کراچی ہے جس کا نام

پاکستان سارا کا سارا ہمارا اپنا ہے بلاشبہ ہمیں پاکستان سے محبت ہے اور پاکستان کی عزت و بقا کے لیے ہماری ساری صلاحیتیں اور ساری خدمات حاضر خدمت ہیں اور کراچی جو میرا شہر ہے جو شہر قائد ہے جو منی پاکستان ہے جس میں پاکستان بھر سے ہمارے تمام ہم وطن رہتے اور اپنی روزی روٹی کماتے ہیں اور میرے لیے اہم اسلیے کہ یہاں میں پیدا ہوا یہاں میں پلا بڑھا میں نے تعلیم حاصل کی اور دنیا بھر میں کہیں بھی چلے جاؤ، چند ہی دنوں میں دل اچاٹ ہو جاتا ہے اور واپس اپنے شہر آنے کو دل چاہتا ہے اور واقعی سکون اپنے شہر کراچی اور اسکے راستوں اور اسکی گلیوں میں ہی ملتا ہے۔ کیا ہوا جو کراچی میں پانی خالص نہیں، آب و ہوا خالص نہیں، آٹا دال چاول خالص نہیں اور کچھ بھائیوں کے کہنے کے مطابق تو محبتیں اور خلوص بھی خالص نہیں (جس سے مجھے تو اختلاف ہے اگر ایسی بات ہے کہ کراچی میں اگر کچھ بھی خالص نہیں تو پھر خالص کے متوالے اپنی خالص چیزیں چھوڑ کر اور اپنے جنت جیسے مقامات چھوڑ کر اس ناخالص شہر میں کیوں آن بستے ہو اور پکڑ پکڑ کر دوسروں کو بھی اس ناخالص شہر میں لا بساتے ہو۔ ویسے بھائیوں سب کا حق ہے کہ آئے رہے کھائے پیے مگر خدارا سوچو کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ منہ کھائے تو آنکھ شرمائے تو خدارا کچھ تو شرم ہمیں آنی چاہیے)، یہ بات صرف میرے اور کراچی کے درمیان تعلق ہی کی نہیں ہے بلکہ ہر جگہہ کے رہنے والے کے دل میں اپنے شہر یا علاقے کے لیے محبت و انسیت ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ اسلیے میرے کراچی کی شان میں حقیقت یا دوسروں کی نظر میں قصیدے لکھنے کا مقصد کسی کو اونچا نیچا دکھانا نہیں بلکہ یہ ایک قرض ہے میرے شہر کراچی کو جو میں ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

کراچی جو پاکستان کا ایک ایسا دل نما شہر کہ جس کے دھڑکنے سے پاکستان کے جسم و جاں میں توانائی رہتی ہے اور رگ و پے میں خون دوڑتا ہے اور جس کو دہشت گردی اور سازشوں کے جال میں پھنسا کر ویران کرنے کے منصوبے بنانے والے اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر کراچی کا دل دھڑکے گا تو پاکستان کے جسم میں جان باقی رہے گی اسلیے سازشی دراصل پاکستان کو مفلوج رکھنا چاہتے ہیں جب وہ کراچی میں دہشت گردی پھیلاتے اور اس کو ویران کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور کسی کے پاس کوئی ثبوت ہو یا نا ہو الزام لگانے والے جو ڈرائنگ رومز کی سیاست کرنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں اور جوڑ توڑ کے شہنشاہ بنے پھرتے ہیں وہ اس کا سارا الزام لگاتے ہیں ایم کیو ایم پر جو کہ کراچی کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہے۔ اور ظاہر ہے جسے سب سے زیادہ تکلیف اور نقصان پہنچتا ہے کراچی میں ہونے والی کسی بھی دہشت گردی اور تباہ کاریوں کا۔

کراچی جو پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اور جس کی آبادی بلاشبہ دو کروڑ سے زائد ہو گئی ہے اور جس کے برابر تو نہیں مگر نزدیک ترین زیادہ گنجان آباد شہر لاہور کی آبادی ستر لاکھ کے قریب ہے۔ یعنی کراچی پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر سے دوگنے سے بھی زیادہ آبادی رکھنے والا شہر ہے مگر کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کے وسائل اور اسکے اختیارات بھی دوگنا ہیں پاکستان کے کسی اور شہر سے۔ کراچی جس میں نا صرف پاکستان بھر کی تمام قومیتوں کے لوگ لاکھوں کی تعداد بلکہ غیر ملکیوں کی بھی بڑی تعداد رہائش پزیر اور روزی روٹی کماتے ہیں۔ عرف عام میں ہمارے ملک کے شہر لاہور کو زندہ دلان لاہور کا نام دیا جاتا ہے اور اسی طرح کراچی کو غریب پرور شہر کا خطاب دیا جاتا ہے۔ جہاں ہر شخص کو کام کاج اور ترقی کے مساوی مواقع موجود ہیں۔

کراچی شہر ایک ایسا خوش نصیب شہر ہے جسے مملکت خداداد پاکستان کے قائد یعنی جناب قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے پاکستان کا دارالحکومت قرار دیا تھا مگر بدنصیب اسلیے کہ آنے والے ڈکٹیٹروں اور سیاستدانوں کی آنکھوں میں قائد کے اور بہت سے فیصلوں کی طرح کراچی کو دارالحکومت بنانا بھی ہمیشہ کھٹکتا رہا اور آپس کے جوڑ توڑ اور سازشوں پر ملک کے جاگیردارانہ، وڈیرانہ، سرمایہ دارانہ سوچ و نظریات رکھنے والوں نے اور بیوروکریسی کے کرتا دھرتاؤں نے فوجی آمر ایوب خان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے کراچی شہر کا وہ رتبہ اور اختیار (دارالحکومت ہونے کا) چھین لیا جسے ہمارے قائد نے بہت سوچ سمجھ منتخب کیا تھا۔ مگر کتنے لوگ تھے پاکستان سے محبت کرنے والے اور پاکستان کا دم بھرنے والے جنہوں نے اس فیصلہ کے خلاف کوئی قابل زکر کام کیا ہو۔

آج لوگ پوچھتے ہیں کہ کسی فوجی آمر کو کیا اختیار ہے کہ وہ کسی منتخب حکومت کو یا کسی منتخب یا سرکاری عہدے دار کو اسکے منصب سے الگ کرسکے۔ اس وقت اختیاروں کا پوچھنے والوں نے ایوب ڈکٹیٹر سے پوچھا کہ اس کو کس نے اختیار دیا تھا ملک کا دارالحکومت سندھ کے شہر کراچی سے پنجاب کے علاقے اسلام آباد میں منتقل کرنے کا۔

واقعی اگر حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھیں تو پاکستان کے دوسرے بہت سے شہروں اور علاقوں سے زیادہ شہر کراچی کے ساتھ ہر دور میں نا انصافی روا رکھی گئی ہے۔ کبھی اس کا سٹیٹس جو کہ پاکستان کا دارالحکومت کا تھا وہ چھینا گیا، کبھی اس میں لسانیت کی آگ بھڑکا کر معصوم عوام کا قتل عام کیا گیا، کبھی اس میں دہشت گردی کی کاروائیاں کروائی گئیں جس میں عام لوگوں پر فائرنگ اور بم دھماکے شامل تھے۔ ہمیشہ سے عام ملک کے تمام شہروں سے زیادہ ٹیکسس لگیں ہوئے ہیں اور پاکستان بھر سے زیادہ بجلی کے نرخ کراچی میں ہی ہیں۔

ایک بڑی ناانصافی اس وقت ڈبل سواری پر پابندی ہے۔ محرم کے آغاز سے لگنے والی یہ پابندی آج بھی قائم ہے اور اس میں سب سے بڑا ہاتھ حکومت میں موجود لوگوں کا ہے۔ چند مخصوص سیاسی جماعتیں جن کی کراچی میں نمائندگی چند سیٹوں سے زیادہ نہیں اس شہر قائد کے ٹرانسپورٹ، لینڈ، ڈرگ مافیا کے کرتا دھرتا اور اسلحے کی تجارت، اسلحہ کی فراہمی اور اس کی نقل و حمل کے مالک و مختار ہیں۔ وگرنہ کراچی میں کونسا اسلحہ اور وہ بھی جدید اسلحہ بنتا ہے۔

واقعی سوچنے کی بات یہ ہے کہ کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی سے کون فائدے میں ہیں کیا ٹرانسپورٹر نہیں جن کی چاندنی ہو جاتی ہے جب ڈبل سواری پر پابندی لگتی ہے۔ جب محرم اور ربیع الاول کے بعد اس پر سے پابندی ہٹی تو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہونے لگی اور پورے شہر میں ایک بار پھر حالات خراب ہوگئے اور پھر ڈبل سواری پر پابندی لگ گئی۔ پھر ہٹی تو بارہ مئی آگئی اور اے این پی کے مطالبہ پر پھر سے پابندی لگا دی گئی۔ اور پھر عوام سے مذاق کرنے کے لئے چند گھنٹوں کے لئے یہ پابندی ہٹا کر پھر سے لگا دی گئی جس سے پولیس والوں کی چاندی ہوگئی اور انہوں نے دل کھول کر عوام کو لوٹا۔ اب زرا بتائیے کہ کس کو ڈائریکٹ فائدہ پہنچتا ہے ڈبل سواری پر پابندی کا اور کون ڈبل سواری اٹھنے کے بعد لوگوں پر فائرنگ اور قتل و غارت گری کروا کر فورا ڈبل سواری پر پابندی لگوا دیتا ہے اور اس طرح اپنے بزنس میں دل دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔

کراچی قومی آمدنی میں سے ساٹھ سے ستر فیصدی حصہ مہیا کرتا ہے ریونیو کی صورت میں۔ سمندر کے راستے ملک بھر کی تجارت اجناس کی آمد و رفت بھی کراچی کی بندرگاہوں کے زریعے ہوتی رہی ہے جس میں اب الحمداللہ بلوچستان کی بندرگاہ بھی شامل ہو گئی ہے۔ دشمنوں اور مفاد پرستوں نے شہر کو واقعی ٹارگٹ بنا لیاہے اور متحدہ قومی موومنٹ اپنی قومی و معاشرتی سیاست کے زریعے اپنے محدود وسائل و اختیارات کے ساتھ شہر کراچی کے لیے جو کچھھ کر سکتی ہے وہ کر رہی ہے مگر کیا صرف متحدہ قومی موومنٹ ہی اس شہر کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو سکتا تو اب تک تو ہمارے ملک کے ساٹھ ستر لاکھ کی آبادی رکھنے والے شہر لاہور جس سے کبھی ایک شخص ملک کا وزیراعظم پاکستان، اس کا بھائی وزیراعلٰی پنجاب اور ان کی کمپنی کا ایک ملازم رفیق تارڑ صدر پاکستان کے عہدے پر فائز تھے تو کیا لاہور کے مسئلے حل ہو گئے تھے۔

خدا کی قسم سیاسی کوششوں اور جدوجہد سے جس وقت سندھ کی وزارت اعلٰی بشمول تمام اہم وزارتوں متحدہ قومی موومنٹ کے ہاتھ میں آگئیں انشاﺀ اللہ دنیا وہ وقت دیکھے گی کہ سندھ اور باسی جان لیں گے کہ اسے کہتے ہیں حکومت کرنا۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532501 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.