ملا برادر کی رہائی سے پاکستانی اور افغان حکام پرامید

پاکستانی حکومت نے افغان طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کو رہا کردیا ہے ۔پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان اعزاز چودھری کے مطابق ملا عمر کے نائب ملا عبدالغنی برادر کوہفتے کی صبح رہا کیا گیا ہے اور طالبان رہنما ملا برادر کو افغان مصالحتی عمل میں آسانی پیدا کرنے کے لیے رہا کیا گیا ہے۔ جمعہ کو پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری ایک مختصربیان میںاعلان کیا تھا کہ ملا برادر کو ہفتے کے روز اس لیے رہا کر دیا جائے گا کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں مدد کی جاسکے۔اطلاعات کے مطابق ملابرادر کی رہائی سے قبل آرمی چیف، آئی ایس آئی سربراہ اور وزیراعظم کی آپس میں ایک گھنٹہ مشاورت کے بعد ملابرادر کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا۔

افغان صدر حامد کرزئی نے ملابرادر کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملا برادر کی رہائی اہم پیشرفت ہے۔ ملا برادر افغان حکومت کے خلاف کام کرتے رہے، لیکن پھر بھی ہم نے امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ان کی رہائی کی درخواست دی۔ پاکستان سے ملا برادر کی رہائی کی درخواست اس لیے کی تھی کہ وہ افغان شہری ہیں اور طالبان کے اہم رہنما ہیں۔ افغان حکام نے ملا برادر کو امن کا سفیر قرار دیا ہے۔افغان وزارت خارجہ کے ترجمان موسیٰ زئی نے کہا ہے کہ اگر ملا برادر پاکستان ہی میں رہتے ہیں تو بھی افغان حکام کو ان تک رسائی لازماً حاصل ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی ایسا محفوظ اور طے شدہ پتہ بھی ہونا چاہیے جو افغان حکام کے علم میں ہو جبکہ افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل نے ملا برادر کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہرکی ہے کہ یہ رہائی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور قیام امن کے عمل میں اہم کردار ادا کرے گی۔افغان امن کونسل کے ایک رکن محمد اسماعیل قاسم یار نے ملا برادر کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو قوی امید ہے کہ ملا برادر کی رہائی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور قیام امن کے عمل میں اہم کردار ادا کرے گی جبکہ طالبان دور حکومت میں افغانستان کے وزیر خارجہ رہنے والے وکیل احمد متوکل نے بھی ملا برادر کی رہائی کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کو ملا برادر کے رہا کیے جانے کے بعد ان کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔پاکستانی حکام کو ملا برادر کو یہ اجازت دینا ہو گی کہ وہ طالبان رہنماشں کے ساتھ رابطہ کر سکیں اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں معاون ثابت ہو سکیں۔افغان صدر حامد کرزئی نے بھی ملا عبدالغنی برادری کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملا برادر کی رہائی افغان حکومت کی جانب سے مسلسل درخواست پر عمل میں آئی ہے، امید ہے کہ اس سے افغان امن عمل میں مدد ملے گی۔افغان صدر کے ترجمان ایمل فیضی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ملا برادر کی رہائی سے متعلق پاکستانی حکومت کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امید ہے کہ اس سے افغان امن عمل میں مدد ملے گی۔دوسری جانب جے یوآئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے ملا برادر کو رہا کرنے کے اقدام کوخوش آئندقرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے افغانستان میں مصالحت کے لیے راہ ہموار ہوگی۔ اگر دوسرے طالبان بھی بات چیت کے عمل کاحصہ بنناچاہتے ہیں توانھیں بھی رہاکردیناچاہیے تاکہ مصالحت کی کوششوںکوآگے بڑھایا جاسکے۔ طالبان رہنماؤں کی رہائی سے افغان طالبان کی ان کوششوں کو تقویت ملے گی جن کا ہدف بات چیت کوآگے بڑھانا ہے۔ انھوں نے کہاکہ ملا برادر طالبان کے اہم رہنما رہے ہیں اورپاکستان کوافغان مصالحت کے لیے نہ صرف زیرالتوا دوحا مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوششیں تیزکرنی چاہئیں بلکہ افغانستان کی داخلی مصالحتی بات چیت میں بھی تعاون فراہم کرنا چاہیے۔ جبکہ افغان ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام اور بعض افغان سیکورٹی ماہرین نے پاکستان کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مناسب شرائط اور میکنزم کے بغیر قیدیوں کی رہائی کے باعث وہ آسانی سے دوبارہ جنگ کا حصہ بن سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ افغان حکومت کافی عرصے سے پاکستان سے مطالبہ کر رہی تھی کہ ماضی میں طالبان کے نائب سربراہ رہ چکنے والے ملا برادر کو رہا کیا جائے۔ سینیئر مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ ملا برادر کو رہا کیا جائے گا۔ پاکستان اس سے پہلے تینتیس طالبان قیدیوں کو رہا کرچکا ہے۔ لیکن افغان حکومت اور افغان امن کونسل کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ رہا کیے گئے طالبان میں کوئی بھی بڑا رہنما نہیں ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور نے ملا برادر کی رہائی کا اعلان ایسے وقت کیا تھا جب پاکستان میں کل جماعتی کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ رواں سال کے شروع میں پاکستان نے کہا تھا کہ افغانستان اور طالبان کے مفاہمتی عمل میں مددگار ثابت ہونے والے طالبان کی رہائی کا عمل جاری رہا تو تمام افغان طالبان رہا ہو جائیں گے۔ رواں ماہ وزیر اعظم پاکستان نے بھی کہا تھا کہ پاکستان نے افغان طالبان رہنما ملا عمر کے نائب ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔

فروری دو ہزار دس میں پاکستان کی فوج نے ملا برادر کی گرفتاری کی تصدیق کی تھی ۔ ملا برادر کو پاکستانی حکام نے مبینہ طور پر امریکی سی آئی اے کے ایجنٹوں کے ساتھ مل کر کی گئی ایک کارروائی کے نتیجے میں 2010ءمیں کراچی سے گرفتار کیا تھا۔ افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ملا عمر اور ملا برادر ایک ہی مدرسے میں درس دیتے تھے اور انیس سو چورانوے میں قائم ہونے والی تنظیم طالبان کے بانی قائدین میں سے تھے۔ ملا برادر طالبان دور میں ہرات صوبے کے گورنر اور طالبان کی فوج کے سربراہ رہے ہیں۔ ملا عبد الغنی برادر افغانستان میں طالبان کارروائیوں کی نگرانی کے علاوہ تنظیم کے رہنماو ¿ں کی کونسل اور تنظیم کے مالی امور چلاتے تھے۔ ان کا تعلق بنیادی طورپر افغانستان کے جنوبی ضلع اورزگان سے بتایا جاتا ہے لیکن وہ کئی سال طالبان کے مرکز کے طور پر مشہور افغان صوبہ قندھار میں مقیم تھے۔ افغانستان پر کام کرنے والے اکثر صحافیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملا محمد عمر نے جب افغانستان میں طالبان تحریک کا آغاز کیا تو ملا برادر ان چند افراد میں شامل تھے جنھوں نے بندوق اٹھا کر طالبان سربراہ کا ہر لحاظ سے ساتھ دیا اور تحریک کی کامیابی تک وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ تاہم جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے پاس کوئی خاص عہدہ نہیں تھا۔ بعد میں انھیں ہرات کا گورنر بنا دیا گیا۔ ملا برادر طالبان تحریک میں اہم فوجی کمانڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ طالبان کے آرمی چیف بھی رہ چکے ہیں۔ طالبان نے 1998 میں جب افغان صوبے بامیان پر قبضہ کیا تو اس حملے کے وقت ملا برادر طالبان کے کمانڈر تھے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے طالبان کمانڈروں کے لیے ایک کتابچے کی صورت میں ضابطہ اخلاق بھی تحریر کیا تھا جس میں جنگی گر، قیدیوں اور غیر ملکیوں سے سلوک اور دیگر طریقے بتائے گئے تھے۔اس ساری پیش رفت کے باوجود کچھ اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کا کہنا ہے کہ یہ ساری کوششیں بے سود ثابت ہوں گی کیونکہ ایک طویل قید کی وجہ سے ان کی طالبان میں وہ حیثیت نہیں رہی جو پہلے تھی، ان کی حیثیت ایک عام آدمی کی سی ہو گی جس کا طالبان کے نیٹ ورک میں کوئی اثر و رسوخ نہیں ہو گا۔افغان حکام طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہ رہے ہیں مگر طالبان کرزئی حکومت کو امریکیوں کی کٹھ پتلی حکومت قرار دے کر امریکا ہی سے مذاکرات چاہتے ہیں۔

افغان اور پاکستانی حکام نے اس قدم سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ طالبان کی شوریٰ تک رسائی والے کسی شخص کے ذریعے مذاکرات کا پیغام بھیجیں گے تو شاید افغان طالبان ہتھیار ڈال کر مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں۔کرزئی حکومت ملا برادر کی رہائی کے لیے کافی کوششوں میں تھی کہ انہیں رہا کیا جائے تاکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے۔ ملا برادر کو معتدل مزاج تصور کیا جاتا ہے، افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے انہوں نے ایک مرتبہ حامد کرزئی کے بھائی سے بھی رابطہ کیا تھا، افغانستان میں موجود بہت سارے کمانڈروں کے ساتھ ان کے رابطے ہیں۔ اس وقت تمام بڑے کمانڈر ماضی میں ان کی زیر نگرانی روسی فوج کے خلاف جہاد کر چکے ہیں اس لیے امید ہے کہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے میں وہ تاریخی کردار ادا کریں گے لیکن پاکستانی حکام اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملا برادر کو ثالث کے کردار پر تیار کرکے مذاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے ۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.