بہت عرصہ ہوا ایک کہانی پڑھی تھی۔
ایران میں مذہبی انقلاب کے بعد پورا معاشرہ تہذیبی نرگسیت کے نشے میں چور
ہے۔ ایک گھر میں دعوت ہے کہ اچانک ایک خاتون کو دل کا دورہ پڑتا ہے۔
مہمانوں میں ایک ڈاکٹر بھی ہے جو فوری طبی امداد کے لیے آگے بڑھتا ہے۔
لیکن اس سے پہلے کہ وہ قریب المرگ خاتون کو چھو سکے گھر کے مردوں میں بحث
چھڑ جاتی ہے کہ وہ ڈاکٹر نامحرم ہے اور کیا اسے خاتون کو چھونے دیا جائے یا
نہیں۔
باقی کی ساری کہانی اس بحث سے متعلق ہے جس کہ دوران کسی وقت وہ خاتون دم
توڑ دیتی ہیں۔ لیکن ان کی موت کا کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا اور بحث جاری
رہتی ہے۔
کیا آج کے پاکستان کا بھی ایسا ہی حال نہیں؟
مذہبی جنونی ایک عرصے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہماری اقلیتی
برادریوں پر حملہ آور ہیں۔ ان کے جنون، بیدردی اور دیدہ دلیری میں دن بدن
اضافہ ہو رہا ہے۔
اور ہم ہیں کہ اس بحث میں پڑے ہیں کہ ان میں سے اچھے کون ہیں اور برے کون۔
نہ صرف یہ بلکہ ہم انھیں خوش کرنے کے لیے کبھی تو بچوں کو سکولوں میں جہاد
پڑھانا شروع کر دیتے ہیں اور کبھی نصاب میں سے علم خارج کرنے میں لگ جاتے
ہیں۔
اس دوران ہم ان جنونیوں کی بربریت پر بالکل خاموش رہتے ہیں۔ اگر ان کی
کارروائیوں کی مذمت بھی کرتے ہیں تو ان کا نام لیے بغیر۔
ہمارے اہل اقتدار کی یہ خاموشی ہی اصل طالبانیت ہے۔ جنونی تو صرف بےگناہ
لوگوں کو مارتے ہیں۔ لیکن یہ خاموشی اور اس میں گونجتا ہمارا ذہنی انتشار
پاکستانی معاشرے کی روح کا دشمن ہے۔
کل کے تاریخ دان پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار طالبان کو نہیں بلکہ ہماری
قیادت کے دل و دماغ پر چڑھی اس پٹی کو ٹھہرائیں گے جس نے ان کے ساتھ ساتھ
پورے معاشرے کو صُمٌّ بُكْمٌ کر دیا۔ |