امن کے نام پر جنگوں کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے ۔اور پوری
عالمی برداری میں امن و امان قائم کرنے کا ٹھیکیدار امریکہ ایک بار پھر
اپنے پختہ عزائم کے ساتھ شام پر حملہ کرنے کی تاک میں ہے۔جس کے باعث شام کی
صورت حال کافی سنگین ہوگئی ہے ۔ افغانستان اور عراق کی تباہی کے بعد تھوڑی
خاموشی کیا چھائی امریکہ ایک بار پھر عالمی برادری کو تباہی کے دہانے لا
کھڑا کرنے کی بھر پور کوشش کررہا ہے ۔اور اب امریکہ کا اگلا نشانہ شام ہے ۔اس
کے اس قدم کا اثر عالمی برادری پر کیا ہوگا اس سے امریکہ کو کوئی فرق نہیں
پڑتا ۔چین ،روس ،اور برطانیہ کی سخت مخالفت کے باوجود امریکہ اپنی ضد پر
قائم ہے ۔
جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی شاید یہی وجہ ہے کہ شام پر امریکی حملے
کی سخت مخالفت دیکھنے میں آئی ہے ۔اور ہمیشہ سے امریکی جارحیت میں اس کا
شریک کار رہا برطانیہ اس بار شام پر امریکہ کے حملے کی سخت مخالفت کررہا ہے
شام پر حملے میں برطانوی شرکت کے متعلق حکومتی قرار داد برطانوی پارلیمنٹ
نے اکثریت سے مسترد کردی۔اس کے علاوہ اس مسئلے پر برطانوی عوام نے بھی کھل
کر اپنے موقف کا اظہار کیا۔ایک سروے کے مطابق تین چوتھائی برطانوی شہری
سمجھتے ہیں کہ برطانیہ نے شام پر فوجی کارروائی غلط قرار دے کر ایک صحیح
قدم اٹھایا ہے۔جس دوران یہ جائزہ لیا گیا اس وقت تک یہ بات ابھی پوری طرح
واضح نہیں تھی کے امریکہ شام پر حملہ کریگا یا نہیں کیونکہ صدر براک اوباما
نے کہا تھا کہ وہ کانگریس سے اس معاملے میں رائے لیں گے ۔وہیں ہمیشہ خاموش
رہنے والے ٹینس کھلاڑیوں نے بھی اس حملے کی مخالفت کی ہے ۔عالمی ٹینس سپر
سٹار نواک جوکووچ کا کہنا ہے کہ شام پر حملہ ناسمجھی ہوگا جس کے منفی اثرات
پیدا ہوں گے۔ٹینس کھلاڑی عام طور پر بین الاقوامی امور کے بارے میں بہت کم
بات کرتے ہیں، لیکن دنیا کے بہترین ٹینس کھلاڑیوں میں سے ایک نوواک جوکووچ
اور سابق نمبر ایک کھلاڑی اینا ایوانووچ نے جنگ کی مخالفت کی ہے ۔ نوواک
جوکووچ نے شام پر فوجی کارروائی کی امریکی منصوبہ بندی کی مذمت کرتے ہوئے
کہا کہ شام کے خلاف کوئی بھی حملہ ناسمجھی ہو گی۔
ـچھوٹے چھوٹے ملکوں کو شکار بنانا امریکہ کی پرانی عادت رہی ہے ۔افغانستان
،عراق ،لیبیااورپاکستان ،کی تباہیوں کے بعد اب امریکہ کا رخ شام کی طرف ہے
۔جو دراصل شام کی جانب نہیں بلکہ ایران کی جانب ہے ۔ایران کی بڑھتی طاقتوں
سے یوں بھی امریکہ حد سے زیادہ خائف ہے ۔اور ایران کے اس اعلان کے بعد کے
شام پر اگر حملے ہوئے تو ایران خاموش نہیں بیٹھے گا مانو امریکہ کی دلی
مراد بر آئی ہے ۔لیکن امریکہ کو اپنے اس جارحانہ قدم کو اٹھانے سے پہلے
سوچنا ہوگا۔اگر وہ شام پر حملہ کرتا ہے تو اس کا سیدھا اثر عالمی برادری پر
پڑے گا۔یوں بھی آج امریکہ کے اقتصادی حالات کسی سے چھپے نہیں ہیں ۔اور
امریکہ کی عوام نے بھی اس حملے کی مخالفت کی ہے، اور کہاہے کہ امریکی صدر
کو چاہئے کے پہلے امریکہ کی اقتصادی حالات میں بہتری لائیں اس کے بعد کسی
اور مسئلے پر نظر ڈالیں ۔لیکن امریکہ اپنی عادت سے مجبور ہے ہمیشہ سے دوسرے
ممالک کے معاملات میں ٹانگ اڑانا اس کی عادت رہی ہے ۔اب جبکہ اس نے یہ
اعلان کردیا ہے کے2014 تک اس کی فوج افغانستان سے ہٹا لی جائے گی تو اپنی
جنگی طبیعت کے مطابق اس نے شام کو اپنا نشانہ بنایا۔لیکن امریکہ کو اس بات
کا انداز بالکل نہیں ہے کہ اس کے اس طرح کے رویوں کی وجہ سے عالمی برادری
میں اس کی ساکھ داو پر لگی ہے ۔اور اپنی بچی کھچی عزت وہ اپنے ہی ہاتھوں
گنوا نے کے لئے بیچین ہے ۔یوں بھی اسلامی ممالک میں امریکہ کو زیادہ اچھی
نظر سے نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ عراق ،افغانستان اور پاکستان کے تباہیوں
میں کہیں نہ کہیں امریکہ ضرور شامل رہا ہے ۔اس طرح اس کے مخالف اور اپنے
دوستانہ رویوں کی وجہ کر چین اور روس کو عالمی برادری میں خاص اہمیت حاصل
ہوجائیگی ۔جبکہ امریکہ چھوٹے چھوٹے ممالک کو فتح کرنے کے نشے میں خود کو
شکست کے دہانے پر لے جارہا ہے ۔اور اس کے اس قدم کے جو اثرات پوری دنیا پر
پڑینگے اس سے امریکہ باخبر ہے لیکن وہ تو یہی چاہتا ہے کہ تیسری عالم جنگ
کا بگل بجادیا جائے ۔لیکن اسے سوچنا چاہئے کہ اب اس کے پاس وہ مضبوط فوج
نہیں کیوں کہ اگر اس نے دوسرے مما لک کو تباہ و برباد کیا ہے تو کچھ
تباہیاں اس کے حصے میں بھی ضرور آئی ہیں ۔بھلے ہی وہ انہیں چھپانے کی کوشش
کرے ۔اگر امریکہ شام پر حملہ کرتا ہے اور شام کی دارالحکومت پر قبضہ کرنے
کی کوشش کرتا ہے تو شام کا اتحادی ملک روس یقینا خاموش نہیں بیٹھے گا ،چین
،اور برطانیہ بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکیں گے، اور ایران نے
تو پہلے ہی یہ بات ظاہر کردی ہے کہ وہ امریکہ کے شام پر حملے کے بعد قطعی
خاموش نہیں بیٹھے گا اس صور ت میں تیسری عالمی جنگ کے امکانات نظر آتے ہیں
،جسکا اثر تمام ممالک پر پڑے گا۔ جنگ کے بعد جو حالات ہوتے ہیں اس سے کوئی
بھی ملک انجان نہیں ہے ،ہمیشہ جنگوں کاخامیازہ چھوٹے ممالک کو بھگتنا پڑتا
ہے ۔
امریکہ اور اس جیسے ممالک ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کے کس طرح اسلامی
ممالک پر قبضہ جمایا جائے ،اور کچھ اسلامی ممالک جیسے ،سعودی عربیہ
،قطر،کویت،بحرین ،ایران جنہیں قدرت نے قیمتی اشیاء سے نوازا ہے جن کی وجہ
کر عالمی برادری میں انہیں ایک خاص اہمیت حاصل ہے امریکہ کی بری نظر ہمیشہ
سے ان ممالک پر رہی ہے وہ ان پر قبضہ جمانے کا خواب نہ جانے کب سے دیکھ رہا
ہے شاید یہی وجہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور ان کے اندرونی معاملات میں
امریکہ اکثر و بیشتر دخل اندازی کرتا ہی رہتا ہے اور یہی وہ شام میں بھی
کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ممکن ہے کہ شام پر حملہ کرنے کے لئے کیمیائی ہتھیار
کااستعمال خود امریکہ نے کیا ہو۔واضح رہے کہ شام میں جاری کشیدگی کے سبب
گذشتہ دو سال میں لاکھوں لوگ اپنی جان گنواچکے ہیں ۔
روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں جی20 سربراہی اجلاس کے پہلے دن کے اختتام پر
عالمی طاقتیں شام کے خلاف فوجی کارروائی پر متفق نہیں ہو سکیں۔اٹلی کے
وزیرِ اعظم نے شام کے خلاف فوجی کارروائی کے بارے میں عالمی رہنماؤں کے
متفق نہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔جی20 کا عشائیہ امریکی صدربراک اوباما کے لیے
انتہائی اہم موقع ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انھیں یہ دیکھنے کا موقع ملے گا کہ
میز پر کتنے رہنما ان کے ساتھ ہیں اور کتنے ان کے مخالف ہیں۔جی20 کے بہت سے
رہنما شام کے خلاف حملے کے حق میں نہیں ہیں۔اور اس کا اثر امریکہ کو کس قدر
پڑ رہا ہے اس کا سیدھا ثبوت صدر اوباما کی جذباتی مگر کسی قدر دفاعی انداز
میں کی جانے والی پریس کانفرنس ہے ۔امن کے نوبل انعام سے نوازے گئے براک
اوباماکے لئے سب سے بڑی مصیبت ان کے ملک کے عوام کا بغاوتی رخ ہے جو شام پر
حملے کے مخالف ہیں ۔ ان پر دباؤ ہے کہ وہ پہلے اس مسئلے پرامریکی عوام کی
حمایت حاصل کریں ۔واضح رہے کہ امریکہ نے شام کے صدر بشار الاسد پر 21 اگست
کودمشق کے مضافات میں ہوئے کیمیائی حملے کا الزام عائد کیا ہے ۔اور شام نے
اس کی تردید کی ہے ۔امریکہ کا کہنا ہے کہ شامی حکومت نے 21 اگست کو دمشق کے
نواح میں کیمیائی حملے کیے تھے جن میں 1429 افراد مارے گئے ۔اب دیکھنا یہ
ہوگا کے کیا امریکہ اپنی ضد پر اڑا رہ کر تیسری عالمی جنگ کو دعوت دیگا یا
پھر ان ممالک کی جیت ہوگی جو سچ میں امن چاہتے ہیں اور اس حملے کی مخالفت
کررہے ہیں ۔(مصباح فاطمہ) |