آہ!! شہید منظور شان صاحب ! اس قدر حسین مزاج تھے کہ اُن
کے جانے سے ایسا لگتا ہے کہ چاروں اور اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا ہے
دِلوں پرماسیوں کا پہرہ ہے ،دھڑکنوں میں ہلچل ہے بار بار اُن کے چہرے کی
مسکان ،اُنکی شریں زبانی کہ منہ سے جھڑتے پھول جس کی وجہ سے وہ ہر اُس
انسان کے دِل میں گھر کر گئے جس کی اُن سے ایک بار ملاقات ہو گئی ایک بار
ملاقات کیاہوئی کہ بار بار اُن سے ملنے کو دل بے تاب رہتا،وہ جو سب کی شان
تھے ، کس قدر طبیعت میں نرمی تھی، باایمان یعنی پورے علاقے میں ایمانداری
کی ایک مثال تھے ،علم کا ایک روشن چراغ جو کہ پورے علاقے کو اپنے علم کے
نور سے منور کر رہاتھا۔ہائے شومئی قسمت مو ت سے آج تک کسی کو دوستی نہ
ہوسکی اور نہ ہونے والی ہے۔لیکن ایک منظم پلان کے تحت یہ گناﺅ ناکام سر
انجام دیا گیاکہ پورے علاقے کو خون میں لت پت کر دیا ۔یہی وجہ ہے کہ اُن کے
جانے سے پورا علاقہ غم میں نڈھال ہے اُن کے دوست و احباب اُن کی راہیں تکتے
ہیں کہ کہیں نہ کہیں سے وہ اُسی انداز میں چل کر آئیں جس انداز سے وہ چلا
کرتے تھے۔لیکن نہیں اب وہ آنے والے نہیں اب تو بس اُن کی یادیں ہمارے ساتھ
ہیں اور اُن کے وہ پیارے بول ہیں جو کہ وہ اپنے آخری وقت میں بول کر اس دارِ
فانی سے رخصت ہوئے ہیں، و ہ بول جو ہمیں بار بارغفلت سے بیدار ہونے کو کہتے
ہیں،وہ بول جو بار بار ہمارے لئے بزدِلی سے بچنے کا پیغام لے کر آتے ہیں،بس
ہمیںخودی کو جگانا ہو گا،ہمیں حوصلوں سے آگے بڑھنا ہو گا،ہمیں سدھرنا
ہوگا،اگر ہم آج بھی نہیں سدھرے تو لمحوں کی اس خطا کا خمیازہ صدیوں تک
بھگتنا پڑے گا۔اس لئے حوصلوں کو بلند رکھناہو گا،حوصلوں میں جان پیدا کرنی
ہوگی،ہمیں زندہ دِلی کا ثبوت دینا ہوگا۔
زندگی زندہ دِلی کا نام ہے
مردہ دِل کیا خاک جیا کرتے ہیں
اُن کے آخر بول تھے جوکہ بہت ہی انمول ہیں ۸۱ جولائی ۳۱۰۲ءکی صبح کو یہ کہہ
کر گئے تھے کہ”افسوس صد افسوس !! جب منظور شان جاگا تھا تو گُول کی پوری
قوم سو ئی رہی اب گُول کی قوم جاگ رہی ہے لیکن اب منظور شان ہی سو رہا ہے۔
گُول سے ہی جلوس کی قیادت کرتے ہوئے داڑم کی طرف جب روانہ ہوئے تو اُن کے
اوپرایک عجیب سی کیفیت طاری تھی اُنکا چہرا اس قدر پیارا تھا کہ بار بار
دیکھنے کو جی چاہتا تھا، مسکراتا ہوا چہرا، لبوں پر ہزار تمناﺅں کا اظہار
تھا لیکن اُسے معلوم تھا کہ وقت کم ہے اس لئے رات بھر جگا رہابزبان والدہ
محترمہ میں نے دیکھا کہ میرے جگر کا ٹکڑا رات کے1بجے نہا دھو کر تیار ی کر
رہا تھا میں نے اپنے لخت ِ جگر سے پوچھا کہ اے میرے لال آپ کہاں جانے کی
تیاری میں ہو تو ایمانی جذبہ کوٹ کوٹ کر میرے لال کی رگوں میں اس قدر پیوست
تھا کہ ایک دم بول اٹھا کہ ماں جی!! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ داڑم کے مقام
پر ہماری مذہبی کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی ہے اس لئے میں جا رہا
ہوںرات بھر لوگوں نے بھی کافی فون کئے اس لئے میں خود جا کر اس بات کی
تحقیق کروں گا۔ والد سے کہا میں داڑم جا رہا ہوں والدنے تو اُن سے کہاکہ
جاﺅ جاﺅ!! مگردیکھ کر جانا!!والد صاحب نے تو اجازت دی لیکن اُسے کیا معلوم
تھا یہ اب کی بارمیرا لخت جگر مجھ سے ہمیشہ کے لئے اجازت طلب کر رہا ہے آخر
کار وہ اس گھر سے ہمیشہ کے لئے جا رہے تھے گھر سے روانہ ہوتے ہی وہ بس
اسٹینڈگول پہنچے جہاں پر بہت سارے لو گ ان کی جرات مندانہ قیادت کے انتظار
میں تھے یہاں سے ہی شان صاحب نے لوگوں کی قیادت کا بیڑا سنبھالا اور داڑم
کی طرف چلے پڑے کافی جوش اور ولولے کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بڑھائی
کو بیان کرنے میں مشغول ہوئے اوربار بار نعرئہ تکبیر کا نعرہ بلند کئے جا
رہا تھے اور ساتھ ان اپنی ملی ہوئی قیادت کا احترام کرتے ہو ئے لوگوں کو
بار بار پُر امن ہونے کی تلقین کر رہا تھا یعنی اپنی زندگی کی آخر سانس تک
وہ لوگوں کو صبر اور پُر امن رہنے کی تلقین کرتا رہا لیکن آخر کار شان صاحب
زندگی کی جنگ ہار بیٹھے موت کا فرشتہ اُن پر حاوی ہو گیا اور اس طرح سے رب
ِ کائنات نے منظور شان صاحب کو وہ مقام عطا کیا جس کے شان صاحب حق دار
تھے۔اس کی زیر قیادت میں موجود ہزاروں لوگوں کا کہنا ہے کہ بار بار علامہ
اقبال ؒ کی شاعری کے چیدہ چنیدہ اسلامی اشعارمنظور شان صاحب بار بار دہراتے
رہے جس میں علامہ اقبال ؒ کا کہاہواایک شعر جو اس کی زبان پر بار بار گردش
کر رہا تھاوہ یہ تھاکہ................
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسہ اپنی ملت کے مقدر پر مجھے
آج شان صاحب اس ڈگر پر جارہے تھے جس کے وہ حق دار تھے ۔ ایمانی جذبہ رکھنے
والوں کا خاتمہ ایسے عظیم موقعوں پر ہوتا ہے جس کی وہ مثال چھوڑ کر گیا۔
ایک اسلامی نمونے کی طرح زندگی بسر کرنے والوں کی ایسی ہی شان ہوتی ہے جو
کہ رہتی دنیا تک قائم و دائم رہی گی ۔ اُن کے جانے کا غم اس لئے نہیں کہ وہ
کیوں اس دنیاسے چلے گئے موت کا تو ایک دن معین ہے موت ایک ایسا ذائقہ ہے جس
کا مزا ہر ایک انسان نے اپنے مقررہ وقت پر چکھنا ہے اُن کے جانے کا غم اس
لئے ہے کہ ’............
بچھڑا وہ اس طرح سے کہ رُت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
لیکن ہمارا سر فخر سے اونچا بھی ہو رہا ہے ۔کہ ہمارا لہو بھی اللہ تبارک و
تعالیٰ کی بار گاہ میں قبول ہوا۔یعنی کہ کچھ ہی دن قبل روز نامہ کشمیر
عظمیٰ میں ایک روز کسی مضمون نگار نے ایک مضمون لکھا تھاجس کا عنوان تھاکہ”
گُول بنا پاک لہو کا پھول دان“ حقیقت یہی ہے جس سے منہ چھپانے کی کوئی
ضرورت نہیں۔شہیدوں کا یہ خون رنگ لائے گا۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں
گُول میں یہاں کی سیاسی قیادت سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے اس خون کا سودا
کرنے کی کشمکش میں ہیں ۔یہ سیاسی لُٹیرے ہیں جو اپنی تجوریاں بھرنے کی خاطر
شہیدوں کے خون کا سودا کرنے میں لگاتار اپنی سیاسی دکان چمکانے میں جُٹے
ہیں ۔ذات پات ، فرقہ پرستی ،عوام کو آپسی تصادم میں اُلجھانا،اشتعال انگیز
بیان بازی کر کے نفرت کا بازار گرم کرنا یہی سب تو آج کے نیتاﺅں کا کام ہے
جو رہبری کا دم بھرتے تھکتے نہیں ۔ نرم و گداز کرسیوں پر محو ِ آرام کافی
کی چسکیاں لیتے ہوئے نفرتوں کا بازار گرم کرنا اور اصلی مقصد کو فوت کر نا
آج کی ظالمانہ سیاست کا نصب العین ہے۔عوام میں آپسی بھائی چارے کو بڑھتے
دیکھ کر آج کے سیاست دانوں کا بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے اور اس قدر ذہنی
شکار ہو جاتے ہیں کہ صحیح اور غلط کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں ۔ کیونکہ محبت ،
اخوت اور بھائی چارے جیسی نعمت سے یہ سیاست دان محروم ہو ئے ہوتے ہیں ،
محبت جیسے نعمت کا نام سنتے ہی آج کے سیاست دانوں کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے
ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ............
کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا
ہم اگر محبت نہ کرتے توحکومت کرتے |