امن کے دشمنِ ازلی خداوندانِ عالم ہیں
ایک امریکی دفاعی تجزیہ نگارنے بالکل ٹھیک کہاتھاکہ امریکہ کی بقا
شایدہروقت دنیاکے کسی نہ کسی کونے میں جنگ مسلط کرکے خودکو ناقابل
تسخیرمنوانے میں مضمر ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ کسی بھی ملک سے عزت
کے ساتھ رخصت نہیں ہوا۔افغانستان سے ہزیمت کابوجھ ابھی اس کے کندھوں
پرموجودہے کہ اس نے شام کی طرف رخ کرلیاہے۔ویسے تو شام میں خون آشامی کی
ابتدا ہی سے امریکہ بہادرکے عزائم کے بارے میں پتہ چل گیاتھاکہ اسے
نیاشکاردستیاب ہوگیاہے۔افغانستان سے انخلا کے دعووں کے دوران ہی میں یہ
واضح ہوچکاتھاکہ اب امریکی فوجوں کودمشق میں مصروف کرنے کاپروگرام طے
پاچکاہے۔امریکی وزیردفاع چک ہیگل کاکہناہے :ہماری افواج شام میں مداخلت
کیلئے بالکل تیار ہیں ،امریکی صدراوبامہ کی طرف سے حملے کے احکامات کی صورت
میں امریکی افواج پوری طرح چوکس ہیں،اس حوالے سے متعددآپشنزموجودہیں۔ہمیں
خدشہ ہے کہ کہ بشار الاسدکی جانب سے کیمیائی حملے بھی کئے جاسکتے ہیں۔
امریکی میڈیاکی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق اوبامہ کوکانگریس کی
طرف سے شام میں محدودفضائی حملوں کی اجازت تومل گئی ہے اورادھردوسری طرف
بحیرہ روم میں تعینات کروزمیزائلوں سے لیس چاربحری جہازشام کے قریب پہنچ
چکے ہیں۔اوبامہ نے شام میں صدربشار الاسد کی وفادارفورسزکی جانب سے کیمیائی
ہتھیاروں کے استعمال پر اپنی گہری تشویش کا اظہارکیاہے۔امریکی نشریاتی
ادارے سی این این سے ایک انٹرویومیں امریکی صدرکاکہناتھا:کیمیائی ہتھیاروں
کے استعمال سے متعلق لگائے گئے الزامات بے حد سنگین ہیں۔اس واقعہ کے بارے
میں مزیدمعلومات اکٹھی کررہے ہیں لیکن میں یہ کہہ سکتاہوں کہ یہ سب سے
بڑاواقعہ ہے۔امریکاایک ایسے ملک کے طورپر اپنی پہچان برقرار رکھے گاجس سے
لوگ توقع رکھتے ہیں کہ وہ محض ان کی سرحدوں کی حفاظت کی بجائے بہت کچھ کرے
گالیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم ہراک مسئلے میں فوری طورپرالجھ جائیں تاہم
اوبامہ نے یہ نہیں بتایاکہ امریکاشام میں فضائی یازمینی مداخلت بیک وقت کرے
گایاپھرفضائی حملوں کے بعدشام کی اپوزیشن کواقتدارپرقبضے کے لئے آگے بڑھائے
گاجیساکہ وہ پہلے لیبیامیں کرچکاہے یاپھرعراق کی طرح پہلے فضائی حملے کے
بعد اپنے مقاصد پورے نہ ہونے پرزمینی طورپربھی داخل ہوگیاتھا کیونکہ اس سے
پہلے امریکی صدرشام کوکیمیائی ہتھیاروں کے حوالے سے سنگین نتائج کی کئی
باردھمکیاں دے چکے ہیں۔
وریں اثنا شامی حکومت نے روس کے کہنے پراقوام متحدہ کے معائنہ کمیشن
کوتحقیقات کی اجازت دے دی ہے۔سیول میں سفارت کاروں کے ایک فورم میں اقوام
متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی شامی حکومت اوراپوزیشن
فورسزپرزوردیاہے کہ وہ معاملے کی حقیقت منظرعام پرلانے کیلئے اس موقع سے
فائدہ اٹھائیں اور تحقیقات میں تعاون کریں ۔ بان کی مون کامزیدکہناتھاکہ
:کیمیائی ہتھیاروں کاکسی بھی صورت میں استعمال بین الاقوامی قوانین کی خلاف
ورزی ہوگا۔انسانیت کے خلاف اس جرم کے ذمہ داروں کوسنگین نتائج بھگتناہوں
گے۔ ادھرفرانسیسی وزیرخارجہ لاورینٹ فیبوس نے کہا:تمام اشارے ظاہرکرتے ہیں
کہ شام دمشق کے نزدیک کیمیائی ہتھیاروں سے قتل عام میں ملوث ہے ۔ ایران کے
صدرحسن روحانی نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی پہلی بارمذمت کرتے ہوئے
کہا:ان ہتھیاروں کااستعمال کسی نے بھی کیاہو،اس کے سدباب کے لئے عالمی
برادری کوطاقت استعمال کرنی چاہئے۔یہ واقعی انسانیت سوزہے۔
شامی حکومت کی طرف سے پھردعوی کیاگیاہے کہ دارلحکومت کے شمال مشرقی ضلع میں
باغیوں یا مزاحمت کار تنظیموں نے کیمیائی ہتھیاروں کاستعمال کیاہے۔یہ بیان
مزاحمت کاروں کے ان دعووں کے جواب میں سامنے آیاکہ حکومت مبینہ حملوں میں
ملوث ہے۔برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے نے شام میں بچوں اورعام شہریوں کی
ہلاکتوں کاذمہ دار اسرائیل کو قرار دیتے ہوئے کہا:اسرائیلی حکومت کیمیائی
ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کوشام بھیج رہی ہے۔ بقول بشارا لاسد حکومت شام
میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکری موجودہیں جنہیں اسرائیل کی موساد
استعمال کررہی ہے۔کیمیائی ہتھیارصرف القاعدہ کے پاس ہیں اوراسرائیل اس
کوہرقسم کی امداد فراہم کررہاہے۔
اس دوران میں شام میں اقوام متحدہ کامشن نائب سیکرٹری جنرل انجیلاکین کی
سربراہی میں دمشق پہنچ کران تمام مشتبہ علاقوں میں اپنی تحقیق مکمل کرکے
اورکچھ اجزا کے نمونے لے کر واپس جاچکاہے۔ ان کے دورے کامقصد مبینہ کیمیائی
حملوں کی تحقیقات کے سلسلے میں شرائط کاتعین ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے
مہاجرین اوریونیسف کے مطابق شام میں جاری لڑائی کے باعث وہاں سے نقل مکانی
پرمجبورہونے والے بچوں کی تعدادلاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ادارے کے ترجمان نے
کہاکہ اتنی کثیرتعدادمیں پناہ گزنیوں کو اپنے گھربار چھوڑنے پرمجبورکرنے
کاعمل بے حدشرمناک ہے،اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے لاکھوں شامی عوام کی
تعداداس کے علاوہ ہے۔
پناہ گزینوں کی روزافزوں تعدادمیں عالمی سطح پرسماجی خدمات انجام دینے والی
تنظیمیں چیخ اٹھیں ہیں۔ان کی طرف سے شدیدمذمت کرتے ہوئے بنی نوع انسان سے
استدعاکی گئی ہے کہ انسانیت کوبچانے کیلئے میدان عمل میں آئے۔ہالی
وڈاداکارہ اوراقوام متحدہ کی خصوصی مشیربرائے مہاجرین انجیلیناجولی نے شامی
مہاجرین بالخصوص بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کی
امدادکی اپیل کی ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ لاکھوں شامی بچے خوراک اورپناہ سے
محروم ہوچکے ہیں،وہ اپنے ملک میں محفوظ ہیں اورنہ ہی دوسرے ملکوں میں،،پوری
دنیامیں متاثرہ بچوں کی فوری امدادکی ضرورت ہے۔ایک برطانوی نشریاتی ادارے
نے ایک ماہ قبل اطلاع دی تھی کہ امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف سٹاف کے
چیئرمین جنرل مارٹن ڈیمپسی کاکہناہے:شام کے تنازعہ میں امریکانے فوجی
مداخلت کیلئے اخراجات ،خطرے اورفوائدکے خدوخال تیارکرلئے ہیں۔دوسری جانب
انہوں نے خبردارکیاہے:شام میں طاقت کااستعمال جنگ کرنے سے کم نہیں
ہوگااوراس پرامریکاکواربوں ڈالرخرچ کرنے ہوں گے ۔جنرل ڈیمپسی نے اپناموقف
واضح کرتے ہوئے کہا:ہم نے پچھلے دس سال کے تجربے سے یہ سیکھاہے کہ کسی ملک
میں فوجی توازن تبدیل کرناکافی نہیں ہے جب تک اس بات کاخیال نہ رکھاجائے کہ
ایک ریاست کومحفوظ کرنے کیلئے کون سے اقدامات ضروری ہیں۔
مزیدبرآں امریکی سینیٹرزکے نام کھلے خط میں جنرل ڈیمپسی نے امریکی مداخلت
کے حوالے سے پانچ مختلف تجاویزپیش کی ۔ان تجاویزمیں شامی حزب اختلاف کوجنگی
تربیت دینا، انہیں مشوروں سے نوازنااوران کی مددکرنا،شام میں محدودپیمانے
پرفضائی حملے کرنا،نوفلائی زون یاشام کی فضا میں ہوائی جہازوں کی پروازوں
پرپابندی عائدکرنا،شام کے اندر بفر زون یاغیرجانبدارمحفوظ مقامات قائم
کرنا،شامی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں پرقابوپانانمایاں ہیں۔یہ جنگی
جنون،جارحیت اوراستعماری توسیع پسندی کامظہرہیں۔تجاویز سے ظاہر ہوتاہے کہ
عراق اورلیبیاکے بعداب امریکااورنیٹوممالک شام پرفضائی جارحیت اورداخلی
انتشارکی مکمل منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔اس سے قبل وہ مالی کوبھی جارحیت
کانشانہ بنا کر شمالی افریقہ پراپناتسلط مضبوط کرنے کاپیام دے چکے ہیں۔جنرل
ڈیمپسی کی پانچویں تجویزپرعمل کرنے کی حماقت کارتکاب کیاگیاتواس کے نتیجے
میں امریکاایک نئے افغانستان میں پھنس جائے گا۔
امریکاکابڑامقصد شامی مسلمانوں کوشیعہ سنی مسلکی بنیادوں پرتقسیم کرناہے۔وہ
عراق کوفرقہ وارانہ طورپرتقسیم کرنے کی سازشیں کرتارہاہے لیکن میں ان
کاپلان فلاپ ہوگیا۔مشرقِ وسطی کے امورپرنظررکھنے والے تجزیہ کاراس بات
پرمتفق ہیں کہ شام میں بفرزون کے قیام کامقصدشام کے حصے بخرے کرنااورسوڈان
کی طرح اسے دوحصوں میں تقسیم کرناہے۔ اس منصوبے کی نقش گری کے لئے امریکہ
اوراس کے اتحادیوں کوبے تحاشہ سرمایہ کاری اورخون ریزیاں کراناہوں
گی۔لگتاہے اوبامہ انتظامیہ بھی مشرقِ وسطی کی تشکیل نوکی بش ڈاکٹرائن پرعمل
پیرا ہے۔اس ڈاکٹرائن پرعملدرآمدکی بھاری قیمت ایک یقینی امرہے۔شام میں
محدودپیمانے پرفضائی حملے کرنے کی تجویزپرعملدرآمدکیلئے قریباً تین سوملین
ڈالرکے اخراجات کا تخمینہ سامنے آیا ہے جبکہ باقی چارآپریشنز لاگوکرنے
کیلئے ماہانہ اخراجات کااندازہ ایک ارب امریکی ڈالرلگایاگیاہے۔
غیرجانبدارانہ مبصرین کاکہناہے کہ امریکاکوعراق اورافغانستان میں فوجی
مداخلت سے سبق سیکھناچاہئے ۔یہ ایک انتہائی اذیت ناک حقیقت ہے کہ شام کے
تنازع میں ۲۰۱۱ء سے اب تک ایک لاکھ سے زائدبیگناہ لوگ ہلاک کئے جاچکے
ہیں۔کوئی نہیں بتاسکتاکہ کہ انسانوں کوانسانی خون کی لت پڑجائے تووہ
انسانیت سوزی کی کن حدودتک پہنچ جاتے ہیں۔ امریکانے وسط جون میں باضابطہ
اعلان کیاتھاکہ شام کے باغیوں کوہتھیارفراہم کئے جائیں گے ۔اس اعلان نے
امریکاکوعالم اسلام کے ایک بڑے قضئے میں براہ ِ راست ملوث کردیا۔بڑی طاقتوں
کایوں کھل کرسامنے آجانامعاملات کویقیناخطرناک حدتک لے گیاہے۔شام کی موجودہ
صورتحال نے عرب دنیامیں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہرکوبھی منفی طور پر
متاثر کیاہے۔رابرٹ فسک لکھتاہے:
’’عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں امریکاکے تمام دوست سنی ہیں
اورتمام دشمن شیعہ۔صدراوباما نے کسی بھی نئے تنازع میں ملوث نہ ہونے
کاجواصول اپنایاتھااسے بھول کر اب امریکاشام کے تنازع میں ملوث ہوچکاہے۔شام
میں چندانتہاپسنداسلامی تحریکیں بھی مسلح افواج سے برسرپیکارہیں۔ایران نے
صدارتی انتخاب سے پہلے ہی چار ہزا ر فوجیوں کوشام بھیجنے کافیصلہ
کرلیاتھا۔شام کے تنازع میں دوسال کے دوران میں انمول جانوں کااتلاف ایک
انسانی المیہ ہے۔ایران کی حکومت کچھ عرصے سے یہی پیغام اقوامِ عالم تک
پہنچاچکی ہے کہ بشارالاسد کااقتداربچانے کیلئے میدان میں ہے اوریہ عمل کسی
سے ڈھکاچھپانہیں۔ایرانی حکومت کے اندرونی ذرائع کے مطابق شام کی سا لمیت
برقرار رکھنے کیلئے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے خلاف نیامحاذکھولنے
کیلئے بھی تیارہے۔
اس وقت امریکاخلیج فارس کے خطے کی امیرترین ریاستوں کااتحادی ہے۔یہ
مصراورمراکش کے درمیان وسیع سنی علاقہ ہے،پھرترکی بھی ہے۔برطانیہ نے آزادی
دیتے وقت اردن میں جوکمزوربادشاہت قائم کی تھی اس کیلئے شام کی خانہ جنگی
ایک آزمائش اورامتحان ہے۔لاکھوں پناہ گزیں اردن کارخ کرنے پرمجبورہوئے،بعض
ایران کی طرف بھی گئے ہیں۔ جنوبی شام میں نوفلائی زون کاقیام خطے کویقینا
مکمل جنگ میں پھنسادے گا۔ایساہواتوامریکاکے ’’دوست‘‘بھی مشکلات سے
دوچارہونگے۔خطے میں امریکاکے دشمنوں میں لبنان کی حزب اﷲ ملیشیاسرفہرست
ہے۔شام میں علویوں کی حکومت بھی امریکاکے خلاف ہے۔امریکامیں عراق میں جنگ
کے ذریعے سے سنی اقلیت کی حکومت سے شیعہ اکثریت کو اس امیدپرنجات دلائی تھی
کہ اس صورت میں خطے میں طاقت کاتوازن تھوڑاسابہترہوجائے گامگرعراق کے شیعہ
غیرجانبداررہنے کی بجائے ایران کی طرف جھک گئے ہیں یعنی امریکا نے یہاں بھی
پالیسی کی حدتک مات کھائی ہے۔شام میں عراقی شیعوں اورلبنانی حزب اﷲ کے
ارکان نے بشارالاسد کی حکومت کوبچانے کیلئے باغیوں کے خلاف لڑائیوں میں حصہ
لیا ہے۔
امریکانے اب شام کے باغیوں کیلئے کھل کرمیدان میں آنے کافیصلہ اس لئے کیاہے
کہ بشارالاسد انتظامیہ کاتختہ الٹنے کے متعلق تمام کوششیں ناکامی سے دوچار
ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔شام کی ا فواج نے غیرمعمولی جانی نقصان
اٹھاکرقیصراوردوسرے قصبوں پرباغیوں کی راہ مسدودکردی ہے۔اس لڑائی میں حزب
اﷲ کے ارکان نے بھی جانوں کانذرانہ پیش کیاہے دوسری طرف روس نے بھی کھل
کرشام کاساتھ دیاہے۔روس نے تین باراقوام متحدہ میں یہ قراردادویٹوکی ہے جس
کی منظوری کی صورت میں امریکااوریورپ کوشام میں براہِ راست مداخلت کاحق مل
جاتا۔اب خطے کے بہت سے آمروں کواپناتختہ الٹے جانے کے خوف نے گھیررکھاہے۔
امریکاشام میں سنیوں کی’’فری سیرین آرمی‘‘کوہتھیارفراہم کرنے کارادہ
رکھتاہے،حقیقت یہ ہے کہ شام بھرمیں مسلح افواج کے خلاف میدانِ جنگ میں
اگرکوئی زیادہ فعال رہاہے تووہ القاعدہ کی طرف جھکاؤ رکھنے والاالنصرۃ فرنٹ
ہے۔ملک بھر میں اس نے شامی حکومت سے تعلق رکھنے والے جنگی قیدیوں اورایک
چودہ سالہ لڑکے کوتوہین رسالت کے جرم میں موت کی سزادی ہے ۔اگرفری
سیریاآرمی کوامریکااوریورپ نے ہتھیاردیئے توالنصرۃ فرنٹ ان سے یہ
ہتھیارباآسانی ہتھیالے گا۔اب شام میں ہرخودکش حملے کیلئے امریکاہی ذمہ
دارقرارپائے گا،اس نے باغیوں کوہتھیارفراہم کرنے کااعلان کرکے ہی ذمہ داری
اپنے سرلے لی تھی۔امریکانے جن عسکریت پسندوں پرنائن الیون میں ملوث ہونے
کاالزام عائدکیااورجنہیں روس بھی اپنادشمن گردانتاہے،وہ اب شام کی لڑائی
میں امریکاکے حلیف ہوں گے۔
روسی صدرولادیمرپیوٹن نے صاف کہہ دیاہے کہ وہ سب کچھ برداشت نہیں کریں
گے۔انہوں نے امریکاکی وضع کردہ انتہاپسندی کے خلاف شدیدناپسندیدگی
کااظہارکیاہے۔روس کیلئے چیچنیاکاتجربہ بہت تلخ رہاہے۔روسی صدرنے چیچنیا کے
تجربات کی روشنی میں سنی انتہاپسندوں کیلئے شدیداورناشائستہ زبان استعمال
کی ہے ۔انہوں نے ایک حالیہ نیوزکانفرنس میں انتہاپسندوں کے خلاف سخت لہجہ
اختیارکیا۔ ان کاخیال ہے کہ بشارالاسد انتظامیہ کوبھی اس خطرے کاسامناہے جس
کاسامناچیچنیاکی شکل میں روس کوتھا۔روس کیلئے مشرقِ وسطیٰ دراصل مشرق
نہیں،یہ اس کیلئے انتہائی جنوب ہے۔دمشق کی سرحدسے چیچنیاکادارلحکومت گروزنی
۵۰۰میل کے فاصلے پرہے۔روس کی آبادی میں مسلمان ۱۵فیصد ہیں۔سابق سوویت یونین
کی چھ ریاستیں مسلم اوران کی ۹۰فیصدآبادی سنی ہے۔اگرروس سابق سوویت یونین
ریاستوں میں قدم جماناچاہتاہے تواسے ان تمام ریاستوں میں سنی گروپوں کی طرف
سے شدید مزاحمت کاسامناکرناپڑے گا۔
مشرقِ وسطیٰ میں امریکااورروس کے درمیان سردجنگ کے بعدپہلی بارآمنے سامنے
ہونے کی کیفیت پیداہورہی ہے،ایسے میں اسرائیل کی سلامتی کوثانوی حیثیت حاصل
ہوگئی ہے۔عرب دنیامیں رونماہونے والی تبدیلیوں نے اسرائیل کیلئے خاصی
بدحواسی پیداکی ہے،اس پورے منظرنامے میں کوئی بھی روس کی طرف نہیں دیکھ
رہانہ اس کے بارے میں کوئی بات کررہاہے۔اس کیفیت نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن
یاہوکیلئے شدیدمشکلات پیداکی ہیں۔اسرائیل نے شام میں جاری لڑائی کے حوالے
سے صرف ایک بارمذمتی بیان جاری کیاہے۔اس نے سرحدپرزخمیوں کے علاج کاتاثربھی
دیامگرحقیقت یہ ہے کہ اسے بشارالاسد انتظامیہ سے زیادہ اسلامی تحریکوں کی
حکومت سے ڈرلگتاہے۔ شام میں امریکی مداخلت سے اسلام پسندبھی
برسراقتدارآسکتے ہیں اوریہ اسرائیل کیلئے بے حدخطرناک ہوگا۔مبصرین
کاکہناہے:کیاامریکابہادرکی اپنے استعماری عزائم کی تکمیل کیلئے نئی مہم
جوئی اس کے بغل بچہ اسرائیل کے کرتوتوں کاصلہ توثابت نہیں ہوگی۔ |