندگی کے
ان مہ و سال کا ذکر کرتے ہوئے جب وہ بصارت سے محرو ہو گئے تھے مجید امجد کا
یہ شعر پڑھتے تو ان کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں ۔
سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنھوں نے کہا جو تیرا حکم ،جو تیری رضا ،جو تو چاہے
انھوں نے اپنی زندگی تصنیف و تالیف کے کاموں کے لیے وقف کررکھی تھی ۔ان کی
زندگی میں ان کی بیس وقیع تصانیف شائع ہوئی جن سے اردو ادب کی ثروت میں
اضافہ ہوا ۔نظم اور نثر کا یہ گنج گراں مایہ جو بیس تصانیف پر مشتمل ہے
انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند منصب پر فائز کرنے کا
وسیلہ ثابت ہوا ۔ ان کی اہم تصانیف میں بنیادی اردو ،داستان کر بلا
،ظریفانہ شاعری کی کلیات اور کلیات رحمٰن بابا کا منظوم اردو ترجمہ شامل
ہیں ۔کلیات رحمٰن بابا کو پشتو سے اردو میں ترجمہ کرنے پر انھوں نے پوری
توجہ کی اور اس کام پر ان کے تین سال صرف ہوئے۔ان کے ترجمے ’’متاع فقیر
‘‘کو پوری دنیا میں زبردست پذیرائی ملی ۔اردو زبان میں تراجم کے حوالے سے
یہ بہت بڑی کامیابی تھی،اس کی بدولت پاکستانی ادبیات کو عالمی ادبیات میں
ممتاز مقام حاصل ہوا ۔کلیات رحمٰن بابا کے اردو ترجمے کی اہمیت اور افادیت
کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا اور اس شاہکار ترجمے کا مخطوطہ برٹش میوزیم
لندن میں محفوظ کر لیا گیا ۔یہ ان کا پشتو اور اردو زبان کا اور خاص طور
پاکستان کا بہت بڑا اعزاز ہے کہ دنیا بھر کے ادیب ان کے افکار کی جو لانیوں
سے استفادہ کر رہے ہیں ۔تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی ان
کی مساعی کو دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں سراہا گیا ۔ ممتاز ادیب پروفیسر
آفاق صدیقی جنھوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے سندھی کلام ’’شاہ جو
رسالو‘‘کا اردو میں ترجمہ کیا تھا وہ محمد طحٰہ خان کے بہت بڑے مداح تھے
۔محمد طحٰہ خان تراجم کی اہمیت پر ہمیشہ زور دیتے تھے ۔پروفیسر اسیر عابد
نے دیوان غالب کا جو منظوم ترجمہ پیش کیا اسے وہ پاکستان کی علاقائی زبانوں
اورقومی زبان کے مابین ربط کی ایک صورت سے تعبیر کرتے تھے ۔محمد طحٰہ خان
کا ایک اور کا رنامہ یہ ہے کہ انھوں نے خوشحال خان ختک کے پشتو کلام کا
اردو ترجمہ کیا ۔ان کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کی بنا پر جریدہ ء عالم
پر ان کا دوام ثبت ہو گیا۔حکومت پاکستان نے ان کی فقید المثال ادبی خدمات
کے اعتراف میں انھیں 2007میں پرائڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا۔
رحمٰن بابا کے کلام کے منظوم اردو ترجمے میں محمد طحٰہ خان کی فنی مہارت
زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس اور علم عروض پر عبور کا جادو سر چڑھ کر بو
لتا ہے۔انھوں نے رحمن بابا کے کلام کے فنی محاسن کو قارئین ادب کے سامنے
لانے کے سلسلے میں جس تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیاہے وہ ان کے تبحر علمی کی
دلیل ہے ۔خاص طور پر صنائع بدائع کو ترجمے میں بھی پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ان
کے ترجمے میں تخلیق کی چاشنی کا کرشمہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے ۔رحمٰن
بابا کی کئی غزلیں ایسی ہیں جن کا ترجمہ کرتے وقت محمد طحٰہ خان نے اسی بحر
،ردیف اور قافیے کو استعمال کیاہے جو رحمٰن بابانے کیے ہیں ۔بادی النظر میں
یوں لگتا ہے کہ رحمٰن بابا نے خود اردو میں شاعری کی ہے ۔نیچے دی گئی غزل
میں رحمٰن بابانے صنعت عکس و تبدیل کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ استعمال
کیا ہے ۔اس صنعت میں ایک با کمال تخلیق کار پہلے مصرعے میں جو مضمون پیش
کرتا ہے دوسرے مصرعے میں اس کا عکس شعر کی باز گشت کی صورت میں قاری کو
حیرت زدہ کر دیتا ہے ۔
سر ہوا ساماں ہوا ،صدقہء جاناں ہوا صدقہ ء جاناں ہوا ،سر ہوا ساماں ہوا
سب گل و ریحاں ہوا گیسوئے جاناں مجھے گیسوئے جاناں مجھے سب گل و ریحاں ہوا
جو زیاں نقصاں ہوا ،ہجر میں اے جاں ہوا ہجر میں اے جاں ہوا ،جو زیاں نقصاں
ہوا
وصل کہ ہجراں ہوا دونوں مجھے ہیں عزیز دونوں مجھے ہیں عزیز ،وصل کہ ہجراں
ہوا
آخری شعر میں رحمٰن بابا نے جو مضمون پیش کیا ہیوہی مضمون ان سے پونے دو سو
سال بعد مرزا اسداﷲ خان غالب نے کچھ اس طرح اپنے ایک شعر میں بیان کیا ہے :
وداع و وصل جداگانہ لذتے دارد ہزار بار برو ،صد ہزار بار بیا
غالب کے اس مشہور شعر کو صوفی غلام مصطفی تبسم نے پنجابی زبان کے قالب میں
اس طرح ڈھالا ہے :
بھانویں ہجر تے بھانویں وصا ل ہووے وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
میرے سو ہنیا جا ہزار واری ،آجا پیاریا تے لکھ وار آجا
اپنی پشتو شاعری میں رحمٰن بابا نے صنعت تشابہ کو جس مہارت سے استعمال کیا
ہے وہ ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔اس نوعیت کے فنی تجربوں کے ذریعے اس
نابغہء روزگا تخلیق کا ر نے پشتو شاعری کو نئے تخلیقی امکانات سے رو شناس
کرایا ۔محمد طحٰہ خان نے رحمٰن بابا کی شاعری کے منظوم ترجمے میں ان تجربات
کی جانب مبذول کرائی ہے ۔نیچے دی گئی غزل میں صنعت تشابہ کے ذریعے کلام میں
حسن پیدا کیا گیا ہے ۔اس قسم کے شعری تجربوں کے چشمے رحمٰن بابا کی شاعری
اس طرح پھوٹتے ہیں کہ گلشن ادب میں تخلیقات کے گل ہائے رنگ رنگ ان سے سیراب
ہو جاتے ہیں ۔
برابر ہے یہاں شمس وقمر اور شکل دلبر کی مقابل قامت محبوب ہے سرو صنوبر کی
نہ میں ہوں شہد کی مکھی نہ میں گل کا شکر خورا لب محبوب سے لیتا ہوں لذت
شہد و شکر کی
عجب معجز نمائی ہے مشام جاں نے پائی ہے غبار کوچہء جاناں میں خوشبو مشک و
عنبر کی
فراق یار سے، غارت گری سے، قتل سے توبہ کہ تینوں میں یہاں تکلیف ہوتی ہے
برابر کی
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کی ترقی میں محمد طحٰہ خان نے گہری دلچسپی لی ۔وہ
ایک با کمال براڈ کاسٹر تھے ۔وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر جوپروگرام بھی پیش
کرتے اسے بہت پذیرائی ملتی ۔پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے مشاعروں میں ان
کی شرکت سے محفل کی شان دو بالا ہوجاتی ۔انھوں نے تخلیق فن کے لمحوں میں جو
کچھ بھی لکھا وہ تپاک جاں سے لکھ اان کا منفرد اسلوب قلب اور روح کی
گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے۔وہ پاکستانی صحافت کو
حریت فکر پر عمل پیرا دیکھنے کے آرزو مند تھے ۔روزنامہ مشرق پشاور کے
ادارتی صفحے پر ان کا ایک اردو قطعہ روزانہ شائع ہوتا تھا ۔ایک حساس تخلیق
کار کی حیثیت سے وہ اس قطعے میں مسائل عصر اور حالات حاضرہ کے بارے میں
قارئین میں مثبت شعورو آگہی پروان چڑھانے کی سعی کرتے ۔وہ سلطانیء جمہور کے
زبردست حامی تھے ۔انھوں نے ہمیشہ حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنایا ۔
الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف تھا ۔حریت
ضمیر سے جینا ہی ان کا نصب العین رہا ۔پاکستان اور پاکستان سے باہر ان کا
ایک وسیع حلقہء احباب تھاجس کے ساتھ معتبر ربط کو وہ اپنا فرض اولین سمجھتے
تھے ۔ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کرنا ان کا شیوہ تھا اسی
وجہ سے لوگ ان کے حسن سلوک کے گرویدہ تھے ۔وہ ایک عظیم انسان تھے اور
انسانیت کا وقار اور سر بلندی ا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ۔انھوں نے اپنے
احباب کی جو کہکشاں سجائی اس کے درخشاں ستاروں میں صابر کلوروی ،خا طر
غزنوی،سجاد بخاری ، احمد ندیم قاسمی ،محسن بھوپالی ، پروفیسر آفاق صدیقی
،فہیم اعظمی ،ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر بشیر سیفی ،رام ریاض ،عطاشاد
،صابر آفاقی ،رشید احمد گوریجہ،آفتاب نقوی ،اقبال زخمی ،میرزا ادیب ،اشفاق
احمد ،منصور قیصر ،تاج سعید ،صاحب زادہ رفعت سلطان اور امیر اختر بھٹی کے
نام قابل ذکر ہیں ۔ فرشتہ ء اجل نے سب حقائق کوخیال و خواب میں بدل دیا ۔اب
دنیا میں ایسی ہستیا ں کہاں ؟یہ سب نایاب لوگ خاک میں پنہاں ہو گئے ۔دنیا
لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جائے اب دنیا میں ایسے یادگار زمانہ لوگ
کبھی پیدا نہیں ہو سکتے ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ
پنہاں ہو گئیں
فنی تجربوں کو انھوں نے ہمیشہ اہم سمجھا ۔ان کا خیال تھا کہ نئے فنی تجربوں
کے ذریعے ایک زیرک تخلیق کار یکسانیت اور جمود کا خاتمہ کرکے جہان تاہ کی
نوید سنانے کی کوشش کرتا ہے ۔محمد طحٰہ خان کے فنی تجربے جدت ،ندرت اور
تنوع کے مظہر ہیں ۔وہ ایک ما ہر ابلاغیات تھے اس لیے انھو ں نے شعر و ادب
کے ساتھ ساتھ موسیقی کے ذریعے بھی اظہار اور ابلاغ کی نئی راہوں کی جستجو
کی ۔انھوں نے اردو گیتوں کو پشتو دھنوں سے مزین کر کے پیش کیا ۔ان کی اس
جدت اور انوکھے تجربے سے سے ان گیتوں کی اثر آفرینی اور مقبولیت کو چار
چاند لگ گئے۔تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے ان کی یہ کاوش بہت ثمر بار ثابت
ہوئی اور دنیا بھر میں ان کے اس فقید المثال کارنامے کو قدر کی نگاہ سے
دیکھا گیا۔ مثا ل کے طور پر انھوں نے اس نغمے کے لیے پشتو دھن کا انتخاب
کرتے وقت جس محنت اور موسیقی کی ریاضت کا ثبوت دیا ہے وہ ان کے ذوق سلیم کی
آئینہ دار ہے ۔
پشاور سے میری خاطر دنداسہ لانا ۔۔۔۔۔ا و میری دلبر جاناں
محمد طحٰہ خان نے سنجید ہ شاعری میں بھی اپنے افکار کی جو لانیاں دکھائی
ہیں لیکن اردو کی ظریفانہ شاعری میں ان کا منفرد اسلوب ان کی پہچان بن گیا
۔اردو کی ظریفانہ شاعری کے فروغ میں ان کی خدمات تاریخ ادب میں آب زر سے
لکھی جائیں گی ۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا(سابق صوبہ سر حد )میں انھوں
نے مرزا محمود سر حدی کے بعداردو کی ظریفانہ شاعری کے فروغ کے لیے بہت محنت
کی اور یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان کی گل افشانیء گفتار نے
انھیں اپنے عہد کے عظیم مزاح نگار کے منصب پر فائز کیا۔ان کی ظریفانہ شاعری
میں زندگی کی نا ہمواریوں ،سماجی بے اعتدالیوں اور معاشرتی تضادات اور بے
ہنگم ارتعاشات کے بارے میں ایک ہمدر دانہ شعور پایا جاتا ہے ۔وہ پورے خلوص
،دردمندی اور فنی مہارت سے اپنے جذبات ،احساسات ،تجربات اور مشاہدات کو
پیرایہء اظہار عطاکرتے ہیں۔ان کی ظریفانہ شاعری سماجی زندگی کی قباحتوں اور
مناقشات کے بارے میں قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔قاری ایک خندہء
زیر لب کی کیفیت میں ان امور کے بارے میں ایک حساس تخلیق کار کا تجزیہ پڑھ
کر خود احتسابی پر مائل ہوتا ہے۔پاکستان میں موسم گرما کی شدت اور اس پر
بجلی کا بحران اور سب سے بڑھ کر مقتدر حلقوں کی حقائق سے شپرانہ چشم پوشی
عوام کے صبر کا امتحان ہے ۔اپنی نظم ’’پشاور کی گرمی ‘‘میں انھوں نے ہنسی
کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چھپا کر اس مسئلے کے بارے میں پر لطف
انداز میں جو کچھ لکھا ہے وہ ان کی حب الوطنی ،انسان دوستی اور قومی
دردمندی کی عمدہ مثا ل ہے ۔
پشاور کی گرمی
گرمیاں تیز ہیں پشاور کی ایک سو بیس ہارس پاور کی
جب بھی موسم شدید ہوتا ہے گھر میں نلکا یزید ہوتا ہے
پانی مانگو تو خر خراتا ہے تشنہ لب کی ہنسی اڑاتا ہے
برف سونے کے بھاؤ ملتا ہے سیر کا تین پاؤ ملتا ہے
مکھی ہیضے کو عام کرتی ہے دانہ پانی حرام کرتی ہے
اہل مکتب کاکام کرتی ہے کار طفلاں تمام کرتی ہے
اسپرے گیس سے خفا نہ ہوئی یہ فنائل سے بھی فنا نہ ہوئی
بارہا ڈی ڈی ٹی بھی چکھی ہے مکھی کیا ہے یہ اﷲ رکھی ہے
لوگ مچھر کے ہاتھوں مرتے ہیں بستروں میں ٹوسٹ کرتے ہیں
آکے چہرے پہ مو نگ دلتا ہے ہاتھ مارو تو بچ نکلتا ہے
منہ طمانچوں سے لال کرتے ہیں لوگ صحت بحال کرتے ہیں
رات بھر بے قرار رہتے ہیں شب ہجراں اسی کو کہتے ہیں
ہے پسینے سے ایسی غرقابی سارے مرغے ہوئے ہیں مرغابی
اپنے ڈربوں سے دور رہتے ہیں الاماں الحفیظ کہتے ہیں
ماجرا یہ ہے کوئے جاناں کا حال پتلا ہوا ہے خوباں کا
منہ چھپائے گھروں میں رہتے ہیں فون پر عاشقوں سے کہتے ہیں
گرم موسم عذاب ہوتا ہے سارا میک اپ خراب ہوتا ہے
شکل اصلی بھلا دکھائیں کیا دن دہاڑے تمھیں ڈرائیں کیا
ہائے کس منہ سے سامنے آئیں یا الہٰی یہ گرمیاں جائیں
ہمارے معاشرے میں سیاسی ،سماجی ،معاشرتی اور معاشی مسائل کی جکڑ بندیوں نے
بے ہنگم صور ت اختیار کر لی ہے ۔محمد طحٰہ خان کی ظریفانہ شاعری کے سوتے
یہیں سے پھوٹتے ہیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ سنجیدہ ادب کے تخلیق کار جہاں
اپنی تمام تر قوت اور فعالیت کے با وجود پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں ایک مزاح
نگار بڑی آسانی کے ساتھ وہاں اپنے شگفتہ اسلوب کی جو لانیاں دکھانے پر قادر
ہے ۔ جذبہ ء انسانیت نوازی سے سرشار محمد طحٰہ خان نے معاشرتی ز ندگی کی نا
ہمواریوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور کی اساس پر فن کارانہ انداز میں جس طرح
گرفت کی ہے وہ ان کے کمال فن کا ثبوت ہے ۔ان کے اسلوب میں طنز کا اہم پہلو
یہ ہے کہ وہ معاشرے کی کم زوریوں کو طنز کا ہدف بناتے ہیں ۔جب وہ اپنی ذات
کو ہدف بناتے ہیں تو یہ خالص مزاح کی صورت میں قاری کو متاثر کرتا ہے ۔ طنز
کا اہم ترین مقصد اصلاح ہی ہے اس کے بر عکس مزاح کو محض تفریح کا ایک وسیلہ
سمجھا جاتا ہے ۔ان کے اس قطعے میں طنز کا عنصر نمایا ں ہے ۔پاکستان میں
رویت ہلال کے بارے میں انھوں نے جس حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے وہ ارباب
اختیار لیے لمحہ ء فکریہ ہے ۔اپنے عہد کے تضادارت ،معاشرتی بے اعتدالیوں
اور انتشار کو انھوں نے بر ملا طنزو مزاح کا ہدف بنایا ہے ۔
قطعہ
جان طحٰہ ملک الموت کو الزام نہ دے
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
عید کا چاند ہوں میں وقت سے پہلے دو دن
دیکھ لینا کہ پشاور میں نظر آؤں گا
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں خلوص اور دردمندی عنقا ہے ۔معاشرتی زندگی
کو ہوس زر کے اندھے رجحان نے نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔غربت اور
افلاس کی چکی میں پسنے والی مظلوم اور بے بس و لاچار مخلوق کاکوئی پرسان
حال ہی نہیں ۔محمد طحٰہ خان نے معاشرتی زندگی کی اصلاح کے لیے طنز و مزاح
کا سہارا لیا۔ان کی ظریفانہ شاعری معاشرتی عیوب کو طنزو مزاح کا ہدف بنایا
گیا ہے ۔جب وہ معاشرے میں استحصالی عناصر کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں اور
مکر کی چالوں کو دیکھتے ہیں تو وہ تیشہء حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کی
سعی کرتے ہیں ۔معاشرے کی اصلاح کا جذبہ انھیں طنزو مزاح لکھنے پر مائل کرتا
ہے ۔مثال کے طور پر آج ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے
غریب لوگوں کا جینا دشوار کر دیا ہے۔ذخیرہ اندوزی ،ملاوٹ ،نا جائز منافع
خوری اورگراں فروشی نے تو زندگی کی تمام رتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں ۔ان کی
ظریفانہ شاعری میں ان عیوب پرجس انداز میں گرفت کی گئی ہے اس سے قاری گہرا
تاثر قبول کرتا ہے ۔وہ ہنستے مسکراتے اور سوچتے ہوئے ان عیوب کی اصلاح کی
اہمیت کا قائل ہو جاتا ہے ۔اپنی نظم ’’مہنگائی ‘‘میں انھوں نے اس کے مسموم
اثرات کو طنز و مزاح کا ہدف بنایا ہے ۔
مہنگائی
نہ کلچا نہاری نہ روٹی فقیری چلی چائے کے سنگ ٹوٹی پتیری
جوانی سے پہلے ہی احساس پیری کہ سہراب و رستم ہوئے ہیں بھنبھیری
ڈنر میں ابالے چنے کھالیے ہیں وہ مہنگائی ہے شیر بھی دالیے ہیں
نکلنے لگی اب تو پنجوں سے یخنی جو مرغے کا ٹخنہ تو مرغی کی ٹخنی
پیو تا کہ کھل جائے دل کی چٹخنی پیو اور دشمن کو دو اک پٹخنی
ملاتا ہے یخنی میں پانی عجب گل پتیلے سے نکلا ہے دریائے کابل
پتیلے پہ مرغا جو لٹکا ہوا ہے اسے دیکھ کر دل کو کھٹکا ہوا ہے
مریض محبت کاجھٹکا ہوا ہے کہ دم اب بھی مرغی میں اٹکا ہوا ہے
اپنی شگفتہ شاعری میں محمد طحٰہ خان نے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی
بے ہنگم کیفیات اورقباحتوں کی اصلاح کی جانب توجہ مبذول کرا ئی ہے ۔وہ کسی
کی دل آزاری نہیں چاہتے بل کہ ان کے شگفتہ اسلوب میں خلوص ،دردمندی ،اصلاح
اورہمدردی کی فراوانی ہے ۔ان کی ظریفانہ شاعری میں طنز کے بجائے ترحم کا
عنصر نمایا ں ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قاری کو ان تمام کرداروں سے
ہمدردی ہو جاتی ہے جو معاشرتی زندگی کی کجیوں کی زد میں آ جاتے ہیں ۔مثال؛
کے طور پران کی نظم ’’ریل کا سفر ‘‘میں مسافر ،قلی ،گارڈ کا بھائی اور ہجوم
کے باعث بیت الخلا میں سونے والے مسافر کی حالت زار دیکھ کر ترحم کے جذبات
بیدار ہوتے ہیں ۔محمد طحٰہ خان کی ظریفانہ شاعری ایک شان دل ربائی رکھتی ہے
جسے پڑھ کر ہم معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں پر ہنستے چلے جاتے ہیں ۔ اپنے
متخیلہ کے اعجاز سے وہ خالص مزاح کی صورت میں قاری کے لیے سامان انبساط
فراہم کر دیتے ہیں ۔نظم ’’ریل کا سفر ‘‘ جذبات ،احساسات اور تجربات کو اپنے
تخیل کی جولانی سے اس پر لطف انداز میں پیرایہ اظہار عطا کیا گیا ہے کہ
قاری ریل کے سفر کی مضحک صورت حال کا تصور کر کے اپنی ہنسی ضبط نہیں کر
سکتا۔
ریل کا سفر
کرتے رہے قلی وہ بھرائی تمام رات دیتا رہا ہر ایک دہائی تمام رات
لیٹا رہا جو گارڈ کابھائی تمام رات بیٹھی رہی خدا کی خدائی تمام رات
اک باپ میرے سوٹ پہ پانی گرا گیا
بیٹا مچل کے مصرع ثانی لگا گیا
باتیں بگھارتے تھے جو قومی وقار کی جن کو خبر تھی گردش لیل و نہار کی
جوروجو ایک آئی غریب الدیار کی ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
دو پتلیاں تو بہر تماشا قلی رہیں
کچھ اس ادا سے سوئے کہ آنکھیں کھلی رہیں
ہر بے ٹکٹ تو سیٹ سے اپنی جڑا رہا ہر با ٹکٹ نصیب سے اپنے کھڑا رہا
سامان سو برس کا جو باہر اڑا رہا بیت الخلا میں ایک مسافر پڑا رہا
بیوی زنانے ڈبے میں جا کر جو سو گئی
شوہر کو ریل ہی میں شب ہجر ہو گئی
ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے محمد طحٰہ خان نے طنزو مزاح کو ایک ذہنی
کیفیت کی صورت میں اپنے اسلوب میں جگہ دی۔ان کی شگفتہ بیانی کے پس پردہ ان
کا خلوص ،دردمندی ،نسانی ہمدردی, بصیرت ،زندگی کی تاب و تواں اور اندرونی
کرب نمایاں ہے ۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں
کو دیکھ کر وہ بہت دل گرفتہ رہتے لیکن اس کے با وجود وہ اپنے آنسو ضبط کر
کے قارئین ادب کے لیے مسرت کے مواقع تلاش کرتے ۔ان کا شگفتہ پیرایہء اظہار
فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتا ہے ۔ان کے اسلوب کی شگفتگی اور ندرت
قاری کے لیے حوصلے اور امید کی نوید ثابت ہوتی ہے اور وہ پورے اعتماد کے
ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔محمد طحٰہ خان کی وفات
سے بزم اردو میں جو خلا پیدا ہوا ہے ،وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا ۔ ان کی رحلت
ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس کے مسموم اثرات ہر شعبہ ء زندگی پر مرتب ہو ں
گے ۔اردو شاعری میں طنزو مزاح کا ایک عہد اختتام کو پہنچا ۔اس کے بعد اردو
کی ظریفانہ شاعری کے ارتقا کی رفتار کم ہو نے کا خدشہ ہے ۔تقدیر کے چاک کو
سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا ۔ان کی وفات کی خبر سن کر ان کے
لاکھوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں ۔ایسے احباب کے بغیر کار جہاں کی بے
ثباتی کا دکھ اور بھی گہرا ہو جاتاہے اور دل پر ایک قیامت گزر جاتی ہے ۔بہ
قول حفیظ جالندھری :
احباب ہی نہیں تو کیا زندگی حفیظ دنیا چلی گئی میری دنیا لیے ہوئے |