مظفر نگر کے مسلم کش فسادات کے
بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ یو پی کے وزیر اعلیٰ اکھلیش سنگھ یادو
مکمل طور پر نااہل نہ سہی فسادات پر قابو پانے یا فسادات کے واقع ہونے سے
قبل ان کی روک تھام یا تدارک کی صلاحیت ان میں بہت کم ہے۔ فسادات کا جو
سلسلہ یو پی میں سماج وادی پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد شروع ہوا تھا وہ
تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سیاسی قائدین فسادات کے ساتھ فسادات سے فائدہ
اٹھاکر لاشوں اور برباد شدہ گھروں کے ملبہ پر سیاست شروع کردیتے ہیں۔ یہی
اس بار بھی ہورہا ہے۔
یو پی میں سماج وادی پارٹی کانگریس ، بی جے پی اور بی ایس پی کی سہ رخی
حملوں سے دوچار ہے۔ اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی نے اسن تینوں
پارٹیوں کو کراری شکست دی تھی۔ اس لئے ایک عام خیال تو یہ ہے کہ نو عمر اور
ناتجربہ کار وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے لئے ممکنہ دشواریاں پیدا کرنا ان
تینوں جماعتوں کا اولین مقصد ہے۔ اسی لئے تینوں پارٹیاں یو پی کی حکومت کی
برطرفی کا مطالبہ کررہی ہیں ایسا مطالبہ گجرات، آسام اور راجستھان میں ہوئے
فسادات کے وقت کیوں نہیں ہوا تھا ۔ آندھراپردیش میں کرن کمارریڈی وزیر
اعلیٰ کی حیثیت سے مرکزی حکومت اور اپنی پارٹی کے احکامات ٹھکرارہے یں۔ پھر
یو پی ہی کی حکومت کو برطرف کرنے کا مطالبہ ستم ظریقی کی انتہاء ہے بلکہ
گندی سیاست ہے۔
دوسری طرف یو پی ہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف حصوں کے مسلمان بھی سماج وادی
پارٹی سے بدظن ہورہے ہیں کیونکہ سماج وادی پارٹی نے کچھ ایسے اقدامات کئے
ہیں جو شبہات کو نہ صرف جنم دے رہے ہیں بلکہ ان کو تقویت دے رہے ہیں جن میں
سے کچھ مندرجہ ذیل ہے۔
.1 اکھلیش یادو کی پہلی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے بدنام زمانہ راجہ بھیا کو
اپنی کابینہ میں شامل کیا ۔ راجہ بھیا مسلمانوں کے لئے انتہائی نا پسندیدہ
شخصیت ہیں اور اپنی مسلم دشمنی اور فرقہ پرستی کے لئے انتہائی بدنام ہیں۔
.2فسادات پر قابو پانے میں انتظامیہ نے نہ صرف نرم رویہ اختیار کیا بلکہ
فسادات کو روکنے میں ناکام رہنے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی سے
احتراز کیا گیا حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی مستقبل میں ہونے والے فسادات
کے امکانات کے پیش نظر فسادات کے ذمہ دار افسران کے خلاف ایسی سخت کارروائی
کی جاتی کہ اس کے بعد کوئی افسر اس قسم کی غلطی کرنے کے بارے میں سوچتا بھی
نہیں!
.3ضیاء الحق نامی پولیس افسر کے قتل کے مقدمہ میں راجہ بھیا کو بچانے کی
کوشش کی گئی اور کی جارہی ہے۔ جس طرح راجہ بھیا پر شبہ کیا جارہا تھا اسی
طرح اگر کسی اور پر شبہ کیا جاتا تو اس کو فوراً گرفتار کرلیا جاتا راجہ
بھیا کو آزاد رکھ کر جو تحقیقات ہوئی تو وہ بھلا ان کے خلاف کیسے جاسکتی
ہے؟ اسی لئے موصوف کو ہر الزام سے بری قرار دیا گیا۔ راجہ بھیا کی وجہ سے
مسلمان ایس پی اور اکھلیش حکومت سے بدظن ہورہے یں۔
.4 ملائم سنگھ کی سنگھ پریوار کے قائدین خاص طور پر بابری مسجد کے ملزم
(بلکہ مجرم) سے طویل ملاقاتوں نے سنگھ پریوار سے خفیہ ساز باز کے شبہات کو
جنم دیا اشوک سنگھل نے ملائم سنگھ کی طویل ملاقات کی نہ صرورت تھی اور نہ
ہی کوئی جوا ز تھا۔
.5 کمال فاروقی کے خلاف بے جواز اور ناقابل فہم کارروائی نے بھی ان شبہات
کو تقویت بخشی۔ کمال فاروقی نے ماضی کے تجربات کی روشنی میں کہا تھا کہ اگر
ےٰسین بھٹکل پر محض مسلمان ہونے کی بناء پر شبہ ظاہر کیا جارہا ہے تو ایسا
نہیں ہونا چاہئے۔ اس طرح کی بات کہنا نہ قانونی جرم ہے نہ اخلاقی جرم۔
.6مظفر نگر فساد کے ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی گئی
صرف تبادلہ کردیا گیا ۔ اس سے پہلے بھی پولیس اور انتظامیہ کے افسروں کو
یوں ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔
.7 فساد سے پہلے اور بعد ’’مہاپنچایت ‘‘کی اجازت دینا بھاری غلطی تھی۔
.8 اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے بی جے پی، بی ایس پی اور کانگریس کے
قائدین کو تادم تحریر گرفتار نہیں کیاگیا تھا اگر کسی اور خاص طور پر
مسلمان پر اشتعال انگیز تقریر کا الزام لگتا تو وہ فوراً گرفتار کرلیا جاتا
۔ کئی مقدمات قائم ہوتے (مثلاً اکبرالدین اویسی ) لیکن بی جے پی والوں اور
دوسروں کے ساتھ رعایت ناقابل فہم ہے۔
واضح ہو کہ مندرجہ بالا نکات یااعتراضات مختلف حلقوں کے ہیں جن کو ہم نے
یکجا کردیا ہے اور ہر اعتراض اپنی جگہ بے شک وزن رکھتا ہے اور سماج وادی
پارٹی کی قیادت کو ان کی وضاحت ضرور کرنی چاہئے ورنہ شبہات کو مزید تقویت
ملے گی۔
فسادات کے سلسلے میں اگر اکھلیش کی نااہلی خاصی حدتک مشتبہ ہے تو یو پی کی
پولیس (ہر سطح پر) فرقہ پرست اور مسلم دشمن ہے جو آج سے نہیں آزادی سے پہلے
سے ہے۔ پولیس کے رویہ کو بدلنے میں آزادی کی بعد کی کانگریسی حکومتوں نے
کبھی بھی کوشش نہیں کی۔ کئی کانگریسی شروع ہی سے ’’ہندوتوا‘‘ پر ایقان
رکھتے تھے۔ انہوں نے کانگریس کو ہندو جماعت بنائے رکھا تھا۔ بعد میں جب جن
سنگھ اور بی جے پی کی حکومتیں آئیں تو پولیس کی فرقہ پرستی میں جو کسر تھی
وہ پوری ہوگئی۔ پولیس کی اصلاح یا اس کو غیر جانبدار اور سیکولر بنانے کا
مرحلہ نہ آسان ہے اور نہ ہی فوری ممکن ہے۔ اس کا علاج ہے۔ جانبداری اور
فرقہ پرستی کرنے والے پولیس والوں (نچلے درجے کے کارکنوں سے لے کر اعلیٰ
ترین افسروں تک) کو فوری سخت سزائیں دی جائیں۔ متاثرین کو معاوضہ فساد کے
ذمہ دار پولیس افسروں کی جیب سے ادا کروایا جائے۔ صرف تبادلہ کافی نہیں ہے۔
جب تک پولیس والوں کو جواب دہی ہی نہیں بلکہ سزا کا خوف ہوگا ان کی اصلاح
ممکن نہیں ہے۔ پولیس کے علاوہ انتظامیہ کے افسران کو بھی ذمہ دار قرار دے
کر ان کو بھی جواب دہی اور سزا کا خوف ہونا چاہئے۔ محکمہ داخلہ کے اعلی
افسران (معتمد سکریٹری) وغیرہ کو بھی شکنجہ کا خوف ہونا چاہئے۔
سماج وادی پارٹی پر یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ وہ کانگریس کی حکمت
عملی پر چل رہی ہے۔ جو یہ تھی کہ فسادات کروادو سنگھ پریوار کو الزام دو
اور خود کو مسلمانوں کا محافظ اور مسیحا ظاہر کرو ۔ بی جے پی کا خوف دلاؤ
کہ ہمارا ساتھ نہ دو گے (مطلب ووٹ نہ دوگے تو برا حشر ہوگا) لیکن مسلمان اب
اس چال کو سمجھ چکے ہیں خاص طور پر مسلمانوں کے پاس سماج وادی کے متبادل
ایک نہیں دو ہیں۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ مذکورہ خیال صحیح ہے تو ملائم سنگھ
کو نوشتہ ٔ دیوار پڑھنا چاہئے۔ یہ تو مفروضہ تھا۔ ہمارا تو خیال یہی ہے کہ
سماج وادی کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت (یعنی ملائم سنگھ اور اکھلیش) اتنی بڑی
حماقت کے متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔
مظفر نگر کا فساد اکھلیش کی نااہلی کو ثابت کررہا ہے ان کی نرم پالیسی بھی
نااہلی ہے۔ سماج وادی پارٹی نے اس کے مخالفوں کو سماج وادی پارٹی پر تنقید
بلکہ صدر راج کے نفاذ کے مطالبہ کا موقع فراہم کیا ہے۔ گورنر یو پی کی
رپورٹ بھی کانگریس کا سیاسی کھیل ہے۔ کیا راجستھان اور آسام کے فسادات کے
بعد وہاں کے گورنر وں نے ایسی رپورٹ دی تھی؟
سماج وادی کو اس پر لگے الزامات غلط ثابت کرنا ہے تو اس کو سب سے پہلے راجہ
بھیا سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ اعلیٰ افسران پولیس و انتظامیہ پر فسادات کی
ذمہ داری عائد کرتے ہوئے مقدمات قائم کرنے ہوں گے۔ دہشت گردی کے جھوٹے
الزام میں ماخود مسلمانوں کی رہائی کو ممکن بنانا ہوگا۔ کمال فاروقی کو ان
کے عہدے پر بحال کرنا ہوگا بی جے پی کے اعتراض (خوف کو بالائے طاق رکھ کر
مسلمانوں کو ان کا حق (رشوت نہیں) دینا ہوگا۔
سماج وادی پارٹی کی حالیہ عرصہ میں ہمالیاتی غلطی امت شاہ (جیسے مسلم دشمن،
مشتبہ قاتل جو ضمانت پر رہا ہے) آنے والے انتخابات سے قبل فسادات کروانے کا
ماہر ہے۔ اس کی وجہ سے مزید فسادات کا واقع ہونااغلب ہے۔ امت کو یو پی سے
باہر نکال کر اس کا داخلہ ممنوع قرار دینا آسان ہے بلکہ اس کو ناپسندیدہ
شخصیت قرار دے کر اس کی ضمانت منسوخ کروانے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔
سماج وادی پارٹی میں شامل مسلم قائدین وزرأ ارکان پارلیمان، کونسل وا سمبلی
ان شکایات کے لئے بڑی حدتک بلکہ ملائم و اکھلیش سے زیادہ ذمہ دار ہیں اگر
یہ سب مل کر حکومت پر دباؤ ڈالیں حکومت سے اور پارٹی سے علاحدگی کی دھمکی
دیں تو نہ فسادات ہوں گے نہ امت شاہ یو پی آسکے گا اور نہ ہی راجہ بھیا
پارٹی میں رہیں گے لیکن یہ مسلمان قائدین مفاد پرست ہیں۔ مسلمانوں کی
نمائندگی کا حق ادا نہ کرنے کے مجرم ہیں۔ ملائم و اکھلیش کے ساتھ مسلمان
اعظم خاں اور دوسرے مسلمانوں کو کیوں معاف کردیتے ہیں! جبکہ وہ مسلمانوں کے
مفادات کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں۔
|