مرسی حکومت کوبالجبرمعزول کئے ہوئے دوماہ
سے زائدکاعرصہ ہوچکاہے مگرتمام حکومتی فاشسٹ ہتھکنڈوں کے باوجوداخوان
المسلمون کانہ تواحتجاج کاجذبہ ٹھنڈاہواہے اورنہ ہی مغربی ایجنڈے کے مطابق
اخوانیوں نے ہتھیاراٹھانے کی راہ اپنائی ہے۔مغربی سازشوں اوراورعرب ریاستوں
میں تبدیلی کی لہرسے آشنامبصرین کاروزِاوّل سے ہی خیال تھاکہ امریکی
اوردیگرقوتیں اس انتظارمیں ہیں کہ اخوان مظاہرین پرتشددہوں اوراوران کے
خلاف مصری فرعونیت کوجائزقراردے سکیں۔یہی سبب ہے کہ مرسی کی جائز جمہوری
اورمنتخب حکومت کے خاتمے پرامریکاسمیت جمہوریت کے تمام ’’ورثا‘‘چپ رہے
اوراس چپ کی آڑمیں جمہوریت کے قاتل جنرل سیسی کے غاصبانہ اقدام کی ہرممکن
مددکرتے رہے یہاں تک کے مغربی تھنک ٹینکس نے اپنے اپنے مشورے بھی دیئے
اوراسرائیلی ماہرین کوفلسطینیوں سے نمٹنے کے اپنے تجربات کی روشنی میں مصری
فوج کومشاورت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔
حالات پرنظررکھنے والے اس امرسے بخوبی آگاہ ہیں کہ مصری فوج روزِ اوّل سے
ہی اخوان کومشتعل کرنے کی کوشش میں تھی اوراس کوشش میں ناکامی نے ہی اسے
انتہائی اقدام پر مجبورکیااورجنرل سیسی نے اپنی فوجی قوت کواستعمال کرتے
ہوئے پہلے ہی ہلے میں تین ہزارسے زائداخوانیوں کوشہیدکردیا۔دنیابھرکے
میڈیاکومانیٹرکیاجائے تویہ امراچھی طرح سے سامنے آجاتاہے کہ امریکاسمیت
پوری دنیامیں سے ترکی اورپاکستان کے سواکسی کواس قتل عام کی مذمت کرنے کی
توفیق نہیں ہوئی بلکہ ہرطرف موت جیسی خاموشی تھی۔اس خاموشی کے پیچھے یہ
توقع جھلک رہی تھی کہ اخوان اب ہتھیاراٹھائیں ،اب اٹھائیں مگران کی امیدیں
اس وقت خاک میں مل گئیں جب اخوان کی اعلیٰ قیادت نے اپنی روایتی امن پسندی
کوچھوڑنے سے انکارکردیااورمظاہروں سے دستبرداری بھی اختیارنہیں کی۔
توقع کی جارہی تھی کہ اس کے بعدروزبروزکی جھڑپیں انہیں میدان چھوڑنے
یاتشددپراترنے پرمجبورکردیں گی مگرایسانہیں ہوا،جس پردنیابھرمیں عوامی سطح
پراخوان کیلئے حمائت اور اس کے مخالفین کے خلاف نفرت کاایک طوفان اٹھ
کھڑاہوااورمغربی میڈیاکی اخوان سے روایتی عداوت کے باوجودلوگوں کوسچ سے
آشائی ہوئی۔اس سچ نے مصری فوج کی حمائت پر تلے ہوئے خادمِ حرمین کوبھی
مجبورکیاکہ انہوں نے اشک شوئی کیلئے تین فیلڈہسپتال بھجوانے کاحکم جاری
کردیا جب کہ دوسری جانب اس سارے ڈرامے کی اصل ہدائت کار امریکی حکومت بھی
مجبورہوگئی اوراس نے مصری فوج کی امدادروکنے کاحکم جاری کردیااورسینیٹ
کمیٹی نے کہاکہ امریکامصرکے حالات کی روزانہ کی بنیادپرمانیٹرنگ کرے
گااوراس کی بنیادپراس امدادکوروکنے یاجاری رکھنے کافیصلہ کیاجائے گا۔
شہداکے لہولہواوراخوان کارکنوں کے صبرنے یورپی یونین کے ضمیرکوبھی
جھنجوڑڈالاہے اوراب ۲۸یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کااجلاس ہورہاہے جس میں
مصرکی امدادبندکرنے اور تعلقات منقطع کرنے کافیصلہ کیاجائے گا۔جبرسے مقابلے
میں صبرکادباؤ ہے کہ برطانیہ میں مصری سفیرکوملک بدرکرنے کامطالبہ شروع
ہوچکاہے کیونکہ مصری سفیر نے چند روز پہلے اپنے سفارتخانے میں کہاکہ
مظاہرین نے پہلے پولیس پرگولی چلائی جس پرمصری فوج کوجوابی کاروائی کرنی
پڑی۔مصری فوج نے وہی کیاجوبرطانوی حکومت نے گزشتہ برس لندن میں مظاہرین کے
خلاف کیاتھا،فرق صرف اتناہے کہ ہمیں گولی چلانی پڑی۔مصری سفیرکے ان الفاظ
نے ان کے خلاف لندن میں نفرت کاگراف بڑھادیاہے اورارکان پارلیمنٹ کی جانب
سے مصری سفیر کی بے دخلی کامطالبہ سامنے آگیاہے تاہم لندن میں مصری
سفیراشدالخولی کے اس بیان سے مصری عزائم ضروربے نقاب ہوگئے ہیں جس میں اس
نے کہاکہ’’اخوان کونازیوں کی طرح مٹادیاجائے گا،مصری تہذیب اسلام کے مقابلے
میں پانچ ہزارسال پرانی ہے اوراخوان اصرارکرتے ہیں کہ اسلام کوغالب کیاجائے
اس لئے انہیں مٹادیااجائے گا ‘‘۔
اس سے یہ سمجھنامشکل نہیں رہتاکہ اصل مسئلہ کیاہے مگرسوال یہ ہے کہ مصری
فوج اسلام کے خلاف ۵ہزارسال پرانی فرعونی تاریخ کے دفاع پرفخرکررہی ہے
مگرخادمین حرمین شریفین کی حکومت ان کی پشت پناہی کیوں کررہی ہے؟کیونکہ اس
وقت دنیابھرمیں سعودی حکومت ہی وہ واحدحکومت ہے جومصری فوج کی پشت پناہی
کررہی ہے یاپھراسرائیل ہے۔ سعودی حکومت کے وزیرخارجہ شاہ فیصل کے ناخلف
پسرسعودالفیصل نے چندروزقبل فرانس کادورہ کیااورفرانس کے صدرکوشاہ عبداﷲ
کاپیغام دیا۔واپسی پرریاض میں میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم
نے مغربی دنیاکوبتادیاہے کہ اخوان شدت پسندلوگ ہیں،ان کے خلاف مصری فوج نے
اقدام کرکے اچھاکیا،اگرمغرب نے مصرکی امدادروکی توتمام عرب ممالک مصری فوج
کی بھرپورمددکریں گے‘‘۔
ایک ایسے وقت میں جب جب قتل عام پرمغرب بھی اپنی پسندیدہ فوجی حکومت کی
مددسے پیچھے ہٹ رہاہے ،سعودی حکومت کااس کی پشت پناہی پراصراایک سوالیہ
نشان ہے۔توقع کی جارہی ہے کہ یورپی یونین تجارتی پابندیاں عائد کردے گی جب
کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی مصری حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ
انسانی حقوق کے مانیٹرمصرمیں تعینات کرنے کیااجازت دے ۔اس سے قبل وہ ۳۷قیدیوں
کے قتل کی تحقیقات کابھی مطالبہ کرچکے ہیں جس کے حوالے سے مصری حکومت
کامؤقف یہ ہے کہ ان قیدیوں جن کا تعلق اخوان سے تھا،انہیں جیل منتقل
کیاجارہاتھاکہ انہوں نے ایک جیل افسرکویرغمال بنالیاجس پران کے خلاف مسلح
کاروائی کرنی پڑی جبکہ آزادذرائع اس کی تصدیق نہیں کرتے کیونکہ لاشوں
پرتشددکے نشان ہیں اورچہرے مسخ کئے ہوئے ہیں۔مبصرین کے نزدیک یہ اقدام مصری
حکومت کی بوکھلاہٹ کوظاہرکرتاہے اورپھراسی روزاسرائیلی سرحدپرواقع صحرائی
علاقے لبنان میں ۲۵پولیس افسروں کونامعلوم نقاب پوشوں نے قتل کردیا۔حکومت
نے پہلے مؤقف اختیارکیاکہ پولیس کی دوبسوں پرراکٹوں سے حملہ کیاگیا ،بعدمیں
کہاگیا کہ نقاب پوشوں نے پولیس کی دوبسوں سے لوگوں کواتارکرلیٹنے کاحکم
دیااورگولیاں چلاڈالیں۔کہاجاتاہے کہ علاقے میں کوئی بھی عینی شاہددستیاب
نہیں ہے مگراس کے باوجودحکومت نے دعویٰ کیاہے کہ قاتل القاعدہ کے وہ
عناصرہیں جن کاتعلق اخوان سے رہاہے ۔اس حوالے سے ماہرین کادعویٰ ہے کہ
اخوانیوں کودہشتگردثابت کرنے کی خاطر یہ مصری یااسرائیلی انٹیلی جنس کی
کاروائی ہوسکتی ہے کیونکہ اخوان کے حامیوں نے اگرایسی کوئی کاروائی کی ہوتی
توقاہرہ یاکسی مرکزی شہرمیں کرتے اوراس کااعتراف بھی کرتے۔
فوجی حکومت کی بوکھلاہٹ کااس سے بھی ثبوت ملتاہے کہ اخوان کے مرشدعام یعنی
سربراہ ڈاکٹرمحمدبدیع کوگرفتارکرلیاگیاہے جب کہ اخوان نے فوری طورپر
ڈاکٹرمحمودعزت کونیامرشدعام مقرر کردیاگیاہے جواس سے قبل سیکرٹری جنرل
تھے۔۷۰سالہ مرشدعام کونصف شب کے قریب قاہرہ کے جنوب میں واقع ایک فلیٹ سے
گرفتارکیا گیا تھا۔حکومتی اعلان کے مطابق ان کے خلاف دسمبر۲۰۱۲ء میں صدارتی
محل کے باہرمظاہرین کی ہلاکتوں کے الزام میں مقدمہ چلایاجائے گااوراس کی
سماعت ۲۵ اگست سے شروع ہوچکی ہے جب کہ دوسری جانب مرسی کی حراستی مدت میں
مزیدایک مہینہ کی توسیع کردی گئی ہے ۔دلچسپ امریہ ہے کہ قتل عام میں تین سے
چارہزارمسلمانوں کوگولیوں سے بھون کر اور ہزاروں کوزخمی کرنے کے باوجودمصری
جنرل سیسی نے کہاہے کہ مظاہرین کے خلاف انتہائی طاقت استعمال کرسکتے
ہیں۔لوگ حیران ہیں کہ ٹینک،ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کے بعد اب وہ کیاستعمال
کرناچاہتے ہیں؟
دریں اثناء مصری حکومت کے حامیوں میں بھی پھوٹ پڑگئی ہے۔محمدالبرادعی کے
اقتدارسے الگ ہونے کے بعدمزیدلوگوں کی علیحدگی روکنے کی خاطر صدرنے
البرادعی کے خلاف بھی مقدمہ چلانے کاحکم دے دیاہے جب کہ دوسری جانب فوج
اورپولیس میں بھی وسیع پیمانے پرگرفتاریاں جاری ہیں کیونکہ ان دونوں فورسز
نے لوگوں کے قتل عام پراحتجاج کیاتھا اوربعض نے توساتھ دینے سے بھی
انکارکردیاتھا۔مصری حکومت ان گرفتاریوں کودوسروں کیلئے نشانِ عبرت
بناناچاہتی ہے اورامریکی دوستوں کے مشوروں پرعمل کواشتعال دلانے اوراخوان
کوتشددپرابھارنے کی خاطرسابق آمراورڈکٹیٹر حسنی مبارک کورہاکرکے ان کے سابق
محل میں واپس لایاجارہاہے۔منگل کے روزاستغاثہ (حکومت) کی جانب سے الزامات
واپس لینے کے بعدعدالت نے ان کی رہائی کاحکم دے دیاہے مگرمبصرین اس پرمتفق
ہیں کہ حسنی مبارک کی رہائی قابض فورسزمیں انتشارکاسبب توبن سکتی ہیں
مگراخوان کی صفوں میں کوئی ارتعاش پیدانہیں کرسکے گی اوروہ وقت جلدآنے
والاہے جب اس خطے میں عرب بہار کے نام پرکھلبلی مچانے والی صہیونی
اوراستعماری قوتوں اوران کے ایجنٹوں کو بھی ماضی کے فراعین کی طرح اس طرح
عبرت کانشان بنادیاجائے گاکہ صدیوں تاریخ ان کی گواہی دے گی۔ |