کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد ۔۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی صدارت میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں شامل تمام شرکاء نے اہم قومی مسائل سے چھٹکارہ پانے کے لیے کسی متفقہ لائحہ عمل کو تشکیل دینے اور اس کو اپنانے کی غرض سے ایک ہی میز پر بیٹھ کر ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ ہمارے اندرونی اختلافات چاہے جیسے بھی ہوں ہم ملک و قوم کی خاطر ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ کل جماعتی کانفرنس چھ گھنٹے تک جاری رہی ۔ اس میں کھانے کا وقفہ بھی نہیں کیا گیا۔ اس کانفرنس نے اپنا چھ نکاتی اعلامیہ جاری کیا ہے۔ اس اعلامیہ کا سب سے اہم پوائنٹ یہ ہے کہ ڈرون حملوں کے معاملہ کو اقوام متحدہ میں لے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امریکہ یہ باور کراتا رہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے پرویزمشرف کے ساتھ معاہدے کے تحت کیے جارہے ہیں۔ کبھی وہ کہتا ہے کہ ڈرون حملہ کرنے سے پہلے پاکستان کے حکام کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ جب نیٹو سپلائی بند ہوئی توڈرون حملے بھی بند ہوگئے تھے۔ نیٹو سپلائی بحال ہوتے ہی ڈرون حملے پھر شروع ہوگئے۔ امریکہ جب چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے ڈرون گرادیتا ہے۔ نہ وہ کسی سے مشورہ لیتا ہے اور نہ ہی کسی کی کوئی بات سنتا ہے۔ پوری پاکستانی قوم اس بات پر متفق ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں۔ ان حملوں کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے بھی اپنے دورہ پاکستان میں یہی بات کی تھی۔ تاہم انہوں نے اس سلسلہ میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے سے معذرت کر لی۔ کل جماعتی کانفرنس نے ڈرون حملوں کے معاملہ کو اقوام متحدہ میں لے جانے کا اچھا فیصلہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہونے کو ہے۔ وزیراعظم اس میں شرکت کریں گے۔ وہ اس اجلاس میں ڈرون حملوں اور پاکستان میں دہشت گردی پر بات کریں۔ ہمارے ملک میں جو جوبھی فساد پھیلانے میں ملوث ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ثبوتوں کے ساتھ سب کے سامنے رکھ دیں۔ کل جماعتی کانفرنس کے شرکاء نے جاری کیے گئے اعلامیہ میں اعتراف کیا ہے کہ ملک کو قو م کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں ہم اس اہم او ر نازک موڑ پر عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے اپنی تاریخی ذمہ داری سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ جس کا مقصد ملک میں امن و امان، ترقی اور خوشحالی کیلئے لائحہ عمل وضع کرنا اور عالمی برادری میں پاکستان کا جائز مقام بحال کراناہے۔ ہمیں اپنے بانیوں کے ان وعدوں کا بھی پاس کرنا ہے جو انہوں نے ایک خود مختیار ریاست کے قیام ، سرحدوں کی حفاظت ، سب کے ساتھ دوستی اور کسی سے دشمنی نہ کرنے کے حوالے سے قوم سے کیے تھے۔ اور یہ عوامی امنگوں کے ترجمان ہیں۔ ان تمام شرکاء کی یہ ذمہ داری کل جماعتی کانفرنس میں شامل ہونے سے ختم نہیں ہوگئی۔ بلکہ یہ تو ان کی ذمہ داریوں کا آغاز ہے۔ یہ کانفرنس تو ملک کودرپیش بدامنی کے خاتمہ کے غور کرنے کے لیے ہی تھی۔ اصل کام تو اس کے اعلامیہ پر عمل کرانا ہے۔ اور یہی سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے سے عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ کو شدید جھٹکا لگا۔ امریکہ کو پاکستانیوں پر ایک فیصد بھی اعتماد نہیں ہے۔ ہمارے جوتے تک اتروا لیے جاتے ہیں کہ ان میں کوئی بم نہ چھپا رکھا ہو۔ ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت مغربی میڈیا میں پاکستان او رپاکستانیوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا۔ ہم اپنا کھویا ہو امقام امریکہ کے غلام بن کر نہیں اس کے سامنے ڈٹ کر حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان کسی کے ساتھ دشمنی نہیں کرتا سب کے ساتھ دوستی ہی رکھتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ دشمنی ضرور رکھی جاتی ہے۔ کل جماعتی کانفرنس کے شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی خود مختیاری اور علاقائی سالمیت اولین ترجیح ہے ہر قیمت پر اس کا تحفظ کیا جائے گا۔ ملک وقوم کی سلامتی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ موجودہ حالات کے تناظرمیں کوئی بھی حکومت تنہا اس ذمہ داری کو نہیں نبھا سکتی اس لیے سب کو اس کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس نے قبائلی علاقوں میں قیام امن کے لیے امن کو موقع دینے کے بارے میں چھ نکاتی قرارداد کو اتفاق رائے سے منظورکرلیا۔ ملک میں دہشت گردی ختم کرنے کے لیے طالبان او ر متحارب گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کو پہلا آپشن رکھا گیا ہے۔ اور اس اعلامیہ میں حکومت کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ شرپسند عناصر کے ساتھ مذاکرات کا طریقہ کار طے کرے۔ طالبان اور شرپسندوں کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں خیبرپختونخواہ کی حکومت کو بھی شامل کیا جائے گا۔ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے پہلا آپشن ہی مذاکرات رکھا گیا ہے تاکہ پرامن طریقے سے اس مسئلہ سے نمٹا جائے۔ ادھر طالبان نے بھی اس آپشن کا خیر مقدم کیا ہے یہ سطور لکھتے ہوئے یہ خبریں آرہی ہیں کہ طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ دہشت گردوں کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال بھی کیا جاچکا ہے ۔ اس کے کیا نتائج سامنے آئے ہیں اس سے قوم کا بچہ بچہ واقف ہے۔ طالبان کے ساتھ غیر رسمی بات چیت تو پہلے سے ہی جاری ہے۔ پہلے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی باتیں ہو تی رہی ہیں۔ کئی مرتبہ انہوں نے اپنی کارروائیاں روک بھی دیں۔ نہ جانے کون رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ہے ۔ سارا پراسس ملیا میٹ ہو جاتا ہے۔ طالبان پھر میدان میں آجاتے ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس نے افواج ِ پاکستان پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے خطرات کا مقابلہ کرنے اور قومی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے پاک فوج کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے ساتھ ہی حمایت کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ گزشتہ د س سالوں سے پاک فوج دہشت گردوں سے نمٹ رہی ہے۔ پاکستان کی سلامتی کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے۔ اس کو اپنا یہ قومی فرض ادا کرنے کے لیے دیگر ریاستی اداروں کی حمایت اور تعاون ملنا بھی ضروری ہے۔ کل جماعتی کانفرنس نے پاک فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا ہے اور تعاون کا اعلان بھی کیا ہے۔ اب وہ اس پر عمل بھی کریں۔ تاکہ پاک فوج اپنا یہ فرض احسن طریقے سے ادا کرسکے۔ کل جماعتی کانفرنس نے جنگ میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ڈرون حملوں کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیا گیا ہے۔ اس بات کا اعتراف تو بان کی مون بھی کر چکے ہیں۔ لگتا ہے امریکہ کی تھانیداری کے سامنے ان کا بھی کوئی بس نہیں چلتا ورنہ وہ پاکستان سے یہ بات ضرور کرتے کہ وہ یہ حملے رکوانے کے لیے اپنا کردار اداکریں گے۔ پاکستان میں تو سب کہتے ہیں کہ یہ ڈرون حملے غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ امریکہ سے کیسے منوایا جائے کہ یہ حملے غیر قانونی بھی ہیں اور غیر اخلاقی بھی۔ اور اس کو یہ بات بھی کون سمجھائے کہ ان حملوں سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہورہا امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے لیے موزوں پلیٹ فارم اقوام متحدہ ہی ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنا مقدمہ بھر پور انداز میں پیش کریں تاکہ دنیا کو معلوم ہو جائے کون کس کے ساتھ کیا سلوک کررہا ہے۔ پچاس ہزار کے قریب ہماری قیمتی جانیں اس جنگ کی نذر ہو چکی ہیں۔ اسی ارب ڈالر کا نقصان الگ سے ہے۔ ہمارے جانی اور مالی نقصان کی طرف تو کسی کی نگاہ نہیں جاتی الٹا ڈومور اور ڈوبیٹر کے مطالبے کیے جاتے ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس میں بھی جوقرار دادپاس کی گئی ہے اس میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے نقصان کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہی قرارداد نواز شریف یواین او کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پیش کریں۔ اس قرار داد میں جنگ میں قربانیاں دینے والوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ قرارداد کے ذریعے وفاقی او ر صوبائی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی ، انتہا پسندی کا شکار خاندانوں کی بحالی او ر سماجی تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔ پاکستان اپنے ملک کے متاثرین کی بحالی تو الگ بات ہے وہ تو لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا بوجھ بھی برداشت کر چکا ہے۔ اب تک تودہشت گردی میں شہید یا زخمی ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے یہ اعلان ہی سننے کو ملا ہے کہ مرنے والوں کے لواحقین کے لیے اتنی امداد دی جائے گی او رزخمیوں کے لیے یہ امداد دی جائے گی۔ ایسے خاندانوں کی بحالی کے لیے حکومتیں عملی اقدامات کر لیں تو یہ خاندان خوش ہو جائیں گے۔ ان کے پیارے جو دہشت گردی میں مارے گئے ہیں۔ وہ واپس تو نہیں آئیں گے تاہم ان خاندانوں کے آنسو تو پونچھے جا سکتے ہیں۔ اس میں ان متاثرین کو بھی شامل کیا جائے جو ڈرون حملوں کی زد میں آتے ہیں۔ امریکہ تو ہر حملہ کے بعد کہتا ہے کہ اسے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی جو اکثر جھوٹی ہوتی ہے اور ان حملوں میں پچانوے فیصد بے گناہ پاکستانی مارے جاتے ہیں۔ اس لیے ڈرون حملوں کے متاثرین بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متاثرین میں شامل ہیں۔ قرار داد میں واضح کیا گیا ہے کہ ڈرون حملے نہ صرف پاکستان کی خود مختیاری کے خلاف بلکہ یہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو تنہا کرنے کی کوششوں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ یہی بات امریکہ کو سمجھانے کی ہے اب یہ کام کون کرے گا ۔ یہی اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان امریکہ سے اپنی بات منوانہیں سکتا نہ سہی اس کے خلاف عالمی فورمز پر آواز تو اٹھا سکتا ہے۔ قرارداد میں قومی سلامتی کی حکمت عملی اور آزاد و خود مختیار خارجہ پالیسی وضع کرنے کے بارے میں کہا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نکلنے کے لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہ مطالبہ قوم کی طرف سے مسلسل کیا جا رہا ہے۔ اب کل جماعتی کانفرنس نے بھی یہی بات اپنی قراردادمیں کہہ دی ہے تو اب حکومت کویہ خارجہ پالیسی از سر نو ترتیب دینے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔ قرارداد میں کراچی میں عوام کی زندگیوں، املاک او ر کاروبار کو تسلسل سے لاحق خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس بارے میں وفاقی حکومت کے حالیہ متفقہ فیصلوں پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کراچی کی رونقوں خوشیوں کو واپس لانے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کو ٹھو س اقدامات کرنے کا کہا گیا ہے۔ کراچی مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ اس میں نہ تو کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو ۔ کوئی کہتاہے کہ کراچی میں فوج بلائی جائے۔ پھر جب اس میں آپریشن کرنے کا پروگرام بنتا ہے تو وہی کہنا شروع کردیتا ہے کہ ہمارے مینڈیٹ کو کچلنے کی سازش ہو رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ بھی کراچی کی صورتحال پر احکامات دے چکی ہے۔ ان پر بھی عمل نہیں ہوا۔ ایک تو کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی ضرورت ہے دوسرے حکومت اعلان کرکے اگلے ہی دن اس پر عمل کرنا شروع کردے کہ جس سیاسی یا مذہبی جماعت کا کارکن بھتہ لیتا ہوا یا کسی کو قتل کرتا ہوا پکڑا گیا اس جماعت کے مقامی صدر اور مرکزی قیادت کے خلاف اس کے ساتھ ہی مقدمہ درج کیا جائے گا۔ کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے زبانی جمع خرچ تو بہت ہو چکا ہے۔ اب سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ وہاں بلا امتیازآپریشن کیا جائے جو اس کی مخالفت کرے اس کے خلاف سب کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا جائے۔ بلوچستان کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ہم بلوچ بھائیوں اور بہنوں کے تحفظات کا ادراک رکھتے ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو ملک کے اندر اور باہر ناراج بلوچ رہنماؤں کو منانے اور قومی دھارے میں لانے کے لیے اقدامات کا مکمل اختیاردے دیا ہے۔ سابقہ حکومت نے بھی بلوچستان کی محرومیاں ختم کرنے کے لیے آغازحقوق بلوچستان پروگرام شروع کیا تھا۔ ہر حکومت اعلان کرتی ہے کہ بلوچستان کی محرومیاں ختم کر دی جائیں گی۔ سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کا کیس زیر سماعت ہے لاپتہ افراد کی اکثریت کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت کی تشکیل کے وقت نواز شریف نے اپنی پارٹی کا وزیراعلیٰ نہیں بنایا۔بلکہ قوم پرست کو یہ منصب سونپا ہے۔ ناراض بلوچ رہنماؤں کو منانے کے لیے ان کے مطالبات بھی ماننے پڑیں گے۔ ان کا ایک مطالبہ بگٹی کے قاتلوں کے خالف ایکشن لینا تھا ۔ اب بگٹی کے قتل کا مقدمہ زیرسماعت ہے۔ کل جماعتی کانفرنس نے افغان مذاکراتی عمل کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اے پی سی میں حکومت پاکستان کو ملک میں امن قائم کرنے کے لیے تما م فریقین کے ساتھ مذاکرات کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اس عمل میں خیبرپختونخواہ کی حکومت کو شامل کیا جائے۔ مذاکراتی عمل کے حوالے سے فاٹا کے رسم ورواج روایات، اقداراور مذہبی عقائد کا خیال رکھا جائے اور سازگارماحول پیدا کیا جائے۔ مذاکراتی عمل میں فریقین کو کھلے دل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ دونوں فریقین ایک دوسرے کی بات کو سمجھیں اور ایک دوسرے کے قابل عمل مطالبات کو تسلیم کرلیں۔ مذاکراتی عمل میں رخنہ ڈالنے کے مطالبات کوئی بھی نہ کرے ۔ قبائلیوں کو ان کے رسم ورواج عقائد کی آزادی کی ضمانت دے کر امن قائم ہو جائے توا س سے سستا سودا کوئی نہیں ہے۔ کل جماعتی کانفرنس میں عسکری قیادت نے سیاسی جماعتوں کو ان عناصرکے بارے میں آگاہ کردیا ہے جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ قومی سلامتی کے حوالے سے عسکری اور سیاسی قیادت کا موقف ایک ہے۔ نہ تو حکومت ملک میں جنگ چاہتی ہے نہ سیاسی جماعتیں اور نہ ہی پاک فوج یہ چاہتی ہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں کے خلاف برسرپیکاررہے۔ تمام شرکاء اس نکتہ پرمتفق ہیں کہ مذاکرات سے ہی معاملہ حل کرنے کی کو شش کی جائے۔ عسکری قیادت نے کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی قیادت کو بیرونی مداخلت کے جو ثبوت دیے ہیں نوازشریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وہ ساتھ لے جائیں اور سب کے سامنے رکھ دیں۔ کل جماعتی کانفرنس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ سمیت کسی کی ڈکٹیشن نہیں لی جائے گی۔ امریکہ کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اب وہ پاکستان کو یہ کہنے کی کوشش نہ کرے کہ یہ کرو یہ نہ کرو۔ قوم کی طرف سے مسلسل یہ جو مطالبہ کیا جارہا تھا۔ کچھ سیاسی جماعتیں اور تمام مذہبی جماعتیں بھی یہ مطالبہ کررہی تھیں کہ پاکستان امریکہ کی جنگ سے خود کو الگ کرلے۔ امریکہ سمیت کسی کی ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے نکلنے کا اعلان ہی ہے۔ جو عناصر اس لیے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے تھے کہ حکومت پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا ہوا ہے اب وہ اپنی یہ کارروائیاں بند کردیں۔ کہ کل جماعتی کانفرنس نے ان کا یہ مطالبہ پورا کردیا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس میں شامل سیاستدانوں نے حکومت کے ساتھ تعاون کا یقین بھی دلایاہے۔

کل جماعتی کانفرنس میں شامل تمام شرکاء نے ملک کو درپیش بدامنی کے مسائل پر ایک میزپر بیٹھ کراور باہمی سوچ بچار کے بعد متفقہ اعلامیہ جاری کرکے قوم اور دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے باہمی اختلافات اپنی جگہ وہ ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے یک جان دوقالب ہیں۔ یہ پہلی آل پارٹیز کانفرنس نہیں اس سے پہلے چار ایسی کانفرنسیں ہو چکی ہیں۔ ہر کل جماعتی کانفرنس میں مذاکراتی عمل کو ہی ترجیح دینے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد امریکہ کا یہ آرڈر آجاتاہے کہ ہم جو کہیں حکومت پاکستان وہی کرے۔ اب تو کل جماعتی کانفرنس نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے جو کہا ہے وہی کریں گے۔ اب کوئی ہمیں سمجھانے کی کوشش نہ کرے۔ جس طرح اے پی سی میں تمام شرکاء نے اتفاق رائے کا مظاہرہ کیا ہے اب اسی طرح اس کے اعلامیہ اور قراردادوں پر عمل کرانے کے لیے بھی سب کو باہمی تعاون کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث افراد کے لیے یہ اعلان کرکے اس پر عمل بھی کیا جاسکتاہے کہ جو دہشت گردی سے تائب ہو کر خود کو انتظامیہ کے حوالے کردے گا اس کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جائے گا۔ اس کی قابلیت کے مطابق اس کو سرکاری ملازمت یا دیگر مراعات دی جائیں گی۔ میرا وجدان تو یہی کہتا ہے کہ اس پیشکش کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ ان ساری پیشکشوں کے بعد بھی کوئی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو پھر ریاست کا یہ فرض بن جائے گا کہ وہ ان کے ساتھ سختی سے نمٹے۔ وہ بھی کوشش کی جائے کہ ان کو یا زندہ گرفتار کیا جائے یاایسی کارروائی کی جائے کہ بے گناہ اس کی زد میں نہ آئیں۔ کل جماعتی کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر نوازشریف ہی نہیں تمام سیاسی جماعتیں اور عسکری قیادت سب مبارکباد کی مستحق ہیں۔کہنے کو تو اے پی سی میں کی جانے والی سب باتیں اچھی ہیں ۔اصل میں یہ باتیں اس وقت اچھی ہوں گی جب ان پر عمل کیا جائے گا۔

کل جماعتی کانفرنس میں کیے جانے والے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے وزیراعظم نے کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی سے ان کی ملاقات اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ یہ خبریں بھی شائع ہو چکی ہیں کہ حکومت پاکستان نے کچھ طالبان رہا کردیئے ہیں جبکہ طالبان نے بھی دوفوجی رہا کر دیئے ہیں۔ اس میں کہاں تک صداقت ہے یہ جلد ہی واضح ہو جائے گا۔ تاہم ایک فریق کا مذاکرات کو ترجیح دینا اور دوسرے کا اس کا خیر مقدم کرنا اچھے نتائج کی علامت ہے۔ مذاکرات نتیجہ خیز تب ہو سکتے ہیں جب فریقین ایک دوسرے کی خواہش کا احترام کریں۔اور کوئی اس رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351127 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.