جب رومیوں نے سراکیوس شہر کا
محاصرہ کر لیا تو اُس وقت ارشمیدس ساحلِ سمندر کی ریت پر مختلف آڑھی ترچھی
لکیریں کھینچ کر کوئی مسٔلہ حل کرنے میں مگن تھا ۔ایک رومی سپاہی تلوار بے
نیام کیے اُس کے سر پر آن پہنچا ۔ارشمیدس کو رومی سپاہی کی مداخلت نا گوار
گزری ۔اُس نے سپاہی سے کہا ’’میرے دائرے خراب مت کرو ‘‘ ۔رومی سپاہی نے اسے
مخاطب کرکے کہا کہ وہ اسے قتل کرنے کے ارادے سے آیا ہے ۔تب ارشمیدس نے
کہا’’اُس وقت تک انتظار کرو جب تک میں یہ مسٔلہ حل نہیں کر لیتا ‘‘۔
حصولِ مقصد کے لیے ارشمیدس جیسی لگن اور جذبہ درکار ہوتا ہے جو ہم میں
مفقود ہے ۔شاندار عمارتوں ، دریاؤں ، پہاڑوں ، مرغزاروں ، آبشاروں اور
لہلہاتی کھیتیوں کے مجموعے کا نام ریاست نہیں ۔ریاست اپنا فرض پہچاننے ،
مواقعے سے فائدہ اُٹھانے اور اپنے دفاع کی صلاحیت رکھنے والے ایسے انسانوں
کے مجموعے کا نام ہے جو سچائی کی خاطر سقراط کی طرح زہر کا پیالہ بھی ہنس
کر پی لیں لیکن ہمارے ہاں تو سیاست ہے ، صرف سیاست ، ایسی سیاست جوصرف ذاتی
مفادات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے ۔ نیتوں کے فتورنے ہمیں منزل سے کوسوں دور
پھینک دیا ہے جبکہ ہمارے حکمران قوم کو بیوقوف بنانے کے لیے ’’نشستن ، گفتن
، برخاستن‘‘ تک محدود ہیں ۔میاں نواز شریف صاحب کے خلوصِ نیت پر کسی کو شک
نہیں ۔اُن کے چہرے پہ چھائی گھمبیر سنجیدگی اُن کے کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی
اُمنگ کا پتہ دیتی ہے ۔1999ء کے میاں صاحب کہیں نظر نہیں آتے ۔حضرت علیؓ کا
قول ہے ’’ جب انسان اپنی عقل میں پختہ ہو جاتا ہے تو اُس کا کلام مختصر ہو
جاتا ہے ‘‘۔میاں صاحب بھی اِن دنوں سُنتے سب کی ہیں لیکن تبصرے سے گریز
کرتے ہیں ۔اپنی تمام تر خوش نیتی کے باوجود اُنہوں نے مسائل کے حل کے لیے
غلط راہوں کا انتخاب کیا ہے۔ اُنہوں نے آئینی اور جمہوری ضابطوں کو ملحوظِ
خاطر رکھتے ہوئے کراچی میں دو دن تک ہر سیاسی جماعت ، ہر طبقۂ فکر ، حکومتی
اداروں ، ایجنسیوں اور میڈیا سے تفصیلی مشاورت کے بعد ’’ٹارگٹڈ آپریشن‘‘ کا
گجر بجا دیا لیکن اپنی ساری کوششوں ، کاوشوں اور نیتوں کو اُس شخص کے سپرد
کر دیا جس کا ٹریک ریکارڈ انتہائی مایوس کُن ہے ۔وہ پہلے بھی نام نہاد وزیرِ
اعلیٰ تھے اور اب بھی اویس مظفر ٹپی ہی وزارتِ اعلیٰ کا سارا کاروبار اپنے
دامن میں سمیٹے بیٹھے ہیں ۔ٹپی صاحب کیقبضوں کی داستانیں کراچی کے بچے بچے
کی زبان پر ہیں۔ تو کیا قائم علی شاہ صاحب ، اویس مظفر ٹپی سے بسم اﷲ کرنے
کی سکت رکھتے ہیں ؟۔ دوسری طرف کراچی کے 85 فیصد حصّے کی دعوے دار ایم کیو
ایم نے فی الحال تو خرابیٔ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے عسکری ونگ کو
’’انڈر گراؤنڈ ‘‘ کر دیا ہے اور شاید اسی بنا پراُس نے بڑے دھڑلے سے کراچی
کو فوج کے حوالے کرنے کا شور مچایا ۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم
عسکری ونگ کے بغیر کراچی میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے؟۔کہیں ایسا تو
نہیں کہ ایم کیو ایم فی الحال اپنی عسکری قوت کو محفوظ کرکے دیگر سیاسی
جماعتوں کے عسکری ونگز پر ضربِ کاری کی خواہشمند ہو ؟ ۔ اے این پی کا اپنا
عسکری ونگ ہے اور اُمیدِ واثق ہے کہ اُس نے بھی اپنے مسلح افراد کو اِدھر
اُدھر کر دیا ہو گا ۔اِس کے علاوہ دینی جماعتیں بھی فرقہ بندیوں میں اُلجھ
کر کراچی کے امن کو تہ و بالا کرتی رہتی ہیں ۔اِن حالات میں تو ضرورت ہمت ،
حوصلے اور اچانک ایکشن کی تھی لیکن ہمارے مہربانوں نے تو کراچی میں قیام کے
دوران پوری جُزیات کے ساتھ اپنا پلان ظاہر کر دیا اور ہمارے ’’محبِ وطن‘‘
الیکٹرانک میڈیا نے سب کچھ کھول کھول کے بیان کر دیا ۔کیا اِن حالات میں
دہشت گردوں ، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز پر ہاتھ ڈالنا ممکن ہے ؟۔اب جبکہ
دہشت گردخوب جانتے ہیں کہ کون ، کب ، کہاں اورکیسے ایکشن کرے گا ، تو کیا
وہ اتنے ہی فاتر العقل ہیں کہ رینجرز کا شکار ہونے کے لیے گھروں میں بیٹھے
رہیں گے ؟۔ کراچی کے حالات اتنے خراب کبھی بھی نہیں رہے جتنے اب ہیں۔ اِس
کے باوجود بھی نا اہل آئی جی کے تبادلے کی افواہ پر پیپلز پارٹی چیخ اُٹھی
جس سے اُس کی نیت کا فتور ظاہر ہوتا ہے۔ایک طرف تو میاں صاحب خود کہتے ہیں
کہ کراچی کی پولیس سیاست زدہ اور انتہائی نا اہل ہے جبکہ سیاسی مصلحتوں کی
بنا پر آئی ۔جی پولیس کو تبدیل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اگر ماضی میں
شعیب سڈل کی قیادت اور نصیر اﷲ بابر کی جرأت سے کراچی میں امن ہو سکتا ہے
تو پھر یہ آپریشن ذوالفقار چیمہ کے سپرد کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ۔ٹارگٹڈ
آپریشن کے کپتان سیّد قائم علی شاہ سے پہلا سوال ہی یہ کیا جانا چاہیے تھا
کہ وہ کراچی میں امن چاہتے ہیں یا اپنی سیاست چمکانا؟۔سوال یہ نہیں کہ یہ
آپریشن کامیاب ہوتا ہے کہ نہیں ، سوال یہ ہے کہ اگر یہ آپریشن ناکام ہو گیا
تو اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہولناک خرابیوں کا ذمہ دار کون ہو گا؟۔
اگر اِس ڈھیلے ڈھالے آپریشن سے کچھ دہشت گرد ہاتھ آ بھی گئے تو کچھ فائدہ
نہیں کیونکہ اُن کے خؒاف کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں ہو گا۔اگر کوئی تیار
ہوا بھی تو مار دیا جائے گااور اگر گواہی دینے کے لیے بچ گیا تو دہشت گردوں
کو سزائے موت تو ہو گی نہیں کیونکہ پچھلے پانچ سالوں سے کسی ایک قاتل کو
بھی تختۂ دار پہ لٹکایا نہیں گیا اور میاں نواز شریف صاحب بھی اُسی پالیسی
پر عمل پیرا ہیں ۔حکمت کی عظیم الشان کتاب کہتی ہے ’’قصاص میں حیات ہے ‘‘
جبکہ ہماری این جی اوز اور سیکولر دانشور پھانسی کا نام سُنتے ہی آگ بگولہ
ہو جاتے ہیں ۔این جی اوز کو تو ایسے ہی کاموں کے لیے یورپ ، امریکہ سے
ڈھیروں ڈھیر بھیک ملتی رہتی ہے اِس لیے اُن کا شور مچانا تو سمجھ میں آتا
ہے لیکن سیکولر دانشور شاید صرف اپنی دانشوری کا رعب جھاڑنے کے لیے ایسا
کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں رواج یہ بھی ہے کہ جس عبدِ جہالت اور ابنِ حماقت
کا چہرہ دینِ مبیں کی باتوں پر کھچ جاتا ہے اور جو واضح احکاماتِ الٰہی سے
روگردانی کرتا ہے ، ہم اُسی کو بڑا دانشور سمجھتے ہیں ۔اب جبکہ ہماری نیتوں
میں فتور ہے ، دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کو اِس آپریشن کے بارے میں سب خبر
ہے ، کوئی گواہی کے لیے تیار نہیں اور قانون کے شکنجے میں آنے والوں کے لیے
سزائے موت نہیں تو پھر کراچی میں امن کا خواب دیکھنااحمقوں کی جنت میں بسنے
کے مترادف ہے۔
9 ستمبر کو ایک دفعہ پھر اے پی سی کا شور ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ اِس سے
پہلے منعقد کی جانے والی ایسی کئی کانفرنسز محض وقت کا زیاں ثابت ہوئیں تو
اب اِس کانفرنس سے قوم کو کیا فائدہ پہنچے گا ؟۔ میاں صاحب نے محض چند دن
پہلے کراچی میں کانفرنس منعقد کی اور اب پھر دہشت گردی کے خلاف اے پی سی
منعقد کی جا رہی ہے جس میں طالبان سے مذاکرات یا اُن کے خلاف طاقت کا
بھرپور مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔سوال مگر یہ ہے کہ جب طالبان کے
بارے میں اے پی سی کے شُرکاء کے خیالات میں بُعد المشرقین ہے تو پھر یہ اے
پی سی کیسے ثمر آورہو سکتی ہے ۔ طالبان اپنے غیر ملکی آقاؤں کی شہ پر ہمہ
وقت حکومتی رِٹ کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں جبکہ حکومت مُلتجانہ رویہ اپنائے
ہوئے ہے ۔اگر مفاہمتی مذاکرات ہی کرنے تھے تو پھر لگ بھگ پچاس ہزار عورتوں
، بچوں ، جوانوں اور بوڑھوں کو طالبان کی بھینٹ چڑھانے سے پہلے ہی کر لیے
جاتے ۔اب اگر اِن دہشت گردوں کو پوری قوت سے کُچلا نہیں جاتا تو بہرحال اِن
پچاس ہزار شُہداء کی روحیں حکمرانوں سے روزَ قیامت اپنے خونِ نا حق کا حساب
ضرور طلب کریں گی۔ |