تمام مخالفتوں کے باوجود امریکا شام پر جنگ ٹھونسنے کی بھرپور کوشش کر رہا
ہے۔ جنگ کے منڈلاتے بادل دن بدن مزید گہرے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکا
کی جانب سے لگائی گئی خانہ جنگی کی آگ اب تک ڈیڑھ لاکھ شامیوں کی زندگیوں
کو نگل چکی ہے اور ان گنت دربدر اور بے گھر ہیں۔ طویل عرصے بعد امریکا کو
شامی عوام کے دکھ درد کا احساس ہوا تو وہ شام کو ”سبق سکھانے“ اور کھنڈرات
و ویرانے میں تبدیل کرنے کے لیے بے چین، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کی
بھٹی میں جھونکنے کے لیے کوشاں ہے۔ بہانہ وہی جو صدر صدام حسین کے خلاف
تراش کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔بے شک شامی عوام پر کیمیائی
ہتھیاروں کا استعمال کرکے ظلم کیاگیا ہے۔ ایران کے صدر”حسن روحانی“ سمیت
ساری دنیا نے کیمیائی حملہ کرنے والوں کی کھلے الفاظ میں مذمت کی
ہے۔یقینااس ظلم کے ذمہ داروں کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلنا
چاہیے۔لیکن اس کا یہ مطلب کس کتاب میں لکھا ہے کہ اس حملے کی آڑ میں امریکا
شام پر چڑھ دوڑے۔
شام میں جاری خانہ جنگی سے بے شمار لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،
اگر امریکا کو یہ” نیک“ کام کرنا ہی تھا تو پہلے کیوں نہ کردیا۔ شام میں
متعدد بار اس سے پہلے بھی کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے، لیکن امریکاکو
عوام کا درد اس وقت محسوس نہ ہوا۔ درحقیقت کیمیائی ہتھیاروں کا تو اک بہانہ
ہے، ورنہ امریکا شام پر حملہ کرنے کا منصوبہ تو بہت پہلے سے تیار کیے بیٹھا
تھا۔ بس وہ اس انتظار میں تھا کہ امریکا کے لیے شام میں یلغار کرنے کے لیے
حالات کب سازگار ہوتے ہیں۔اسی لیے وہ اکیلا ہی جنگی میدان میں کودنے کو فخر
محسوس کررہا ہے، عین ممکن ہے کہ حالات سازگار دیکھ کر ”شامی فوج کو سبق
سکھانے کے لیے“ امریکا نے خود ہی شام میں کیمیائی حملہ کروایا ہو۔ جنگ کے
لیے حالات سازگار بنانے کے لیے امریکا نے جان بوجھ کر عوامی بغاوت کو خانہ
جنگی میں تبدیل کیا اور خانہ جنگی کو طول دینے کے لیے بے تحاشہ اسلحہ فراہم
کرتا رہا، تاکہ فریقین کی طاقت کا شیرازہ اچھی طرح بکھر جائے۔ امریکا نے
بہت ہی شاطرانہ مہارت سے آمریت اور عوام کی لڑائی کو فرقہ وارانہ جنگ میں
تبدیل کردیا،آج شام کی جنگ شیعہ اور سنی ، عرب اور ایران کی جنگ بنادی گئی
ہے۔ اسی لیے شام پر امریکی حملے پر بہت سے اسلامی ممالک نے چپ سادھ لی ہے
یا امریکا کو ہلہ شیری دے رہے ہیں۔شام کی عوام کو بشارالاسد سے چھٹکارہ دلا
کر امریکا کے رحم و کرم پر چھوڑدینا بھلا کہاں کی عقلمندی ہے؟۔درحقیقت شام
کی جنگ امریکا اور روس کے مفادات کی جنگ ہے۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے
اسلامی ممالک میں پھوٹ ڈالنا امریکا کے شاطرانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ
امریکا کا پرانا طریقہ واردات ہے۔ امریکا اسلامی ممالک کا ایک شاطر و چالاک
دشمن ہے، وہ کسی صورت بھی اسلامی ممالک میں امن اور ترقی نہیں دیکھ سکتا۔
تمام اسلامی ممالک میں مختلف قسم کی لڑائیاں کروادینا اس کا پسندیدہ مشغلہ
ہے تاکہ اسلامی ممالک آپس میں ہی لڑ بھڑ کر کمزور ہوجائیں۔ عراق میں بھی
امریکا نے شیعہ سنی لڑائی کرواکر اپنے مقاصد حاصل کیے تھے۔ جو قوت امریکا
کے خلاف استعمال ہونی چاہیے تھی وہ آپس میں استعمال ہوئی اور امریکا نے اس
لڑائی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
امریکاکے معروف تھنک ٹینک ”رینڈ کارپوریشن“ نے امریکا کی فوجی قیادت کی
ہدایت پر ”مسلم دنیا نائن الیون کے بعد“ کے عنوان سے ایک تحقیقی رپورٹ تیار
کی تھی۔ اس کا خلاصہ ”نائن الیون کے بعد مسلم دنیا میں امریکی حکمت عملی“کے
عنوان سے 2004 میں جاری کیا گیا۔ اس رپورٹ میں امریکی حکومت کو مشورہ دیا
گیا تھا کہ ”عالم اسلام میں امریکی اہداف کے حصول کے لیے شیعہ سنی اور عرب
غیر عرب اختلافات کو استعمال کیا جائے۔“ معروف امریکی تجزیہ کار” مائک
وٹنی“ کے مطابق اس تحقیقی مطالعے کا بنیادی مقصد ”’ فرقہ وارانہ، نسلی،
علاقائی اور قومی سطحوں پر پائے جانے والے کلیدی اختلافات اور تنازعات کا
تعین کرنا اور یہ اندازہ لگانا تھا کہ یہ اختلافات امریکا کو اپنے مفادات
کی تکمیل کے لیے کیا مواقع فراہم کرتے ہیں۔“ اس رپورٹ کی سفارشات کے عین
مطابق عراق میں قابض استعماری قوتوں نے یہی حکمت عملی اختیار کی۔ بصرہ میں
قابض افواج نے مجاہدین کا بہروپ بھر کر عام شہریوں کو بم دھماکوں کا نشانہ
بنایا۔ اس کے دو ماہ بعد عراقی نیشنل گارڈز نے دو برطانوی سپاہیوں کو بارود
سے بھری ہوئی ایک گاڑی، دہشت گردی کے لیے لے جاتے ہوئے پکڑا۔ یہ سپاہی
روایتی عرب لباس میں تھے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا
تھا۔ معروف تجزیہ کار ”کرٹ نمو“ نے اپنی ویب سائٹ پرمنظر عام پر آنے والے
اپنے تجزیے میں ان واقعات کا حوالہ بھی دیا تھا۔اسی طرح شیعوں اور ان کی
عبادت گاہوں کونشانہ بناکر انہیں یہ تاثر دیا گیا کہ یہ سنیوں کا کام ہے
اور سنیوں اور ان کی عبادت گاہوں کو ہدف بناکر انہیں یہ باور کرانے کی کوشش
کی گئی کہ یہ شیعوں کی سازش ہے۔اسلامی ممالک یہ بات نجانے کیوں نہیں سمجھتے
کہ دشمن نہ تو کسی شیعہ کو چھوڑتا ہے اور نہ ہی کسی سنی کو معاف کرتا ہے۔ان
کا دشمن متفق ہے لیکن یہ خود دشمن کے مقابلے میں مختلف ہوچکے ہیں۔
امریکا کی پالیسی ”لڑاﺅ اور حکومت کرو“ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا
ہے کہ امریکا جنگ سے پہلے ہی شام میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکا ہے۔امریکا
کا مقصد یہ ہے کہ وہ اسلامی ممالک کے باشندوں کو آپس میں دست و گریباں کر
کے اسلامی ممالک کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھنسا کر اس قدر کمزور کردے کہ
اس دلدل سے نکلتے نکلتے بھی برسوں بیت جائیں۔ شام کو خانہ جنگی سے جس قدر
نقصان پہنچ چکا ہے ، اگر شام پوری محنت و کوشش سے بھی مستحکم ہونا چاہے تو
برسوں کی مشقت درکار ہے۔یہی حال افغانستان، لیبیا اور عراق کا ہے۔ لاکھوں
مسلمانوں کو قتل کردینا اور ان ممالک کو دس بیس سال پیچھے دھکیل دینا ہی
امریکا کی کامیابی ہے۔ان جنگوں سے امریکا میں تو کسی امریکی کو خراش تک
نہیں آئی جبکہ اسلامی ممالک کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو شام کے معاملے میں اسلامی ممالک ہی قصوروار ہیں۔کسی نے
اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔اسلامی ممالک کو چاہیے تھا کہ شام کے معاملے کو
گفت و شنید سے حل کراتے ۔یہ ممالک معاملہ تو کیا حل کراتے خود اس خانہ جنگی
کے فریق بن کر اس جنگ کو مزید بھڑکاتے رہے ہیں۔اگر اسلامی ممالک اس معاملے
کو سنجیدگی سے لیتے اور اس جنگ کی آگ کو مزید نہ بھڑکاتے تو یہ معاملہ
یقینا سلجھ جاتا۔ ان گنت لوگ موت کے منہ میں نہ جاتے۔ حالانکہ صاحب عقل و
دانش تو ایک عرصے سے یہی کہتے آرہے ہیں کہ جب تک اسلامی ممالک اپنے فیصلے
خود نہیں کریں گے، اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا نہیں کریں گے اور اپنے
مسائل کو باہم مل کر سنجیدگی کے ساتھ حل نہیں کریں گے، اس وقت تک سب ایک
ایک کرکے دشمن کی سازشوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ دوراندیش لوگ افغانستان کے
حملے کے بعد سے دہائی دے رہے ہیں کہ اس کے بعد عراق، شام، ایران، پاکستان
اور سعودی عرب امریکا کا ہدف ہوں گے۔ لیکن کوئی اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے
تو تب ہے نہ۔ ان کو کون سمجھائے کہ آنکھیں موند لینے سے کبوتر اپنی جان
نہیں بچا سکتا۔ تین متحدہ بیلوں کوتو شیر بھی شکست نہ دے سکا۔اگر اتحاد کا
درس دینے والے دین برحق کے پیروکار متحد ہوں تو ان کو کوئی کس طرح شکست دے
سکتا ہے۔
|