کچھ دانشور اعظم دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تمسخر اڑاتے
ہوئے بقول شخصے "جنگ کے تما م ہتھیار سمندر میں پھینک دو"کا مشورہ دے رہے
ہیں۔الفاظوں کا پیچھا کرنے والی ان امن پسندوں کے پرچارک کی واہ واہ سے ہال
اور ٹی وی نیوز چینلوں میں جنگ کا سا سماں بندھ جاتا ہے۔لیکن بقول حاوی
اعظم کہ "خیال آیا کہ یہ حوالہ جاتی جنگجو چاہتے ہیں کہ مہلک ترین ہتھیاروں
کی سہل ترین موت کی بجائے کتوں یا گِدھوں کی طرح ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر
اذیت ناک موت مر جائیں۔ہاں ان کی یہ نیک تمنا ان کی تمام بربریت اور وحشت
سمندر میں ڈالنے سے بر آسکتی ہے لیکن بزگوار کی بد بختی کہ ایسا ممکن
نہیں۔"افریقہ میں دوسری جنگ عظیم کے دوران اتحادی فوجوں کا سپہ سالار جنرل
c.J Acuhin-Leck ڈسمنڈیونگ Des,od-tung کی کتاب رومیل میں اپنے دشمن کے
متعلق لکھتا ہے کہ"رومیل ہرگز مافوق البشر نہیں حالاں کہ قوی اور قابل ہے ۔تاہم
اگر وہ مافوق البشر ہوتا تو بھی اُس کے لئے انتہائی قابل ستائش بات ہوتی کہ
ہمارے جوان اُسے مافوق الفطرت طاقتوں سے نوازتے ہیں"۔اگر معاشرے میں دہشت
گردی کے ناسور سے بے قصور عوام کو نجات دلانی ہے تو سچائی ، اصولوں اور خلق
خدا کی بھلائی کی اس جنگ کو سمجھنے کے بعد ، دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں
دیر نہیں کرنی چاہیے، کل جو کرنا ہے آج کر ڈالیں اور جو آج کرناہے انھی
کریں۔اس جنگ میں سب کچھ داؤ پر لگادیں ، کسیمصلحت سے کام نہ لیں ، ماں باپ
، بہن بھائی،اولاد کسی کی پرواہ نہ کریں ، یقیناً بڑی مشکلات درپیش ہونگی ،
معاشی دشواریاں آئیں گی۔انگلیاں اٹھیں گی۔سب کچھ بالائے طاق رکھ دیں ۔ہر
بات سے بے نیاز ہوجائیں۔لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کون کرے گا ؟․کیا دہشت
گردی کے خلاف جنگ کرنے کی استطاعت بھی ہے ہم میں ؟۔صرف حوالہ جاتی علماؤں
کی طرح ہم لفاظی میں اپنے مورال کو بلند کرنے کی نا تمام کوشش کرتے رہتے
ہیں۔ہم میں اگر یہ قوت ہوتی تو دہشت گردی کی یہ جنگ ہم پر مسلط ہی کیوں
ہوتی ؟۔ہم بہ حیثیت قوم وجود نہیں رکھتے، یہی وجہ تو ہے کہ ایک دہمکی میں
ہی گھٹنے ٹیک دیتے ہیں کہ ہمیں پتھروں کے دور میں نہ پہنچا یا جائے۔پاکستان
میں اُن قوتوں کے خلاف ہم میں جنگ کی صلاحیت ہی نہیں ، کیونکہ دنیا کے ترقی
یافتہ ممالک کی جدید ترین ٹیکنالوجی ، اربوں کھربوں ڈالرز ، افرادی قوت ،
غلام ممالک کی کمک کے باوجود افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جاسکا تو پھر
کس طرح ممکن ہے کہ 13سال سے اس جنگ میں اتحادی بننے کے بعد ہم با آسانی
اپنے ملک میں جنگ جیت جائیں گے ۔ گوریلا جنگ تو افغانستان کے ساتھ پاکستان
میں بھی ہو رہی ہے۔ وہاں 30سے زائد ممالک کی ٹانگوں کی نیچے سے پسینہ نکل
آیا ہے لیکن اپنے من پسند نتائج حاصل نہیں کرسکے اور یہاں بکھری ، رشوت خور
،ذخیرہ اندوز ، مفاد پرست عناصر پر مشتمل نام نہاد قوم اکیلی کس طرح اس
خطرناک جنگ کی متحمل ہو سکتی ہے۔ ہم میں اتنی اخلاقی جرات ہی نہیں کہ ہم
اپنی ہار کو تسلیم کرلیں ، سیاچن ہم سے گیا ، کارگل میں شکست کھائی ، مشرقی
پاکستان کھو دیا ، لیکن ہم نے کبھی بھی اپنی ہار تسلیم نہیں کی ۔شکست تسلیم
کرنے کے بجائے ہم اُن فتوحات کے ترانے گاتے ہیں جو ان عبرت ناک شکست کے بعد
قصہ پارنیہ بن چکے ہیں۔ ہم 1971کو بھول کر1965کی خوشیاں مانتے ہیں ،
لیکن1971ء کا نوحہ اور ماتم کیوں نہیں کرتے ۔ کم از کم اتنا بھی نہیں
کرسکتے تو دوسروں کی جنگ میں اپنے آپ کو کیوں داخل کر لیتے ہیں جب داخل
کرلیتے ہیں تو پھر اپنے ملک میں آگ کیوں لگا دیتے ہیں ، جب آگ لگا ہی دیتے
ہیں تو آگ بجھانے کے لئے اُن لوگوں کی جانب کیوں دیکھتے ہیں جن کے ہاتھوں
میں آگ بجھانے کیلئے پانی نہیں بلکہ آگ لگانے کیلئے تیل ضرور موجود ہے۔جنگ
کا معیار بدل چکا ہے ، جنگ اب اسلحہ لیکر ریگ زاروں میں نہیں بلکہ اندرون
خانہ گھر کے اندر لڑی جاتی ہے۔کیا ہم میں وہ قوت ہے کہ ہم مل کر یکجا ہوکر
کسی بھی دشمن کا مقابلہ کرسکیں ؟۔ہمیں تو ابھی تک اقربا پروری ، رشوت خوری
، ذخیرہ اندوزی ، بھتوں ، غندہ گردیوں اور سرکاری مراعات سے لطف اندوز ہونے
سے ہی فرصت نہیں ہے۔ کیا ہمیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمیں بہ حیثیت
پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک سو ارب ڈالر ز سے زائد کا
نقصان ہوچکا ہے۔ کیا ہماری عیش و عشرت و ناز برادری دیکھ کر لگتا ہے کہ
معاشی بد حالی ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں ۔کیا ہمارے فلاسفر ،
دانشور ،پالیسی میکر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم میں ایک قوم بننے کی کوئی صلاحیت
موجود ہے تو ، معافی چاہتا ہوں کہ ہمیں اس غلط فہمی سے باہر آجانا چاہیے کہ
ہم نازک اندام نازنیوں کی طرح لچک لچک کر مٹکنے والوں میں ، جری اور خود
دار قوم بننے کی رمق باقی بچی ہے۔کیا ملک کو درپیش مسائل کیلئے نوجوانوں کی
اتنی بڑی قطاریں کسی نے دیکھی ہیں کہ وہ کالج ، یونیورسٹیوں کے باہر فنی
تعلیم کیلئے پاکستان آئیڈیل کی طرح کھڑے ہوں۔ یا کبھی ہم نے ان سیاست دانوں
اور دانشوروں کرنے والوں کو دیکھا ہے کہ انھوں نے قوم کی اس تباہ حالی پر
آنسو بہائے ہوں۔ قوموں میں انقلاب پیدا ہوتا ہے جب وہ بہ حیثیت قوم ہوں۔
لیکن یہاں ہم بہ حیثیت قوم ہی کب ہیں ، سب سے پہلے ہم نے اپنے امت واحدہ کے
ٹکڑے کرڈالے ، پھر ہم نے وطنینیت کو بیخ سے اکھاڑ پھینکا ، پھر ہم نے نسلی
منافرت کو فروٖغ دیا اور جب کچھ بن نہ پڑا تو ہم نے اپنی روایات ہی کچل دیا
۔خیبر پختونخوا حکومت نے سرمایہ دار اور غریب بچوں کو یکساں تعلیم دلانے
کیلئے سرکاری زبان انگریزی قرار دے دی۔وجہ بیان کی کہ اب غریب کا بچہ اور
سرمایہ دار ایک ہی نصاب پڑے گا۔غریب کو سرمایہ دار کے تابع کرنے کیلئے ایک
اور کاری ضرب لگائی جا رہی ہے ، کسی سرمایہ دار کو کیوں نہیں کہا جاتا کہ
غریب کا بچہ جو تعلیم لے رہا ہے اور اس تعلیم کے بل بوتے پر اپنی زندگی کی
گاڑی کو چلانے کیلئے جہاد کرتا ہے ذرا تم بھی اس میدان ِکارزار میں آجاؤ۔جس
بچے کے گھر میں اردو کا ایک لفظ نہ بولا جاتا ہو جبکہ وہ قومی زبان ہے اور
چہار اطراف اس کا شہرہ ہے اس سے کہا جائے کہ اب تم وہ زبان اختیار کرو ، جو
تمھارے باپ دادا ، انگریزوں کی دور غلامی میں نہیں سیکھ سیکھے ۔شائد سرمایہ
دار اب اتنے ماڈرن ہو چکے ہیں کہ انھیں اپنی مادری زبان ہی نہیں آتی اس لئے
کالے انگریزوں کو اپنی غلامی کیلئے ایسی رٹے باز غلاموں و لونڈیوں کی ضرورت
ہے جو ان کے گیٹ آؤٹ اور شٹ اپ کو سمجھ سکیں۔نقالی اور تعلیمی انحطاط نے
قوم کو اس حال پر تو پہنچا دیا ہے۔ جو قوم قلم کو انقلاب کیلئے نہیں بلکہ
بطور ازار بند کیلئے استعمال کرنے کی عادی ہوچکی ہے۔ اب اس قوم سے کیا توقع
کی جائے کہ وہ اس دور غلامی میں قوم موسی کا کردار ادا کرے ۔وقت کے فرعونوں
نے 65لاکھ بچوں کو اسکول کی شکل تک دیکھنے سے محروم تو کر دیا اب کیا اس
خوئے غلامی میں اجتہاد کی کوئی حس موجود بھی ہے کہ نہیں ۔قصور کسی کا نہیں
اس غلام قوم کا ہے جو ہر ظالم کو خود پر مسلط کرنے کے بعد اپنے سابقہ ظالم
سے ہی موازنہ کرتے ہوئے اپنی اصلاح کے بجائے سابقہ ظالم کو اچھا کہتی ہے ۔
چوروں میں سے بڑے اور چھوٹے چور کا ہی انتخاب کرتی ہے ، چھوٹا چور اس لئے
چھوٹا چور ہے کیونکہ ایسے بڑا چور بننے کے مواقع نہیں تھے ہم ہی انھیں یہ
موقع فراہم کرتے ہیں کہ یہ انقلاب بھی لائیں گے۔ ، حیف ہے اس قوم پر جو اب
بھی یہ سمجھتی ہے کہ حرام کی دولت سے حلال کا رزق، زکوۃ فطرہ ، صدقہ عمرہ ،
حج کرکے حلال کی جنت حاصل کر پائی گی۔
قوم کی بہتری کا چھوڑ خیال ۔۔فکر تعمیر ملک ، دل سے نکال
تیرا پرچم ،ہے تیرا دستِ سوال۔۔بے ضمیری کا اورکیا ہو مال ؟
اب قلم سے ، ازار بند ہی ڈال
آمریت کی ہمنوائی میں ۔۔تیرا ہمسر نہیں خدائی میں
بادشاہوں کی رہنمائی میں ۔۔روز اسلام کے جلوس نکال
اب قلم سے ، ازار بند ہی ڈال |