حکومت سندھ کی دلی آرزو کی تکمیل موجودہ کراچی آپریشن میں
پوری ہو رہی ہے۔سندھ حکومت کی پی پی پی کی یہ خواہش ابھی سے نہیں بلکہ اُس
وقت سے ہے جب سے ایم کیو ایم وجود میں آئی ہے ، کراچی میں پی پی پی کو واضح
طور پر کبھی مینڈیٹ نہیں ملا وہ ہمیشہ لیاری اور کچھ نواحی آبادی تک محدود
رہی۔یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ پی پی پی نے ہمیشہ یہ کوشش ضرور کی کہ کسی
طرح بھی ملک کی شہ رگ کراچی کو مقبوضہ بنا لیا جائے۔ جس طرح بے نظیر بھٹو
کی سربراہی میں نصر اﷲ بابر نے آپریشن کیا تھا ، اس کی یادیں ایم کیو ایم
کیلئے اس قدر تلخ ہیں کہ انھوں نے کراچی میں فوجی آپریشن مطالبوں پر ہمیشہ
محتاط رویہ اختیار کیا ،لیکن جب کراچی سب سیاسی جماعتوں کے ہاتھ سے باہر
نکلنے لگا تو ایم کیو ایم نے با لاآخر کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ
کردیالیکن خلاف توقع ماضی میں فوجی آپریشن کی حمایت کرنے والوں نے مخالفت
شروع کردی۔اپنے گذشتہ کالموں میں ، میں نے واضح طور پر خدشات واضح کردئیے
تھے کہ جس پارٹی(پی پی پی) کی سندھ میں پانچ سال حکومت رہی ، اور اب بلا
شرکت غیرے سندھ کی مالک ہے ، وہ غیر جانبدارنہ آپریشن کس طور کروا سکتی
ہے۔یہی سوال سب پوچھتے ہیں کہ جو وزیر اعلی اپنے انتخاب کے بعد مزار قائد
جانے کے بعد لیاری گینگ وار کی پارٹی میں شرکت کیلئے پہنچ جائے تو اُس سے
سب کچھ واضح ہو جاتا ہے کہ وزیر اعلی سندھ ماضی کی مفاہمتی پالیسی کے بجائے
جارحانہ عزائم رکھتے ہیں۔پی پی پی کی جانب سے ماضی کی طرح کوشش کی جاتی رہی
کہ کسی طرح ایم کیو ایم دوبارہ شریک اقتدار ہوجائے لیکن ایم کیو ایم کی
جانب سے کارکنان کے ریفرنڈم کے بعد یہ صورتحال نمایاں ہوچکی تھی کہ کارکنان
ماضی میں پی پی پی کی جانب سے مسلسل وعدہ خلاف ورزیوں کی وجہ سے اس بار پی
پی پی حکومت میں ایم کیو ایم کی شراکت نہیں چاہتے ، گو کہ اُس ریفرنڈم
نتائج کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا کیونکہ ایم کیو ایم کے ایک سندھ
اسمبلی کے رکن ساجد قریشی اور ان کے بیٹے کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد کراچی کے
حالات مزید کشیدہ ہوگئے تھے ۔ اعلانیہ طور پر جب مسلم لیگ (ن) کو ایم کیو
ایم کی جانب سے ووٹ دئیے تو ظاہر ہوچکا تھا کہ ایم کیو ایم ، اس بار پی پی
پی سے مفاہمت کیلئے رضا مند نہیں ہے ، تاہم اس کے باوجود بھی پی پی پی کی
جانب سے کوشش اور میڈیا میں دعوے کئے گئے ، لیکن عملی طور پر پی پی پی
سنجیدہ نہیں تھی کیونکہ جس طرح پی پی پی نے بلدیاتی بل کو اسمبلی سے منظور
کرایا تو اس عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیااور ایم کیو ایم کے پی پی پی سے
اتحاد کے توقعات کے امکانات کافی معدوم ہوگئے۔ایم کیو ایم نے جب کراچی میں
فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا تو کراچی کے بعض حلقے ان کے اس فیصلے پر کافی
حیران بھی تھے لیکن شہر میں قیام امن کیلئے انھوں نے ایم کیو ایم کی جانب
سے اس مطالبے کا خیر مقدم کیا لیکن کراچی کی تمام قومیتوں کو حیرانی ہوئی
کہ جب تمام سیاسی جماعتوں نے کراچی میں فوجی آپریشن کی شدید مخالفت
کردی۔تاہم اس سلسلے میں وفاق کی جانب کراچی میں کابینہ اجلاس اور اقدامات
کا بظاہر پی پی پی نے خیر مقدم کیا لیکن اس بات کا خدشہ بہر صورت موجود تھا
کہ رینجرز کی جانب سے آپریشن کو ماضی میں بھی سیاسی مداخلتوں کی وجہ سے
ناکامیاں ملیں ہیں اور عوام کی اکثریت1990ء سے تعینات رینجرز کے اقدامات سے
مطمئن نہیں ہیں، خاص طور پر پولیس میں سیاسی مداخلتوں اور دس ہزار اہلکاروں
کی سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے یقین تھا کہ کراچی آپریشن غیر جانبدار نہیں رہے
گا۔چار دن بعد وفاقی وزیر داخلہ نے جب فخریہ انداز میں پریس کانفرنس کرکے
ٹارگٹ کلنگ کی تعداد میں کمی کو کامیابی قرار دیا تو سنجیدہ حلقوں میں کی
جانے والی بحث درست ثابت ہوئی کہ پی پی پی کبھی نہیں چاہے گی کہ کراچی میں
امن و امان کا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کو مل جائے ، پریس کانفرنس کی سیاہی ابھی
سوکھنے بھی نہیں پائی تھی کہ کراچی میں14افراد کو ٹارگٹ کلنگ کرکے وفاق کو
جواب دے دیا گیا۔کراچی کو معتوب رکھنے والے جو بھی عناصر ہیں ان کا ایجنڈا
واضح ہے کہ کراچی میں بد امنی کو جاری رکھنا ہے۔رینجرز وفاق کے ماتحت ادارہ
ہے اور 1990ء سے سندھ بالخصوص کراچی میں موجود ہے ۔بعض عناصر کراچی میں
سیاسی انارکی پیدا کرکے کراچی میں مزید بے چینی و انتشار پیدا کرنا چاہتے
ہیں۔کراچی میں ایم کیو ایم کے سابق ایم پی اے اور ناظم کے خلاف جس طرح
پولیس کی جانب سے فوری کاروائی کی گئی اس پر ایم کیو ایم کے تحفظات نے
کراچی آپریشن کو مکمل متنازعہ بنا دیا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ کراچی میں
ابھی سے نہیں بلکہ کافی عرصے سے متواتر تارگٹڈ آپریشن کئے جاتے رہے ہیں ،
2011ء میں جب عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان اور پختون آبادیوں میں آپریشن
کیاجارہا تھا تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا ،تاہم اس حوالے سے کراچی
میں کئے گئے جتنے بھی آپریشن کئے گئے اُس کے نتائج اس لئے مثبت نہیں نکلے
کیونکہ عدم گواہی و ناکافی ثبوت کی وجہ سے کسی بھی ملزم کو سزا نہیں دی
جاسکی۔کراچی میں قیام امن کیلئے کسی بھی شہری کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن
جب کسی فرد واحد کیلئے پوری آبادی کا محاصرہ کرلیا جاتا ہے اور گھر گھر
تلاشی میں چادر و چار دیواری کا تقدس پامال ہوتا ہے تو اس سے عوام میں منفی
جذبات پیدا ہوتے ہیں۔کراچی میں کبھی بھی منظم انداز میں قیام امن کیلئے
سنجیدہ کوششیں نہیں کئیں گئیں۔ہمیں کراچی کے حوالے سے بھی بیرونی ملک
اخبارات و میڈیا کی رپورٹوں پر انحصار و یقین کرنا پڑتا ہے۔کراچی میں قیام
امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ بے تحاشا اسلحہ ہے جو لائسنس اور بغیر
لائسنس ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے ہیں۔ سابق وزیر داخلہ سندھ تو خود اقرار
کرچکے ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں اسلحہ لائسنس شادی بیاہ میں استعمال
کیلئے نہیں دئیے تھے۔کراچی میں سمندر کے علاوہ تینوں بیرونی راستے انتہا
پسند وں ،کالعدم جماعتوں، اسمگلرز اور منشیات فروشوں کے زیر اثر محفوظ ترین
ہیں ۔کراچی میں داخلے اور خروج کیلئے کسی بھی قسم کی کوئی اسکریننگ نظام ہی
موجود نہیں ہے۔اس کے علاوہ کراچی کے 52نو گو ایریا ز میں لیاری ، منگھو پیر
، اتحاد ٹاؤن ، سہراب گوٹھ ، گلشن معمار ، گلشن حدید ، لانڈھی ،جیسے شہری
سرحدی علاقے شامل ہیں ۔کراچی میں ایسے عناصر موجود ہیں جو اداروں اور سیاسی
جماعتوں کے درمیان غلط فہمیوں کو بڑھا کر اپنے مفادات کی تکمیل چاہتے
ہیں۔رینجرز کو ایک بار پھر کراچی میں قیام امن کیلئے ٹاسک دیا گیا ہے لیکن
کراچی میں جس طرح آپریشن کا رخ سیاسی انداز میں موڑ دیا گیا ہے اس سے کراچی
کے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہونگے ۔پولیس اعلی عہدے داروں کی
مکمل تبدیلی اور رینجرز کی حکمت عملی سے کراچی کی حالات کیا رخ اختیار کرتے
ہیں ، کراچی کی عوام فی الحال عدم اطمینان کا شکار ہیں ۔ایم کیو ایم کیجانب
سے آپریشن کے ابتدا میں خاموشی کے بعد اب احتجاج نے کراچی میں بڑی بے یقینی
کی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ وزیر اعظم اور وفاق وزیر داخلہ کو اس معاملے پر
خاموش رہنے کے بجائے فوری طور پر مانیٹرنگ ٹیم تشکیل دینی چاہیے ، اس
مانٹرنگ ٹیم میں میڈیا سے وابستہ شفاف شخصیات کو شامل کرنا بے حد ضروری ہے
کیونکہ میڈیا اس وقت بنیادی اور کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ ماضی کے مقابلے
میں میڈیا کا کردار بہت حساس اور انتہائی ذمے دارانہ ہوگیا ہے۔ اپنے چینل
سے وابستگی اپنی جگہ ، لیکن اس وقت کروڑوں انسانوں کو میڈیا کے مثبت کردار
کی ضرورت ہے۔ میڈیا اس وقت مکمل آزاد اور ہر قسم کی پابندی سے بالاتر ہے ،
میڈیا کو کراچی کے حالات اور موجودہ آپریشن پر جنگی بنیادوں پر متوازن اور
غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت ہوں یا حساس ترین ادارے ،
میڈیا کے اثر و نفوذ سے محتاط رہتے ہیں ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف
یکطرفہ سیاسی انتقام پر ٹاک شوز کرنے کے بجائے انوسٹی گیشن رپورٹنگ کو فروغ
دینا چاہیے۔ میڈیا اس وقت جتنی قوت کے ساتھ پاکستان میں اپنا وجود تسلیم
کراچکا ہے ، اس لئے اس پر لازم ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے وہ بھی سبق سیکھے
اور اپنی حیثیت سے پاکستان کی عوام کو حقیقت سے آگاہ کرے۔بلا شبہ موجودہ
دور1992ء نہیں ہے۔دیگر ملکی ستون بھی طاقت ور ہوئے ہیں جس میں الیکڑونک
میڈیا نے ملکی سیاست اور عوامی رجحان کا تمام انداز تبدیل کردیا ہے۔ میڈیا
پر آج تاریخی ذمے داری عائد ہے۔تاریخ میں اس کا کردار ویسے بھی یاد رکھا
جائے گا لیکن موجودہ حالات میں کراچی میں امن کے لئے میڈیا نے سنسنی کے
بجائے انوسٹی گیشن رپورٹنگ اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ یا ریٹنگ کے بجائے
حقائق اور مثبت درست مانٹرنگ کی تو یقینی طور پر یہ نئے کراچی کی بنیاد بنے
گا۔پی پی پی حکومت ایسے اقدامات نہ کرے جس سے سیاسی انتقام کی بو آئے اور
عوام میں قومی اداروں کا اعتماد مجروح ہو۔ہمیں سیاسی مفادات سے بالاتر ہونا
ہوگا۔ |