عالمِ ارواح سے عالم فناء ،عالم فناء سے عالمِ بقاء اعلانِ
قیامت ،حشربرپا ہونے تک۔۔ حضرتِ انسان کے آنے اور جانے کا سلسلہ جاری و
ساری ہے۔ زندگی اور موت کی کشمکش ۔۔۔۔۔۔۔نگاہِ دہر سے اوجھل آغوشِ مٹی میں
نجانے کتنے گوہرِ نایاب ہمیشہ کی نیند سو رہے ہیں
زمیں کھا گئی آسما ں کیسے کیسے
محترم قارئین کرام! دنیا ہمیشہ اُ س کو یا د رکھتی ہے ۔جو علم و فن ، اپنی
صلاحیتوں کی مر ہونِ منت نمایاں اور مثبت کارناموں کے شاہکار پیش کر تا ہے
۔۔ سر زمینِ میانوالی نے کئی علم و ادب سے بھر پور شخصیات کو جنم دے کر
علمی ،ادبی و قلمی حوالے سے ہمیشہ ذرخیز ہو نے کا ثبوت فراہم کیا ۔۔کلیم
اللہ ملک کی شخصیت میانوالی دنیا ئے صحافت میں نمایاں اور منفر د حیثیت
رکھتی ہے ۔ کلیم اللہ ملک کے انتقال کے بعد اُن کے قلمی جانشین ۔۔موسیٰ
کلیم اعوان نے علم ،ادب و قلم کے دامن کو مضبوطی سے تھا ما۔۔ اپنی خداداد
صلاحیتوں کے مرہونِ منت بھر پور قلمی جوہر دکھائے ،ملک کے مختلف قومی اور
علاقائی اخبارات میں پسماندہ ضلع ، میانوالی کی بھر پور ترجمانی کی ۔ موسیٰ
کلیم اعوان کی تحریریں ۔جذبوں سے بھر پور تقاریر، شعور و آگہی سے لبریز
خوبصورت لب و لہجہ اپنی مثال آپ ۔۔۔ ۔۔ قارئین و سامعین کو گروید ہ کرنے کا
فن کوئی معمولی فن نہیں ہو تا ۔ ۔ مگر یہ فن ۔۔۔ موسیٰ کلیم اعوان کی قلمی
اور ادبی شخصیت میں فراوانی کے ساتھ نظر آیا۔۔میانوالی میں ہو نے والی
کتابوں کی رونمائیاں ،ادبی شخصیات کے ساتھ شامیں ،سماجی محافل سرکاری اور
غیر سرکاری تمام تر تقریبا ت موسیٰ کلیم اعوان کی شرکت کے بغیر ادھوری و
نامکمل محسو س ہو تی ہیں ۔۔۔ موسیٰ کلیم اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں ،مگر
اُ ن کی یا دیں ،باتیں قلمی کردار آج بھی ترو تازہ ہے اور باقی رہے گا ۔
موسیٰ کلیم اعوان سے میرا تعلق بہت پرانا ہے ۔ وہ میری ہر تحر یر ہر کالم
کے قاری تھے ، تعریف کی بجائے بھرپور تنقیدی جائزہ لینے والے قلمکار تھے ۔
الفاظ شناسی تجرباتی گفتگو اُن کی نمایاں خاصیت تھی اُن کے انتقال سے قبل ،علالت
کے دنوں تک۔۔۔۔کوئی دن ایسا نہیں تھا جب اُن کی مجھے کو ئی callیاsmsنہ آیا
ہو ۔۔لیکن اب کالم تحریر کرنے پر مجھے موسیٰ کلیم کی کوئی کال ،کوئی ایس
ایم ایس نہیں آتا ۔۔۔موسیٰ کلیم اعوان قلمکار ہونے کے ساتھ ساتھ نایاب
شخصیت کے بھی مالک تھے
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
موسیٰ کلیم اعوان کا دامن علم و ادب فن و صلاحیت سے لبریز تھا ۔۔اللہ
تعالیٰ موسیٰ کلیم اعوان کے درجات بلند کرے ۔آخر میں ایک خصوصی نظم موسیٰ
کلیم کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتا پتا ،غنچہ غنچہ
بوٹابوٹا، گلشن گلشن
برکھا ، بادل
پربت، پربت
قریہ قریہ ،کو چہ کوچہ
ہر جا ہرجا، ہر سو ہر سو
پیار محبت کی خوشبو ہے
جگنو ،تتلی،کوئل ،بلبل
جتنے بھی ہیں اہلِ گلشن
کتنے خوش خوش ہیںیہ جاناں
لیکن + لیکن +لیکن+ لیکن
لیکن میں ہوں تنہا تنہا
دل کا آگن اُجڑا اُجڑا
جب سے تیرا دامن چھوٹا
فرقت کی آغوش میں آیا
جوگ پہاڑی دیپک سندھڑا
جتنے پیار کے راگ ہیں جاناں
جب کوئی فنکار الاپے
مضطر مضطرہو جاتا ہوں
فعلن +فعلن + فعلن +فعلن
بحر کوئی بھی لے لوں ناصرؔ
شاعر بن کر شعر کہوں جب
غزلیں نظمیں سونی سونی
شعر ادھورے سے لگتے ہیں
آبھی جاؤ جانے والے
آنکھیں ساون برساتی ہیں
دل روتا ہے خون کے آنسو
دھیمے لہجے میں کہتا ہے
ناصر+ ؔ ناصر+ؔ ناصرؔ +ناصر
مس یو+مس یو+مس یو+مس یو |