سنا ہے کہ یورپ و امریکہ کی جیلیں اتنی
شاندار ہیں کہ نہ صرف وہاں مقیم قیدیوں کو زندگی گزارنے کی ہر سہولت میسر
ہے بلکہ تفریحات سے بھرپور دن رات بسر کرنے کی سہولیات بھی موجود ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر ان کے لئے ٹی وی، انڈور و آﺅٹ ڈور گیمز، ٹیلی فون وغیرہ اور
دیگر ”غیر نصابی“سرگرمیوں سمیت بھرپور زندگی گزارنے کے مواقع موجود ہوتے
ہیں۔ کھانے پینے سے لے کر نہانے دھونے تک ہر شے بے مثال ہوتی ہے، بلڈنگ کی
تعمیر میں خوبصورتی کا عنصر بھی سامنے رکھا جاتا ہے یہاں تک کہ ان جیلوں کے
فرش تک چمک رہے ہوتے ہیں لیکن زندگی کی ہر سہولت دستیاب ہونے کے باوجود جیل
جیل ہوتی ہے.... اسی لئے وہاں جرائم کے ”پیشے“ سے منسلک لوگ سزا ختم ہونے
پر اور کبھی کبھار اس سے پہلے بھی اپنی ”کوشش و کاوش“ سے جیل سے باہر آنے
کو ترجیح دیتے ہیں....! جبکہ اس کے برعکس ہمارے یہاں عام زندگی کی طرح جیل
کی زندگی بھی بہت کٹھن ہوتی ہے۔ ایسی جگہ جہاں چار بندے بھی گزارہ نہیں کر
سکتے وہاں درجنوں مجرموں یا ملزموں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بند کر دیا جاتا
ہے، بیت الخلاء کی سہولت بھی اسی کمرے کے ایک کونے میں ”اپنی مدد آپ کے تحت“
بنانی پڑتی ہے۔ پاکستان کی اکثر جیلوں کو یونیورسٹی اور کالج کی حیثیت حاصل
ہے کیونکہ وہاں پر ”جرائم اور مجرموں“ کی ”نرسریاں“ قائم ہیں۔ ہمارے یہاں
جیلوں کے نامساعد اور ناگفتہ بہ حالات کے باوجود ہمارے اکثر لیڈر حکومت کے
ختم ہوتے ہی جیل جا کر آرام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ لیڈر چاہے سیاسی ہوں
یا سفید پوش چور اور ڈاکو ان کی سوچ میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔
آج کل چیف جسٹس آف پاکستان سے لے کر سیاسی لیڈران اور وزراء کی کوشش ہے کہ
ہمارے یہاں موجود جیلوں کی حالت سدھر جائے، چیف جسٹس صاحب نے حال ہی میں
اسلام آباد میں ایک نئی جیل قائم کرنے کا حکم بھی صادر فرمایا ہے۔ اس کے
علاوہ حکومت سندھ کے وزیر برائے جیل خانہ جات نے ایک دلچسپ بات کی کہ ہماری
حکومت روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کررہی ہے، اگر کسی کو یقین نہ ہو تو وہ
جیل میں آکر دیکھ لے....! واہ واہ! ان کا بیان سن کر پوری قوم خوشی کے
شادیانے بجا رہی ہے۔ ہر گھر میں شیرینی بانٹی جارہی ہے اور ہر شخص مسرت و
شادمانی میں ملی نغمے گانے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان کے اکثر عام لوگ جو
اپنے حالات سے گھبرا رہے ہیں، مالی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جاتے ہیں،
گھریلو ذمہ داریاں ہیں کہ پوری ہونے کا نام نہیں لیتیں، مہنگائی ہے کہ دن
بدن پنجاب اسمبلی کی لڑائی کی طرح بڑھتی جاتی ہے، خودکشیوں کی شرح مہنگائی
کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے، دہشت گردی نے عوام کو پہلے ہی خوف میں جکڑا
ہوا ہے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ علیحدہ سے وبال جان بنی ہوئی ہے اور ایسے میں
ایک امید افزاءخبر کہ ”کسی کو یقین نہ ہو تو وہ جیل میں آکر دیکھ لے....! “
اس خبر سے راقم سمیت وہ تمام لوگ نہایت مطمئین اور خوش ہوگئے ہیں جو اپنے
مالی حالات اور سر پر ذاتی چھت نہ ہونے سے پریشان تھے۔ اب حکومت اپنے وعدے
کے مطابق روٹی بھی دے رہی ہے (روٹی تو روٹی ہوتی ہے چاہے عزت سے ملے یا ذلت
کی گہرائیوں میں ڈوب کر، پیٹ تو وہ دونوں صورتوں میں بھر ہی دیتی ہے نا....!
) جیل کے خوبصورت کپڑے بھی اور جیل کی چھت کی صورت میں گھر بھی!
کتنا اچھا ہو اگر حکومت خود یا امریکہ سے درخواست کر کے پورے ملک کو جیل
میں بدل دے، ویسے بھی تو عوام پر پولیس ہی راج کررہی ہے تو کیوں نہ پورا
ملک ہی جیل بن جائے، کم از کم عوام کو کھانے کو دو وقت کی روٹی، پہننے کو
ایک جیسے کپڑے اور رہنے کو چھت میسر آجائے گی، رہی بات عزت کی، عزت تو آنی
جانی چیز ہوتی ہے، عزت سے پیٹ تھوڑی بڑھتا ہے، عزت سے تن ڈھانپنے کو کپڑے
تھوڑے ہی مل جاتے ہیں اور عزت سے مکان تو حاصل نہیں ہوتا، عزت اور بے عزتی،
ضمیر اور بے ضمیری، غیرت اور بے غیرتی آجکل کے زمانے میں کتابی باتیں ہی
ہیں نا....! اور ویسے بھی جس قوم کے راہبروں کو نہ اپنی عزت کی پرواہ ہو نہ
قوم کی، جس قوم کے بے غیرت، اپنی ہی قوم کو بار بار فتح کرنے والے اور سینے
پر بیسویں تمغے لگانے والے بے حمیت ”فوجی بھائی“ پیسوں کے بدلے میں اس قوم
کے سپوتوں اور بیٹیوں کو امریکہ کو بیچ دیتے ہوں وہاں عزت اور اس جیسے دیگر
الفاظ کانوں کو ذرا بھی بھلے نہیں لگتے! تو آئیں پورے ملک کو جیل قرار
دلوانے کی جدوجہد کریں، یہاں کے عوام کی بھلائی کے لئے، ان کے بھوکے پیٹ
بھرنے کے لئے، ان کا تن ڈھانپنے کے لئے اور ان کو سر پر چھت فراہم کرنے کے
لئے، آئیں سب مل جل کر کوشش کریں کہ اتفاق میں برکت ہوتی ہے....! |