ڈرون حملوں پر حکومت کو سلامتی کونسل سے رجوع کرنے میں
تاخیر نہ کی جائے
دہشتگردی کے خاتمے اور مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کیلئے بلائی گئی آل پارٹیز
کانفرنس میں تمام جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات پر اتفاق جبکہ ڈرون حملوں
پر حکومت کو سلامتی کونسل سے رجوع کرنے کو کہا ہے۔ شرکا نے وفاقی حکومت پر
زور دیا ہے کہ وہ ملک میں امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمہ
کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے فوری طور پر مذاکرات کا آغاز کرے۔ سیاسی
جماعتوں نے دہشت گردی کیخلاف مل کر کوشش کرنے پر اتفاق کیا اور دہشت گردی
کیخلاف جنگ میں امریکی ڈکٹیشن لینے سے انکار کر دیا۔حکومت کی جانب سے سیاسی
قیادت کوباضابطہ طور پر آگاہ کیا گیا کہ ڈرون حملوں پر امریکا کے ساتھ کوئی
معاہدہ یا مفاہمت نہیں ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں پانچ گھنٹے سے
زیادہ جاری رہنے والی کانفرنس میں 8 نکاتی اعلامیے کی منظوری دی گئی۔
اعلامیہ کے مطابق کراچی کا معاملہ وزیراعلی سندھ جبکہ کوئٹہ کا معاملہ
وزیراعلی بلوچستان دیکھیں گے جبکہ فاٹا کا معاملہ کے پی کے حکومت وفاق کے
ساتھ مل کر دیکھے گی۔ اے پی سی میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان کی صورتحال
پر کوئٹہ میں اے پی سی بلائی جائیگی۔ امن قائم کرنے کا مکمل موقع دیا
جائیگا۔ جو مذاکرات نہیں کریگا اس کیخلاف آپریشن ہوگا۔مشترکہ اعلامیہ میں
کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری، یکجہتی سب سے اہم ہے جس
کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے۔ مسلح افواج پر مکمل اعتماد اور عزم کا اعادہ
کرتے ہیں۔ ڈرون حملے انتہا پسندی اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہمارے
انفرااسٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچا۔ ہماری خواتین، بچوں اور سکیورٹی
اہلکاروں کی جانیں گئیں۔ لیکن بدقسمتی سے عوام کی قربانیوں کو عالمی برادری
نے تسلیم نہیں کیا۔ جنگ لڑنے سے متعلق امریکا یا کسی اور ملک سے رہنمائی
نہیں لیں گے۔ کل جماعتی کانفرنس میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت شریک تھی۔
کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت مولانا فضل الرحمن نے
حاصل کی۔جسکے بعد وزیراعظم نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ آج کی اے پی سی
کا موضوع ایک قومی موضوع ہے اور اس کا تعلق پاکستان کے حال اور مستقبل سے
ہے پاکستان اس وقت دہشتگردی کی گرفت میں ہے اور گمبھیر مسائل میں گھرا ہوا
ہے۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو اس سے پاکستان کو نقصان ہوگا۔ کانفرنس میں
وزیراعلی پنجاب شہباز شریف، وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ، وزیراعلی
خیبر پختونخوا پرویز خٹک، وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، گورنر
خیبر پختونخوا انجینئر شوکت اﷲ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر
اطلاعات پرویز رشید، وزیر خزانہ اسحق ڈار، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما
مخدوم امین فہیم، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جے یو آئی ف کے سربراہ
مولانا فضل الرحمن ، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار ، مسلم لیگ
فنکشنل کے سربراہ پیر صبغت اﷲ راشدی ، جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ ،
پختوانخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، اے این پی کے رہنما
حاجی عدیل، بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل، مسلم لیگ ق کے سربراہ
چوہدری شجاعت ، قومی وطن پارٹی اور فاٹا کے نمائندے شریک ہوئے۔چیف آف آرمی
اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ظہیر الاسلام
نے کانفرنس کے شرکا کو قومی سلامتی کے معاملات اور دہشتگردی کے چیلنجز پر
بریفنگ دی۔کل جماعتی کانفرنس میں متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی گئی جس
میں کہا گیا کہ ہم وزیراعظم محمد نواز شریف کی دعوت پر اسلام آباد میں
اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ مادر وطن کو درپیش قومی سکیورٹی بحران پر غور کیاجاسکے
، وزیراعظم ، وزیر داخلہ ، چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز
انٹیلی جنس نے انہیں اندرونی و علاقائی سلامتی کی صورتحال کے بارے میں
تفصیلات سے آگاہ کیا ۔ ہمیں یہ جان کر مایوسی ہوئی ہے کہ حالیہ سالوں کے
دوران دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر پر قابو پانے کی کوششوں کے مطلوبہ
نتائج نہیں نکل سکے اور صورتحال خرابی کی طرف جارہی ہے ۔ ہمیں یہ جان کر
بھی تشویش ہوئی کہ اٹھائیس فروری 2013 کو جے یو آئی ف کے زیر اہتمام کل
جماعتی کانفرنس ،14فروری کو اے این پی کی اے پی سی کے اعلامیہ ہائے سمیت
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے 29ستمبر 2011 ء کو بلائی گئی
سیاسی جماعتوں کی کانفرنس کی قرارداد، 14مئی 2011 ء کو پارلیمان کے مشترکہ
اجلاس کی قرارداد ،22 اکتوبر 2008 ء کو پارلیمان کے بند کمرے کے مشترکہ ا
جلاس کے اتفاق، اپریل 2009 ء میں قومی سلامتی کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی
کی اصل سفارشات اور 12اپریل 2012 ء کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں منظور
کی گئی قرارداد کے اصولوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ۔ قرارداد میں کہا گیا ہے
کہ ملک کو درپیش چیلنجز کے بارے میں تفصیلات جاننے کے بعد ہم عوام کے منتخب
نمائندوں کی حیثیت سے اپنی تاریخی ذمہ داری سے بخوبی آگاہ ہیں جو ملک کی
تاریخ کے اس اہم موڑ پر ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم امن و خوشحالی کے فروغ
اور دنیا میں پاکستان کا وقار بلند کرنے کیلئے طریقے تلاش کریں ہم بانیان
پاکستان کے وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے پاکستانی عوام کی خواہشات سے بھی
آگاہ ہیں کہ ہم ایک ایسی خود مختار مملکت بنائیں جسکی سرحدیں محفوظ ہوں اور
جو سب سے دوستی کو فروغ دے اور کسی سے دشمنی نہ ہو ۔ ہم متفقہ طور پر اس
عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان کی خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت ہر
چیز سے بالاتر ہے اور اس کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائیگا، ہم اپنی ہوشیار
مسلح افواج پر مکمل اعتماد کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں اور اپنی مکمل یکجہتی
کا یقین دلانے کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی اور قومی مفادات کو درپیش کسی بھی
خطرے سے نمٹنے کیلئے انہیں مکمل تعاون فراہم کرینگے۔ قرارداد میں کہا گیا
کہ اس جنگ میں اور غیر قانونی و غیر اخلاقی ڈرون حملوں اور افغانستان میں
نیٹو و ایساف کی فوجوں کے اقدامات کے ردعمل میں ہزاروں قیمتی جانیں ضائع
ہوچکی ہیں جن میں بے گناہ مردو خواتین ، بچے اور دفاعی و سکیورٹی اہلکار
شامل ہیں۔ اسکے نتیجے میں ہماری معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑے اور سنگین
مالی نقصان کے ساتھ ساتھ سماجی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے۔یہ خبر انتہائی
افسوسناک ہے کہ پاکستانی عوام کی سنگین مشکلات اور قربانیوں کو عالمی
برادری نے کماحقہ تسلیم نہیں کیا، ہم شہدا کیلئے دعا گو ہیں اور اپنے
پیاروں سے محروم ہونے والے غمزدہ خاندانوں سے تعزیت کرتے ہیں ہم وفاقی اور
صوبائی حکومتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان خاندانوں اور بے گھر افراد سمیت
دہشتگردی کا شکار افراد کی بحالی اور سماجی بہتری کیلئے ہر ممکن امداد دیں
۔ قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان کی جمہوری منتخب حکومت کی طرف سے بار بار
واضح اور کھلے احتجاج کے باوجود امریکہ کی طرف سے ڈرون حملوں کا استعمال
جاری رکھنے پر ہمیں سخت تشویش ہے، ہم متفق ہیں کہ ڈرون طیاروں کا استعمال
نہ صرف ہماری جغرافیائی سالمیت کی مسلسل خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ہمارے ملک سے
انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اقدامات اور ہمارے عزم کے حوالے
سے بھی نقصان دہ ہے ۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ اقوام متحدہ سے ڈرون کا
معاملہ اٹھانے کے امکانات کا جائزہ لے کیونکہ ڈرون حملے بین الاقوامی قانون
کیخلاف ہیں، ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنے قومی مفادات کے تحت اس جنگ کو
لڑنے کا طریقہ کار اختیار کرینگے اور امریکہ یا کسی دوسرے ملک سے رہنمائی
نہیں لینگے ۔قرارداد میں کہا گیا کہ سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے امن ، آشتی
، استحکام اور برداشت و ہم آہنگی والا معاشرہ ناگزیر ہے ۔ ستمبر 2011 ء کی
اے پی سی میں واضح کیا گیا تھا کہ امن کو ایک موقع دینا ہمارا مرکزی اصول
ہوگا اور مذاکرات قبائلی علاقوں کے اپنے لوگوں سے کئے جائینگے ۔ فروری 2013
ء کی اے پی سی میں اس عزم کو دہرایا گیا کہ مذاکرات کے ذریعے امن ہماری
اولین ترجیح ہونی چاہیے پارلیمان کے مشترکہ اجلاسوں کی قراردادوں میں بھی
اسی قسم کی سفارشات دیتے ہوئے زور دیا گیا تھا کہ خود مختار خارجہ پالیسی
کے تناظر میں قومی سلامتی کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے جس میں امن و
مفاہمت کے ساتھ ساتھ مذاکرات کو اہم ترجیح حاصل ہو۔ قرارداد میں کہا گیا کہ
ہمیں اس امر پر بھی سخت تشویش ہے کہ کراچی میں جان ومال اور کاروبارکو
مسلسل خطرات درپیش ہیں ہم وفاقی حکومت کی طرف سے تمام متعلقہ حلقوں کو
اعتماد میں لیکر اور صوبائی حکومت کی مکمل حمایت سے امن وامان کی بحالی
کیلئے حالیہ اقدامات کو سراہتے ہیں جبکہ کراچی کے عوام سے اظہار یکجہتی
کرنے کیلئے ہم صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ کراچی کی
رونقیں بحال کرنے کیلئے مکمل غیر جانبداری اور پورے عزم کے ساتھ ٹھوس اور
مستحکم اقدامات کریں۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ہم بلوچستان کی مخدوش صورتحال
سے آگاہ ہیں اور بلوچ بہنوں اور بھائیوں کی تشویش کا ادراک رکھتے ہیں ۔اب
حکومت اقوام متحدہ سے رجوع کرنے میں تاخیر نہ کرے
|