بھارت کو افغانستان سے نکالے بغیر پاکستان میں امن ممکن نہیں

قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب اپنی بقا اور سلامتی کے حوالے مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں ۔ پاکستانی قوم بھی ایک ایسی ہی صورتحال سے گزر رہی ہے۔ مقام شکر ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستانی قوم ، سیاست دان اور فوج یکسو ہو کر اپنا اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ۔ شاید قوم کا یہی اتحاد پاکستان دشمن طاقتوں کو گوارا نہیں ۔ پاک فوج نے سیاسی قیادت کے شانہ بشانہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے طالبان سے مذاکرات کی آپشن کو بروئے کار لانے کی حمایت کی تھی لیکن ایک میجر جنرل سمیت تین فوجی افسران کو دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائی کے ذریعے شہید کرکے اُس سارے مفاہمتی عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ دارالحکومت میں ان دنوں یہ سوال بڑی شد و مد سے اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیاوجہ ہے کہ نواز شریف نے اقتدار میں آنے کے بعد بدامنی اور لاقانونیت پر قابو پانے کیلئے کراچی آپریشن اور طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے جو راستہ اختیار کیا ،اُسے کامیابی سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا جا رہا ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے نام پر ایسے گروہ سرگرم عمل ہیں جو قومی سلامتی کے اداروں پر عرصہ دراز سے حملہ آور ہو رہے ہیں ۔ جی ایچ کیو پر حملہ ، پاک بحریہ کے کورین طیاروں کو نشانہ بنانے کی کارروائی ، پاک فضائیہ کے زیر استعمال اواکس طیاروں پر حملے اور دیگر حساس دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنا کر پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو کمزور کرنے والے ہر لحاظ سے پاکستان کے بدترین دشمن ہیں اور اُن کا پاکستانی فوج یا سیاسی قیادت سے کوئی سیاسی اختلاف نہیں ، وہ محض اپنے غیر ملکی آقائوں کے اشارے پر پاکستان کے دفاع کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جو پاک فوج کی کمان اور اُس کے افسروں کو بھی نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے اور اَپر دیر میں فوجی قافلے پر حملہ بھی ایسے ہی عناصر کی کارروائی ہے۔ کوئی بھارت سے دوستی کی جتنی مرضی باتیں کر لے یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان سے لیکر فاٹا کے سرحدی علاقوں تک اور کراچی سے لیکر پنجاب تک تخریب کاری ، دہشت گردی اور بدامنی کی کارروائیوں میں بھارتی ایجنسیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس معاملے میں بھارتی مداخلت کا اِس سے بڑھ کر اور بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ اُس نے پاک افغان سرحد پر افغانستان کے اندر جابجا اپنے مراکز قائم کر رکھے ہیں جو بظاہر تو تجارتی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف عمل نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت اُن کا کام پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی حکومت اور قوم اپنے اصل دشمن کو پہچانے۔ جب تک افغانستان کے معاملات سے بھارت کو الگ نہیں کیا جائے گا نہ تو پاکستان میں امن قائم ہو گا اور نہ ہی افغانستان کی صورتحال بہتر ہو گی۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں ہونے والی ملاقات میں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو پاکستان میں بھارتی ایجنسیوں کی مداخلت کے حوالے سے جو ٹھوس ثبوت پیش کیے تھے اور جس کی بنا پر بھارتی قیادت کو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا پڑا اسی طرح وزیراعظم نواز شریف کو نیویارک میں بھارتی وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات میں یہ معاملہ ضرور اُٹھانا چاہیے۔ دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں کراچی کی صورتحال کو بھی بڑی تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ سندھ بالخصوص کراچی میں لاقانونیت کے خاتمے کے لئے وفاقی حکومت کے ٹارگٹڈ آپریشن کو نتیجہ خیز نہیں بنایا جا سکا بالخصوص ایک مخصوص سیاسی جماعت کے ردِ عمل نے وفاقی حکومت کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی تمام سیاسی طاقتیں کراچی میں بحالی امن کے لئے نہ تو خود کچھ کر رہی ہیں اور نہ وفاقی حکومت کو کچھ کرنے دے رہی ہیں۔ آخر یہ صورتحال کب تک چلے گی ۔ بھتہ مافیہ اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کی سیاسی سرپرستی میں کراچی جیسے اہم معاشی مرکز کو منجمد کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب تک ہزاروں تجارتی ادارے اور افراد اپنا کاروبار سمیٹ کر بنگلہ دیش، سری لنکا ، ملائیشیا ، دبئی اور دیگر ممالک کا رُخ کر چکے ہیں۔ اگر سرمائے اور تجارتی ذہن کا یہ بہائو جاری رہا تو پھر کراچی پاکستان کی معیشت کا پہیہ کیسے چلائے گا؟ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اس صورتحال پر غیر مطمئن ہیں اور وہ جلد یا بدیر کوئی فیصلہ کن اقدام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اگرچہ ایم کیو ایم نے ٹارگٹڈ آپریشن کو ختم کرنے یا اس کی نگرانی موجودہ گورنر عشرت العباد کے سپرد کرنے کے مطالبے کے لئے جو سیاسی دبائو استعمال کیا ہے وہ وقتی طور پر تو کام آگیا ہے لیکن شاید یہ معاملہ زیادہ عرصہ تک نہیں چلے گا اور وفاقی حکومت کو سندھ میں گورنر راج ہی لگانا پڑے گا۔ اس حوالے سے نومبر میں کوئی بڑی تبدیلی متوقع ہو سکتی ہے۔ اسلام آباد میں ان دنوں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے جس میں دیگر اُمور کے علاوہ لاہور میں ایک معصوم بچی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بھی بڑا ذکر ہو رہا ہے اور دارالحکومت کی سول سوسائٹی اس قسم کے واقعات پر خاصی مضطرب نظر آتی ہے اس حوالے سے قومی اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ارکان سمبلی نے فیصلہ کیا ہے کہ بچوں کیساتھ زیادتی اور خواتین کی بے حرمتی کے واقعات کی روک تھام کیلئے موثر قانون سازی کی جائے۔ اس ضمن میں مختلف قانونی ماہرین اور این جی اوز کے مشورے سے ایک پرائیویٹ بل بھی لایا جا رہا ہے جس کے تحت اس قسم کے مقدمات عام عدالتوں کی بجائے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں چلائے جائیں گے اور مجرموں کو عمر قید کی بجائے سزائے موت دی جا سکے گی۔ یہ خواتین اپنی اپنی جماعتوں کی قیادت کو بھی اس بل کی حمایت پر آمادہ کرنے کیلئے بھی سرگرم عمل ہیں۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے سے قبل قومی دولت لوٹنے والوں سے کڑے احتساب کا جو نعرہ لگایا تھا اُس پر تاحال عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آرہا بالخصوص اقتصادی عمل میں بنیادی اہمیت کے حامل چیئرمین نیب کے عہدے پر تقرری نہ ہونا حکومت کی اس معاملے میں عدم دلچسپی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ باخبر حلقوں کے مطابق موجودہ حکومت احتساب کے معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے میں حکومت کی دی جانے والی وارننگ کام کرگئی ہے اور اب حکومت کو چیئرمین نیب مقرر ہی کرنا پڑے گا۔ وزیراعظم نواز شریف اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے مابین ابتدائی گفت و شنید پہلے ہی ہو چکی ہے اور آئندہ چند دنوں میں متفقہ چیئرمین نیب کا اعلان کر دیا جائے گا ۔ اس ضمن میں سابق جج سپریم کورٹ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نام سرفہرست ہے ۔ باور کیا جاتا ہے کہ اُن کی تقرری پر حکومت اور اپوزیشن دونوں متفق ہو چکی ہیں۔ ٭…٭…٭
 

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 274959 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More