مولانا محمد مسلم مشہور صحافی اور مفکر ملت کے یوم پیدائش پر خصوصی پیشکش

مولانا محمد مسلم مشہور صحافی اور مفکر ملت کے یوم پیدائش پر خصوصی پیشکش
مسلم صاحب کا خاندان
20 ستمبر 1920سے 3 جولائی 1986
حکیم سید ظل الرحمن٭
گزشتہ نصف صدی میں ہندوستان میں جن شخصیتوں نے اپنے قومی و ملی کارہائے نمایاں کی بدولت تعارف وامتیاز حاصل کیا اور جن پر مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کا، ان کے اخلاص و بے لوث جذبۂ خدمت کی وجہ سے اعتماد رہا، ان میں مسلم صاحب کی شخصیت بہت ممتاز ہے۔مسلم صاحب کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ نام و نمود اور عزت و شہرت سے انہو ں نے ہمیشہ اپنا دامن بچا کر رکھا۔ بہت اہم کاموں کے پیچھے ان کے ذہن اور منصوبے کو دخل ہوتا تھا، لیکن وہ دوسروں کو ذرا بھی اپنی اہمیت کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔بہت سے متعلقہ افراد تک اس سے بے خبر رہتے تھے ۔ انہوں نے بہت خاموشی سے بہت بڑے کام انجام دئے ہیں۔آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا قیام ایک طرح ان کی دماغی اور عملی کاوش کا نتیجہ تھا۔وہ اس کے بانی مبانیوں میں تھے۔ لوگوں کو جوڑنے اور قریب کرنے کی ان میں عجیب صلاحیت تھی۔ مختلف الخیال افرادا ور مختلف جماعتوں کے ذمہ دار اراکین سے کچھ اس طرح کا ربط تھا کہ وہ ان پر ایک سچے بہی خواہ کی طرح بھروسہ کرتے تھے اوران کی بے لوث شخصیت اور درد مندی کے معترف تھے۔ ڈاکٹر فریدی، بیرسٹر نور الدین، شیخ محمد عبد اﷲ ،مفتی عتیق الرحمن عثمانی، دہلی کے سرکردہ اصحاب، مسلم تنظیموں، مسلم سفارتکاروں اور صاف ذہن کے غیر مسلموں کو جماعت اسلامی سے قریب لانے میں اور جماعت سے متعلق بد گمانیوں کو دور کرنے میں مسلم صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ان کا ایک بڑا امتیاز جماعتی سطح سے اوپر اٹھ کر ملت کے وسیع تر مفاد میں ان کی سوچ سے تھا۔ان کا دست تعاون افراد ہی کی طرح ہر اس جماعت کے لئے دراز تھا، جسے وہ ملت کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم عمل سمجھتے تھے۔

محمد مسلم صاحب نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز روز نامہ ندیم، بھوپال سے کیا تھا۔ عرصہ تک اس کے ادارتی فرائض انجام دینے کے بعد وہ بھوپال سے دہلی منتقل ہوئے ۔اور ۳۰ برس روز نامہ ،سہ روزہ اور ہفت روزہ دعوت، دہلی کے مدیر اعلیٰ رہے۔ وہ بورڈ آف اسلامک پبلیکیشنز، دہلی کے سکریٹری تھے، جس کے تحت انگریزی ہفت روزہ ریڈینس شائع ہوتا ہے۔ وہ جماعت اسلامی ہند کے ایک اعلیٰ قائد اور اس کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے نہایت سر گرم بانی رکن تھے۔ دوسر ے مختلف اداروں سے بھی وابستہ رہے۔ ابتداء میں بھوپال میں خاکسار تحریک سے تعلق تھا ۔ کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔۳ جولائی ۱۹۸۶ء کو ۶۵ برس کی عمر میں انتقال ہوا۔

مسلم صاحب کی صحافتی زندگی، ان کی فکری بصیرت، دینی حمیت، جذبۂ سر فروشی اور شریفانہ اوصاف، تواضع ،انکسار، فروتنی اور دوسری خصوصیات پر مختلف حضرات نے بڑے تعلق سے اظہار خیال کیا ہے۔اور بہت سے واقعات ہیں ، جو ان کی کتاب زندگی میں روشن عنوان کی حیثیت رکھتے ہیں۔میں یہاں جیسا کہ مجھ سے فرمائش کی گئی ہے، صرف ان کے خاندان کے تعلق سے کچھ تفصیل پیش کرنا چاہوں گا۔

مسلم صاحب کا تعلق صحیح النسب صدیقی خاندان سے تھا۔ان کے بزرگ سیکڑوں برس سے ریواڑی میں آباد تھے۔وہاں وہ شاہان مغلیہ کے عہد سے افتا کے عہدے پر فائز رہے۔۱۹۴۷ء کے فسادات میں ریواڑی کے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ان کا پورا خاندان پاکستان منتقل ہوا۔

دہلی کے جنوب میں میوات کا علاقہ جو ہریانہ کے ضلع گڑگاؤں، راجستھان کے ضلع الورا ور بھرت پور اور یو پی میں متھرا کے کچھ حصہ پر مشتمل ہے، اس علاقہ میں ریواڑی، جھجھر، پلول، پننگواں، ساکرس، تجارہ ، اوجینہ، جھاڑسہ یہ سب ایک پٹی پر ملیں گے۔ دو تانہ اور کاسنہ بھی اطراف دہلی میں ہیں۔ اس پوری پٹی میں شرفاء کے جو خاندان قدیم زمانہ سے آباد تھے اور جو قضاء افتااور احتساب کے علاوہ میر عدل اور نرخ نویس جیسے عہدوں سے تعلق رکھتے تھے، ان میں باہم رشتہ داریوں کا سلسلہ قائم تھا۔یہ مختلف خاندان جن کا تعلق علوی ، عثمانی، صدیقی اور سادات سے تھا، کچھ اس طرح مربوط تھے کہ باہر کے لوگ انہیں ایک ہی خاندان سمجھتے تھے۔

دہلی کے قریب اس سخت اور شور سر زمین میں ان خاندانوں کی آبادی کوئی اتفاقی چیز نہیں تھی،اس کی پشت پر ایک خاص مقصد کارفرما تھا۔ سندھ، ملتان، لاہور، دہلی اور دوسرے مرکزی شہروں کو چھوڑ کر ان غیر معروف اور چھوٹی بستیوں کا انتخاب صاف کسی بڑے محرک کی نشاندہی کرتا نظر آتا ہے۔اگر کسی مورخ نے کبھی اس علاقہ کی تاریخ مرتب کی تو سیاسی، مذہبی، تہذیبی اور ادبی ہر لحاظ سے ان خاندانوں کی خدمات کا صحیح تعارف سامنے آئے گا۔ایک اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جن حضرات نے میوات کو محور بنایا ، انھیں کیسے شدید حالات سے دوچار ہونا پڑا ہوگا۔ ایسے لوگوں سے جنہیں حالات نے سرکش بننے پر مجبور کردیا تھا، عہدہ بر آ ہونا کتنا مشکل تھا۔قاضی سید محمد اشرف کا سانحۂ شہادت اس کی ایک مثال پیش کرتا ہے ۔قاضی محمد اشرف ایمانی جلالت شان سے متصف جید عالم اور فقیہہ تھے۔ دعوت وارشاد کا سلسلہ رہتا تھا۔رسوم شرک اور بدعت کے خلاف زندگی بھر تبلیغ کرتے رہے۔ شرعی احکام پر خود شدت سے عامل تھے۔ اور دوسروں پر بھی کڑی مذہبی نظر رکھتے تھے۔ اس معاملہ میں ان کی داروگیر بہت بڑھی ہوئی تھی۔ فرائض کی کوتاہی اور مذہبی لغزش پر سخت سزائیں دیتے اور بالکل درگذر سے کام نہ لیتے تھے۔
مسلم عہد حکومت میں ان علاقوں کا تعلق پایہ تخت سے ہونے کی وجہ سے یہاں امن وامان کا دور دورہ تھا۔ لیکن ۱۷۸۵ء میں بادشاہ کی طرف سے مرہٹوں کے وکیل مطلق بنائے جانے اور سکھوں اور جاٹوں کی لڑائی سے یہاں کا امن غارت ہوگیا۔۱۸۰۳ء میں دہلی پرایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضہ کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی اور یہ پورا علاقہ بدامنی اور لاقانونیت کی لپیٹ میں آگیا۔ ایک طرف قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا، دوسری طرف جاٹوں نے سراٹھایا اور میوؤں کو تبدیلیٔ مذہب کی طرف مجبور کرنا شروع کیا۔ مولا جاٹ (نومسلم جاٹ) ان کا خاص نشانہ تھے۔ رسوم ورواج ، تہوار وعقائد اور تہذیبی وتمدنی لحاظ سے یوں بھی یہ ان سے بہت قریب تھے، کم وبیش یہی حال میوؤں کاتھا۔تمام غیر شرعی امور ان میں رائج تھے اور مذہب سے ان کا رشتہ بہت کمزور درجہ میں قائم تھا۔

قاضی محمد اشرف جو مذہبی معاملات میں بہت سخت گیر واقع ہوئے تھے،فرائض کی ادائیگی اورایک وقت کی نماز نہ ادا کرنے پر سزا کے احکامات جاری کرتے تھے۔ کبھی موڑھے کے نیچے بند کرکے اوپر وزن رکھوا دیتے تھے اور کبھی گھنٹوں دھوپ میں کھڑا رکھتے تھے۔ میوؤں نے جن میں اس وقت مذہبی شعور کا فقدان تھا، ا ن پابندیوں سے تنگ آکر علاقہ کی لاقانونیت اور بدامنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو اور ان کے خاندان کے سارے مردوں کو شہید کردیا۔ یہ ۱۸۱۵ء کے آس پاس کا زمانہ تھا ۔

ان حضرات کی بصیرت و ایثار دونوں کی داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے دہلی پر اثر انداز ہونے والے اس علاقہ کو منتخب کرکے ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

میں نے اپنے جد گرامی حکیم سید کرم حسین کی سوانح ’’حیات کرم حسین‘‘ میں ہندوستان میں خاندان کی آٹھ سو سالہ تاریخ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور دہلی سے قریب اس علاقہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔
دارالخلافہ ہونے کی وجہ سے دہلی ہمیشہ مرکز کشش رہا ، دور دور سے آکر یہاں لوگ آباد ہوئے۔ علماء و مشائخ کے لئے بھی اس میں بڑی جاذبیت تھی۔ بعض مصالح کی خاطر جن میں آئے دن کی شورشوں اور فتنوں سے محفوظ رہنا شامل تھا، وہ دہلی میں رہنا بھی نہیں چاہتے تھے مگر اس سے دور قیام بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ اس لئے دہلی کے قرب وجوار میں جوبستیاں تھیں، انھیں اپنے قیام کے لئے انھوں نے منتخب کیا اور آس پاس کی بستیاں علم و فضل کا گہوارہ بنیں۔ اس طرح دارالسلطنت سے دور رہتے ہوئے بھی ان کا تعلق اس سے بر قرار رہا اوروہ اس سے منقطع نہیں رہے۔ وہاں کے حالات پر ان کی گہری نظر رہتی تھی، مقامی ہنگاموں ، نت نئے حملوں اور غارت گری سے محفوظ رہنے کے ساتھ وہ وہاں کے اہم معاملات میں دخیل رہتے تھے۔ یوں بھی رشد و ہدایت اور تبلیغ کے لئے ان جگہوں کا قیام بہت ضروری تھا۔ دوسری طرف ہندوستان کے سیاسی نقشہ میں راجستھان کی اس اہمیت کے پیش نظر دہلی پر حکومت کے لئے ان علاقوں کا سیاسی استحکام فوجی حکمت عملی کے عین مطابق تھا۔ دہلی سے قریب ہریانہ اور راجستھان میں پھیلی ہوئی اقوام میں راجپوتوں کی طرح میؤ ایک نہایت جی دار ، جنگجو اور بہادر قوم تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں اس کا قبول اسلام ان بزرگوں ہی کی بدولت ہے جنہوں نے سیکڑوں برس مقیم رہ کر وہاں شمع ہدایت روشن رکھی اور اس علاقہ کی تاریخ میں عظیم سیاسی اور مذہبی انقلاب پیدا کیا۔

ہندوستان کے جغرافیہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی یہ پتہ چل سکتا ہے کہ دہلی اگر چہ قدیم ترین دور سے شمالی ہند کی سلطنتوں کی راجدھانی بنتی چلی آئی ہے۔ لیکن اس پر سب سے زیادہ اگر کوئی علاقہ اثر انداز ہوسکتا تھا تو وہ راجستھان تھا، جس کی سرحدیں ایک طرف دہلی اور دو آبہ کے زرخیز علاقہ سے مل رہی تھیں اور دوسری طرف طویل ریگستانی فاصلہ طے کرتے ہوئے اس کا رشتہ سندھ سے ملتا تھا۔ تاریخی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو صحرا اور ریگستان کی گود میں پلنے والے جیا لے راجستھانی ہندوستان کے سب سے جفاکش اور سخت کوش لوگ تھے۔ غذا اور پانی کی تلاش میں ان کے قافلے اس خشک و بے آب و گیاہ سرزمین میں ادھر سے ادھر منتقل ہوتے رہنے کے عادی تھے اور اسی کا اثر تھا کہ ان میں اس آرام طلبی و تن آسانی کا دور دور پتہ نہ تھا جو دو آبہ کے سہولت پسند لوگوں میں پیدا ہوگئی تھی۔

اس تاریخی اور جغرافیائی پس منظر ہی کا ایک لازمی نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کے ذریعہ ہندوستان میں ایک مستحکم اور وسیع نظام حکومت قائم ہونے کے بعد اس علاقہ پر خاص نظر رکھی گئی۔ محمود غزنوی اور سالار مسعود کے حملوں اور شہاب الدین غوری، قطب الدین ایبک ، ناصر الدین محمود، غیاث الدین بلبن ،فیروز شاہ تغلق، محمد بن تغلق، بہلول لودھی غرض شہاب الدین سے لے کر بابر تک ہر شہنشاہ نے اسے قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔ اور مغلیہ عہد میں یہ علاقہ مرکز کے زیر نگرانی رکھا گیا۔عہد اکبری میں سرکار تجارہ اور سرکار الور کا تعلق براہ راست دار الخلافہ آگرہ سے تھا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ جب دہلی کمزور ہوتی تھی تو میوات تاخت و تاراج کرتی تھی اور جب دہلی مضبوط ہوتی تھی تو میوات سے بدلہ لیتی تھی۔

ان سیاسی اور جنگی معرکوں کے علاوہ راجستھان کی اس اہمیت ہی کا یہ بھی لازمی نتیجہ تھا کہ شمالی ہندوستان میں جو اولین مبلغ آئے انھوں نے راجستھان کے خطے کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا۔ ان میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیر، صوفی حمید الدین ناگور، خواجہ محمد موسیٰ خلیفہ شیخ حیدر دہلوی پلہ (چودہویں صدی) شہاب خاں شہیدپہاڑی بھرت پور، شاہ نجم الحق سہنہ گوڑ گاؤں (پندرہویں صدی) بندگی شاہ نظام نارنول، خواجہ لعل محمد کوٹ قاسم (خلیفہ سیدنا امیر ابوالعلاء اکبر آبادی (وفات ۹؍صفر ۱۰۶۱ھ؍ ۱۶۵۰ء) پیر محمد وارث عرف شاہ چوکھا، پننگواں، ضلع گوڑ گانواں (خلیفہ بندگی شاہ نظام) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

لیکن ان میں سب سے اہم اور ابتدائی نام سالار مسعود (شہادت ۱۴رجب ۴۲۴ ھ ؍۱۰۳۲ء) ہے، جنہوں نے خواجہ معین الدین چشتی (وفات ۱۲۳۶ء)سے بھی تقریباََ ڈیڑھ سو برس پہلے اس بہادر سر زمین میں اپنے جھنڈے گاڑے اور یہاں اسلام کا اجالا کیا۔ سالار مسعود کے ماموں جلال الدین بخاری اور سالار مسعود کے مجاہد استاد اور محمود غزنوی کے سالار اعظم سید ابراہیم مشہدی بارہ ہزاری(شہادت ۴۲۱ھ؍۱۰۳۰ء ’’ہیہات ‘‘مادہ تاریخ ہے) آج بھی ریواڑی کے عوام کی عقیدت کا محور ہیں۔ تجارہ میں سید محمد دوست نانا بارہ ہزاری کے ہمراہیوں میں سے حضرت رکن عالم شہید، حضرت روشن شہید اور حضرت بھکن شہید کے مزارات زیارت گاہ خاص و عام ہیں۔ انھی ہمراہیوں میں سے سید ابراہیم بارہ ہزاری کے خالہ زاد بھائی سید حمید الدین نے جو جنگ تجارہ سے زخمی ہو کر ریواڑی جارہے تھے، راستہ میں کوٹ قاسم (تجارہ سے تقریباََ ۲۰ کلومیڑ) میں وفات پائی۔ سالار مسعود کے ایک ساتھی سید ضمیر الدین نے پاٹودی، ضلع گوڑ گانواں (تجارہ سے تقریباََ ۷۵ کلومیٹر) میں قیام کرکے اشاعت اسلام کی خدمت انجام دی۔

اجمیر سے بہرائچ تک پوری گزرگاہ میں اگرچہ سالار مسعود کے اثرات ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں، لیکن سالار مسعود اور ان کے پرجوش دیندار ساتھیوں کے یہ نشانات ہریانہ کے مشہور صنعتی قصبہ ریواڑی سے لے کر راجستھان کے قدیم تاریخی قصبہ تجارہ تک پھیلے ہوئے علاقۂ میوات میں جابجا نمایاں ہیں۔یہ نشانات ابھی تک مقامی عقیدت کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ریواڑی میں اس وقت کوئی مسلمان باقی نہیں ہے، لیکن سالار مسعود کے ماموں جلال الدین بخاری کا مزار، مسجد وخانقاہ کو آج بھی عقیدت کا درجہ حاصل ہے۔اسی کے قریب سید ابراہیم بارہ ہزاری( جن کے سر ریواڑی کی فتح کا سہرا ہے) کی درگاہ موجود ہے۔ اسے اگرچہ گردوارا بنا لیا گیا ہے، لیکن عوام کی عقیدتیں ابھی تک قائم ہیں۔

ریواڑی میں جس طرح صدیقی خاندان کا تعلق افتا سے تھا، اسی طرح جعفری خاندان منصب قضا سے تعلق رکھتاتھا۔ اس علاقہ میں آباد شیوخ و سادات کے خاندانوں میں رشتہ داریوں کا باہم جو سلسلہ تھا، وہ ان دونوں خاندانوں میں بھی قائم تھا۔

مسلم صاحب کے بزرگوں میں خان کے خطاب سے سرفراز مفتی امان الحق ابن مفتی نور الحق بہت عالی مرتبہ تھے۔ وہ نہ صرف علم ظاہری بلکہ علم باطنی سے بھی آراستہ تھے اور بندگی شاہ مستقیم سجادہ نشین ،خانقاہ بندگی شاہ نظام نار نولی سے شرف بیعت رکھتے تھے۔حضرت بندگی شاہ نظام حضرت خواجہ خانون گوالیاری قدس سرہ(وفات ۹۴۰ھ؍۱۵۳۳ء) کے اجل خلفاء میں ہیں۔ خاندان کے ایک بزرگ شیخ جنید بن شیخ محمد مفتی ریواڑی خود بندگی شاہ نظام کے خلیفہ ہیں اور یہ سلسلہ خانونی ونظام شاہی میں بڑے صاحبِ تصرف گزرے ہیں۔

میرے جد امجد میاں قاضی سید شمس الدین (قاضی سید محمد اشرف کے حقیقی بھائی ) کی صاحبزادی مسیح النساء مسلم صاحب کے جد امجد مفتی یقین الدین ابن امام الدین ابن قطب الدین ابن سراج الحق سے منسوب تھیں۔ مفتی یقین الدین کے دو صاحبزادے قیام الدین اور قمر الدین تھے۔ قیام الدین نو عمری میں حیدر آباد دکن چلے گئے تھے، وہیں ان کا قیام رہا۔

مسلم صاحب کے والد مستقیم الدین کی شادی عبد المتین متینؔتجاروی کی صاحبزادی سے بھوپال میں ہوئی تھی۔ عبد المتین کی اولاد نرینہ نہیں تھی۔ صرف دو صاحبزادیاں تھیں۔ایک کی شادی مستقیم الدین ابن قمر الدین اور دوسری کی شادی محمد شفیع سے ہوئی تھی، جن کے ایک صاحبزادہ محمد شکیل (انہیں میری والدہ کی حقیقی چچا زاد بہن بنت قاضی نسیم الدین منسوب تھیں) تھے۔

عبد المتین بھوپال میں پہلے تحصیلدار اور بعد میں کامدار رہے، یہ السنہ مختلفہ کے فاضل تھے ۔عربی ، فارسی، انگریزی کے علاوہ ترکی بھی خوب جانتے تھے۔شاعری پر عبور تھا۔ فلسفہ، اخلاق، مذہب اور سائنس کے مضامین کو نظم کے پیرایہ میں دلنشین طرز پر بیان کیا ہے۔ کتابوں میں سائنس و فلسفہ، فلسفہ اخلاق ، راز کونین یعنی صحیفہ سلطانی، قیمتی زیور، تعلیم الاسلام، دنیا و عبقیٰ ان کی منظوم تصانیف ہیں۔موتیوں کی لڑی، عربی کتاب سلم الادب کے منظوم حصہ کاترجمہ ہے۔ ترجمہ تاریخ یمن، اور ترجمہ مجتنک فلسفہ، ترکی زبان میں ان کی مہارت کو ظاہر کرتے ہیں۔ سلیم بانو، جوش، تمنا، ہمایوں خاتون، بے ماں کی بچی، طاہرہ کی گڑیا، شائستہ دلہن، اولاد کی محبت،بچوں کے لئے اصلاحی مقصد سے کہانی کے طور پر لکھی ہیں۔ پیسہ اخبار ،لاہور میں ان کے اکثر مضامین اور نظمیں شائع ہوتی تھیں۔ احمد علی خاں شوقؔ کے اخبار شعلہ میں بھی ان کے ادارتی مضامین اور غزلیں شائع ہوتی تھیں۔۱۹۱۳ء میں یوسف قیصر کے ساتھ انھوں نے مالوہ ریویو کے نام سے بھوپال سے ایک پندرہ روز ہ اخبار بھی نکالاتھا۔

اردو کے علاوہ فارسی میں بھی کلام ہے۔
تلامذہ کی تعداد کافی تھی۔۲۰ ؍اپریل ۱۹۳۸ء؍۱۸؍محرم ۱۳۵۷ھ کو انتقال ہوا۔ان کے ایک شاگرد عبیدؔ نے د رج ذیل قطعہ کہا ہے ؂؂
جب آپ نے متینؔ سفر آخرت کیا
اقبالؔ نے بھی رہنا گوارا نہیں کیا
گویا وہ علم وفضل میں ثانی تھے آپ کے
دو دُرّ شہوار کو دنیا نے کھودیا

مستقیم الدین نے بہت کم عمری میں انتقال کیا اپنے داماد کے سانحہ مرگ پر عبد المتین نے جو طویل مرثیہ کہا تھا، اس کے اشعار ہیں ؂
اے زمین شہر دہلی شکو ہا دارم زتو
زاں کہ گم گردید در شہر تو آں دریتیم
مونسِ عبد السلامؔ مرہم زخم متینؔ
ہمچو نام خویش در راہ شریعت مستقیمؔ
خود غیور و ذی مروت نیز اولادش غیوؔر
گو ابو مسلمؔ مگر در مرتبہ زاں ہم عظیم

دو بیٹے غیور حسن(تحصیلدار) اور محمد مسلم ان کی یادگار رہے۔ دونوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت نانا کے زیر سایہ بھوپال میں ہوئی۔ بھوپال میں محلہ جہانگیر آباد میں عبد المتین کا بہت وسیع و عریض مکان تھا۔ انہوں نے مکان کے دو بڑے حصے اپنی دونوں بیٹیوں کے بچوں کو اور ایک چھوٹا حصہ اپنے بھانجہ کو عطا کیا۔ ان کا مکان اس زمانہ میں جہانگیر آباد کے بڑے مکانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ اور متین ہاؤس کے نام سے موسوم تھا۔
٭٭٭٭

-٭حکیم سید ظل الرحمن صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر اور شعبۂ ادویہ طبیہ کالج کے پرنسپل اور آج کل ابن سینا اکیڈمی علی گڑھ کے چیرمین ہیں۔

Ather Muslim
About the Author: Ather Muslim Read More Articles by Ather Muslim: 2 Articles with 3040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.