جمہوریت اور حکمران

مسٹرٹین پرسنٹ کے نام سے پہچانے جانیوالے اور تیر کے ذریعے عوام کا 100فیصد خون چوسنے والے حکمران جاتے جاتے بھی قوم کو ٹیکہ لگا گئے ہیں جمہوریت کے نام پر معاہدہ کرنے والے سابق حکمرانوں نے غیر ملکی حکمرانوں سے ملنے والے پندرہ کروڑ روپے سے زائد مالیت کے تخائف ایوان صدر سے منتقل کردئیے پچھلے پانچ سالوں میں دنیا بھر سے ملنے والے پندرہ کروڑ روپے مالیت سے زیادہ کے مہنگے تحفے انہوں نے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے اپنے پاس رکھ لئے ان میں دبئی لیبیا سے ملنے والی تین گاڑیاں بی ایم ڈبلیو سونے کے سکے گولڈ پلیٹ انگوٹھیاں قالین خنجر آئی پیڈ کی بورڈ اور دیگر تخائف شامل ہیں فلپائن سے 42 ہزار کا سگار اوباما کی طرف سے صدر پاکستان کو دیا جانیوالا شیشے کا پیالہ صدر نے تحائف کم قیمت ادا کرکے رکھ لئے - کسی زمانے کے مسٹر ٹین پرسنٹ اور سابق دور میں 100 پرسنٹ کے اس عمل سے اندازہ ہوا کہ مسلسل کئی بحرانوں کے شکار پاکستان میں حقیقی معنوں میں علم و عقل کا بحران بالکل نہیں نہ ہی مال و دولت کا بحران ہے تہذیب و تمدن کا بحران بھی نہیں ہاں بحران ہے اس زندہ ضمیر کا جو خرید ا نہ جاسکے جو کسی قسم کی سودے بازی نہ کرے اور بحران ہے تو اس دل کا ہے جو ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہو-یہ اس ملک کے صدر ہیں جس کے بیشترعوام ٹائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں اور اسی بناء پر پاکستان دنیا بھر میںان 10 ممالک میں شامل ہے جہاں کے شہری رفع حاجت کیلئے بیت الخلاء کے بجائے غیر مناسب جگہوں کا استعمال کرتے ہیں جس سے معاشرے میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور ماحول بھی آلودہ ہورہا ہے 18 کروڑ کی آبادی والے ملک میں 4کروڑ لوگوں کے پاس بیت الخلاء تک نہیں اور اسی بناء پر وہ کھلی جگہوں کھیتوں کارخ کرتے ہیں یہ صورتحال پاکستان میں بدترین غربت اور عدم مساوات کو واضح کرتی ہے-

جاتے جاتے بھی کرسی کی خاطرمرنے والوں کو شہید بنانے اور کہلانے والے اس بھوکی ننگی قوم کیساتھ مذاق کر گئے ہیں غریب عوام کے گھروں میں کھانے کو کچھ نہ ہو لیکن یہ جم ہوریت کا پھل ہے کہ تاحیات پروٹوکول مفت رہائش بیس ہزار کار الائونس گھر یا کرایہ کیلئے پچاس ہزار روپے اور مراعات پر کسی قسم کی ٹیکس نہیں سالانہ 72ہزار کی مفت ٹیلیفون کالیں اور دو ہزار بجلی یونٹ کی سہولت کی فراہمی سمیت کتابوں کی خریداری کیلئے بھی ایک لاکھ روپے دئیے جائینگے ڈپلومیٹک پاسپورٹ کیساتھ گریڈ سترہ کا سیکرٹری سیکورٹی گارڈ ڈرائیور اور باورچی بھی اس غریب ملک کے صدر کو دیا جائیگا سوئس بینکوں میں کھربوں روپے کے مالک اتنے غریب ہیں کہ بھوکے ننگے عوام کومفت علاج کی سہولت ملے یانہ ملے یہ اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں گے اور یہی عیاشیاں ان کے بچوں کو حقیقی معنوں میں حاصل ہونگی -جم ہوریت کے نام پر جاری اس کھیل میں گذشتہ پانچ سال تک فرینڈلی اپویشن کا کردار ادا کرنے والے برادران کے اب مزے ہیں پیسے اور ڈنڈے کے زور پر ہر چیز کو برائے فروخت سمجھنے والے برادران جم ہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں اور اب جانیوالوں نے بھی یقین دہانی کرادی ہے کہ اب جم ہوریت کے ڈرامے میں پانچ سال تم لوگ مزے کرو ہم کچھ نہیں کہیں گے فرینڈلی اپوزیشن کے دوران میڈیا پر عوام کیلئے آوازیں اٹھانے والے اب حکمران بنتے ہی خزانہ خالی ہے کی گردان شروع کرچکے ہیں اور اب ڈھول گلے میں لٹکا کر قرضوں خیراتوں کیلئے مختلف ممالک کے دورے کئے جارہیہیں عوام کیلئے کچھ کرنے کے دعویدار ان سرکاری دوروں میں پورے خاندان کو لے جارہے ہیں کہ یہ جیسے ان کا اس ملک کے غریب عوام پر حق ہے گذشتہ 100 دنوں میں مہنگائی کے عالمی ریکارڈ قائم کردئیے گئے ہیں پٹرول 98 سے 110 تک پہنچ گیا ہے سی این جی 74سے 84 اور بجلی کے فی یونٹ نرخ 5 روپے سے بڑھ کر 12 روپے تک پہنچ گئے ہیں ان میں مزید اضافیکے اعلانات بھی کئے جارہے ہیں ڈالر 98 سے 105 روپے تک پہنچ گیا آٹا 37سے 46 روپے جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ کرنے کیساتھ ساتھ ٹی وی لائسنس میں 2 روپے اضافہ کردیا گیا ہے موبائل فون پر ٹیکس 17 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد کردیا گیا ہے مزے کی بات کہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا - اسی ملک میں لوگ پولیس کو تحقیقات میں مدد دینے کیلئے بیٹیوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں- بیٹیاں جہیز نہ ہونے کی بناء پر نہروں میں کود کر جان دینے پر مجبور ہیں لیکن جم ہوریت کو قرآنی احکامات قرار دینے والے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں اور جم ہوریت کی آڑ میں جانے والے چور آنیوالے چوروں کو یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ اگلے پانچ سال تم بھی اس ملک میںعیاشی کرو لوٹو اس بے وقوف عوام کو ہم اس دوران خاموش رہینگے پانچ سال بعد دیکھیں گے کہ باری کس کی ہے لیکن اب لوٹنے کی باری تمھاری ہے -

اپنے آپ کو مہذب تعلیم یافتہ قرار دینے والے ہم سب خاموش ہیں اور ہمیں حکمران اپنی عیاشیوں کیلئے لوٹنے میں مصروف ہیں غریب کیلئے اس معاشرے میں الگ قانون ہے اور پیسہ اور ڈنڈے والوں کیلئے الگ قانون یہ الگ بات ہے کہ ہم لوگ دل کی تسلی کیلئے یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے اور اس میں کسی کا لحاظ نہیں ہوتالیکن یہ کتابی باتیں جو صرف کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہیں اورعملی زندگی میں ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے لئے قانون میں کوئی رعایت دیکھیں وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جس نے بلوچستان تک حکومت کی تھی جب انہیںخلیفہ بنایا گیا تو انہیںبیت المال سے دو وقت کا کھانا ملتا تھا اور اسی پروہ اپنے آپ کو اتنا جوابدہ سمجھتے کہ ایک موقع پر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی مر جائے تو مجھے خوف ہے کہ اللہ تعالی اس کا حساب مجھ سے کرے گایہ ہے وہ طرز عمل جو ہم جیسے لوگوں کیلئے مشعل راہ ہوناچاہئے لیکن ہم پیدائشی مسلمان صرف زبانی کلامی تو بہت کچھ کرتے ہیں لیکن ہم لوگ ان کی ایک عادت کی پیروی بھی نہیں کررہے -اسی وجہ سے ایک چور چھٹی کرتا ہے تو دوسرا اسکی جگہ لیکر آجاتا ہے اور ہم انہیں کندھوں پر اٹھا کر جم ہوریت کی نعرے لگاتے ہیں-
 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499829 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More