' منی بجٹ ' ٹیکسوں کی بھرمار

حکومت نے سال کے وسط میں منی بجٹ کے ذریعے ٹیکسوں کی بھرمار شروع کردی ہے۔ اور اب Rs105 ارب روپے کے نئے ' گیس لیوی ' لگائے جا رہے ہیں۔ بجلی کی شرح میں 30-50 فیصد بتدریج اضافہ ہوا ہے ، 30 اداروں کی نجکاری کی جارہی ہے، جس کا آغاز پی آئی اے کے چھبیس فیصد حصص کی نج کا ری سے ہوا ہے، جس پر پی آئی اے کی تمام یونینیں سراپا احتجاج ہیں۔ سب سے زیادہ مشکلات کا سبب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے ساتھ $ 6.64bn کا بیل آؤٹ معاہدہ ہے۔ اس قرض کے نتیجے میں عوام پر ٹیکسوں کا دباو بڑھا یا جا رہا ہے، سبسیڈی ختم کی جارہی ہے۔ دسمبر 2013 تک ، سالانہ بنیاد پر FDP 0.4 فی صد ٹیکس آمدنی کا اضافہ ہو جائے گا ۔سا بق صدر زرداری سے پوچھا گیا کہ وہ اس صورتحال میں کیا کرتے تو ان کا دانشمندانہ جواب تھا کہ میں دیگر ذرائع سے سرمایہ حاصل کرتا اورآئی ایم ایف کے ساتھ اس معاہدہ پر دستخط نہ کرتا، اگر ضروری ہوتا تو قرض کی رقم کم کرتا اور اپنی شرائظ پر قرض لیتا، گو زرداری ماہر معاشیات نہیں ہیں لیکن پھر بھی انھیں معاملات کا ادراک ہے اور وہ عوام پر کم بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں۔ لیکن نواز شریف کے اقتصادی منیجر اقتصادی اپنی مالی پالیسیاں بہتر کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور وہ اسی عطا ر کے لونڈے یعنی آئی ایم ایف پر انحصار کر رہے ہیں ، جس نے پاکستان کی معیشیت کا تباہ کیا ہے۔ حکومت نے 7th نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کی حرکیات کو تبدیل کرنے کا بھی اشارہ دیا " جس کے لئے رواں مالی سال کے اختتام سے قبل مذاکرات شروع ہوں گے۔ یہ ایک پنڈورا بکس کھولنے کے متعرادف ہوگا۔ جس سے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا۔ آئی ایم ایف ہمارے ہر معاملے میں دخیل ہے، وہ ہمیں بری بری خبریں سناتا ہے، مثلا حال ہی میں آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ اگلے سال پاکستان کی معاشی ترقی 6.7 ارب ڈالر کے قرضہ پیکیج کے باوجود سخت سادگی کے اقدامات کے باعث توقع سے زیادہ بدتر ہوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے واشنگٹن سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا ہے پاکستان معاشی بحران سے دوچار ہے اور معیشت ہائی رسک پر ہے جبکہ ادائیگیوں میں توازن نہیں ، اس کے باوجود یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت نے معیشت کی بہتری کیلیے اقدامات کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے مالی خسارہ 4.7 فیصد تک محدود کرنا تھا لیکن یہ 8 فیصد رہا ، حکومت ٹیکسوں کی وصولیوں میں ناکام رہی، بجلی بحران اور ناقص سیکیورٹی کی صورتحال نے معیشت کو متاثر کیا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نئی توانائی پالیسی عمل میں لانا خوش آئند ہے، ٹیکس چھوٹ کم کرکے وصولی بہتر بنائی جاسکتی ہے اور جو شعبے ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں ان پر ٹیکس لگایا جائے، معاشی استحکام کیلیے صوبوں کو وفاق کے ہم قدم ہونا پڑے گا، مہنگائی پر کنٹرول کیلیے خودمختار مانیٹری پالیسی ضروری ہے، پاکستان میں انکم سپورٹ کے ذریعے غریبوں تک پہنچنا بھی ایک اچھا قدم ہے۔ برطانوی خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کی معاشی کارکردگی ناقص رہی ہے ، ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ پاکستانی معیشت خطرات سے دوچار اور ہائی رسک پر ہے۔ چند دن پہلے اسٹیٹ بنک نے بھی شرح سود کم کردی۔بینک قرضوں کی لاگت کم کرنے کے طریقہ کار کو اْلٹنے کے لیے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا فیصلہ بہت سوں کے لیے حیران کْن ہے۔ شرح سْود کم کر کے نو فیصد پر کرنے کے فیصلے کو صرف تین ماہ بعد واپس لے کر، اس میں نصف فیصد یا پچاس بیسک پوائنٹس کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ دلخراش حقیقت یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے اس بات پر متفق ہے کہ رواں مالی سال کے دوران ‘مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے اثرات کم’ کرنے کی خاطر، مانیٹری پالیسی کو اپنے اندر سمونے کے لیے بینک بدستور گنجائش فراہم کرتا رہے گا، یہ ان سے قرض حاصل کرنے کے لیے کیا جانے والا ایک وعدہ بھی تھا، جسے خود حکومت نے کیا۔شرح سْود میں اضافہ کرتے ہوئے بینک نے افراطِ زر کے خطرے کی طرف اشارہ کیا لیکن صرف یہ واحد جواز نہیں۔ ملکی سطح پر توانائی کی قیمت میں اضافہ، عالمی تیل مارکیٹ کا عدم استحکام، بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے حکومت کا مسلسل بینک سے قرض حاصل کرنا اور کرنسی کی شرح تبادلہ پر دباؤ بھی اس کے اسباب ہیں۔خدشہ ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران سات اعشاریہ چار فیصد رہنے والا افراطِ زر رواں مالی سال کے اختتام پر بارہ فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔گزشتہ جون میں دیے گئے بجٹ کے اندر توانائی پر دی جانے والی زرِ تلافی (سبسڈی) کے خاتمے اور بلواسطہ (اِن ڈائریکٹ) ٹیکسوں میں اضافے کے واسطے نئی حکومت کی منصوبہ بندی کے باعث، افراطِ زر میں اضافہ غیر متوقع نہیں اور حکومتی پالیسیوں کے تناظر میں بینک اس خطرے سے اچھی طرح باخبر ہے۔لیکن پھر بھی اس نے افراطِ زر کی بڑھتی شرح کے خطرات اور ملکی ادائیگیوں کے کمزور توازن کے بارے میں خدشات کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا۔اسٹیٹ بینک جو کہتا ہے اس کے برعکس، شرح سْود میں اضافے سے حکومت کے گھریلو قرضوں کی ادائیگی پر دباؤپڑے گا، اقتصادی شرحِ نمو کم اور نجی بینکوں سے قرض لے کر سرکاری خزانے کی دستاویزات پْر کرنے کے خطرناک رجحان کی حوصلہ افزائی ہوگی۔نجی طو پر قرض کے حصول میں عدم دلچسپی پر بڑھتی شرح سْود کے بجائے، توانائی کی مسلسل بڑھتی قلت اور سلامتی کو موردِ الزام ٹھہرانے کی دلیل پیش کی جاتی ہے جو دل کو نہیں لگتی۔ یا پھر ایسا ہی ہے تو گذشتہ دو برسوں کے دوران اسٹیٹ بینک نے شرح سْود میں مجموعی طور پر پانچ سو بیسک پوائنٹس کی کمی کیوں کی تھی؟شرح سْود میں اضافے سے صاف ظاہر ہے کہ بینک اپنی مالیاتی پالیسی کو مزید سخت تر کررہا ہے اور آگے چل کر اس میں مزید اضافے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔افراطِ زر کو دھکیلنے کی خاطر سخت مالیاتی پالیسی اپنانے کے مثبت اور موثر اثرات نہ ماضی میں کبھی برآمد ہوئے اور نہ ہی مستقبل میں اس سے کوئی توقع کی جاسکتی ہے، نہ ہی اس سے حکومتی بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے قرض حاصل کرنے کے رجحان کو کبھی روکا جاسکا ہے۔اس سے، ملکی مشکلات کے لیے سابقہ حکومت کی مالیاتی پالیسیوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے لیے بینک کی بعد از وقت تنقید ہی سامنے آتی ہے۔لیکن چند دن میں ڈالر کی شرح روپے کے مقابلے میں اوپر گئی ہے، اس سے مہنگائی کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکسوں کی بھر مار سے عوام اور تاجر سب ہی پریشان ہیں۔ ویلیو ایڈیڈ ٹیکس پر ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کا شدید رد عمل ہے۔ انھوں نے ایف بی آر کی جانب سے ویلیو ایڈیڈ ٹیکسائل صنعت پر ٹیکسوں کے نفاذکو مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے صنعتیں خود بخود بند ہوجائیں گی۔ ایف بی آر کی جانب سے ویلیو ایڈڈ سیکٹر مثلا گارمنٹس بیڈ لینن اور ٹاول سمیت دیگر ٹیکسٹائل کی صنعتوں کے لیے 2 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کے علاوہ ود ہولڈہولڈنگ ٹیکس کی شرح 1فیصد سے بڑھا کر 5فیصد کر دی گئی ہے۔ اس تنا ظر میں اسٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ انتہائی مایوس کن ہے۔موجودہ حکومت نے اڑھائی ماہ میں ریکارڈ547ارب روپے قرضہ لیا جوکہ موجودہ حکومت کے عوام سے کیے گئے تمام وعدوں کی نفی کرتا ہے۔روپے کی قدر دن بدن کم ہورہی ہے جبکہ ڈالر106روپے کا ہوچکا ہے۔جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح پاکستان میں ہے۔ اس میں کمی کے حوالے سے حکمرانوں کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نظرنہیں آرہے۔ پاکستان میں فی کس آمدنی دوسرے ممالک سے کم ہے۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران نجی سرمایہ کاری نصف رہ گئی ہے۔کفایت شعاری کے باعث6.7ملین ڈالر ریسکیوفنڈزحاصل کرکے بھی عوام کے معیار زندگی پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا۔کہا جا رہا ہے کہ ناقص پالیسیوں اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اسٹیٹ بنک کے ذخائر14.78بلین ڈالر سے کم ہوکر صرف6بلین ڈالر رہ گئے ہیں۔پاکستان کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے سودی نظام کاخاتمہ ناگزیر ہوچکا ہے۔قرضے اتارنے کے لئے مزید قرضے لینے کی پالیسی نے براہ راست عامآدمی کی زندگی کومتاثر کیا ہے۔ توانائی کا سنگین بحران،امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اورحکمرانوں کے ناعاقبت اندیش فیصلوں نے ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ادارے جوکبھی منافع بخش اور پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے ایک ایک کرکے خسارے میں جاچکے ہیں۔صرف پیآئی اے کو ماہانہ تین ارب روپے کا خسارہ ہورہا ہے۔اس وقت اٹھارہ کروڑ کیآبادی میں صرف12لاکھ افراد ٹیکس اداکرتے ہیں۔سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کابیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ’’ملک کے منتخب ایوانوں میں موجودگیارہ سو نمائندگان میں سے ساڑھیآٹھ سونمائندے ٹیکس کی مد میں قومی خزانے میں ایک روپیہ بھی جمع نہیں کراتے‘‘۔تنخواہ دار طبقات پر ٹیکسوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے مگر جاگیر دار،وڈیروں اور سرمایہ داروں پر تاحال کوئی گرفت مضبوط نہیں کی جاسکی۔جس کی وجہ سے معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھ رہاہے۔ ان حالات میں اسٹیٹ بنک نے نئی مانیٹری پالیسی کا جو اعلان ہے جس میں شرح سود کو کم کر کے نو فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے قبل ازیں یہ شرح9.5 فیصد تھی بنک کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیاگیاہے نئے مالی سال کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں محصولات کا ہدف حاصل نہ ہوسکے گا سٹیٹ بنک کی رپورٹ میں یہ بھی واضح کیاگیاہے کہ حکومت نے مالی سال کے دوران افراط زر کا آٹھ فیصد کا جو ہدف مقرر کیاہے بجلی کے نرخوں میں مرحلہ وار اضافے سے اس کا حصول بھی ممکن نہیں ہے یہ امر قابل ذکر ہے کہ سٹیٹ بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے توازن ادائیگی کی صورتحال کو درپیش خطرات کے مقابلے میں گرتے ہوئے افراط زر اور نجی شعبے کے کم قرضوں کو زیادہ اہمیت دی ہے ۔ اسٹیٹ بنک کے سروے کے مطابق صارفین کے اعتماد متوقع معاشی حالات اور افراط زر کی توقعات میں نمایاں بہتری آئی ہے تاہم بیرون ملک سے رقوم کی آمد میں کمی اور بینکاری نظام سے بلند مالیاتی قرضے سخت معاشی چیلنج بنے ہوئے ہیں اسی طرح بجلی کی قلت اور امن وامان کے حالات ترقی کی شرح نمو کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں ادھر ایوان ہائے صنعت وتجارت کی طرف سے شرح سود میں کمی کو بہترین فیصلے سے تعبیر کیاہے اور اس رائے کا اظہار کیاہے کہ اس کے ملکی معیشت پر بے حد مثبت اثرات مرتب ہوں گے کاروباری حلقوں کا کہناہے کہ اگر شرح سود میں کمی کے ساتھ حکومت پاور اورگیس ٹیرف میں کمی کے اقدامات کرے تو تاجر اور صنعتکار اپنی صنعتی و کاروباری سرگرمیوں کو توسیع دے سکیں گے جس سے نہ صرف قومی پیداوار کا حجم بڑھے گابلکہ ملک مختلف شعبوں کے برآمدی اہداف کا حصول بھی ممکن ہوسکے گا بہرحال مجموعی طور پر صنعتی اور کاروباری حلقوں نے شرح سود میں کمی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیاہے کہ اس کے نتیجے میں نئی صنعتیں لگانے پر کم لاگت آئے گی اور لوگ بنکوں میں پڑے اپنے بڑے اکاؤنٹس کو کاروباری سرگرمیوں کے لئے استعمال کریں گے جس سے سرمایہ سرکل میں آئے گا اور نجی شعبہ ترقی کرے بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم میں کمی تشویشناک ہے اب تک زرعی شعبہ اور بیرون ملک سے ترسیلات زر پر ہی ہماری معیشت کھڑی تھی اگرفوری طور پر بیرون ملک سے ترسیلات زر کے معاملے پر توجہ نہ دی گئی تو معیشت کو ایک اور شدید جھٹکا لگ سکتاہے ۔اسٹیٹ بنک نے اس ضمن میں اہم فیصلہ کیاہے اب صنعتی وکاروباری حلقوں کو سرمایہ کاری کے معاملے میں اپنا کردار ادا کرناچاہیے۔ حکومت کو اس امر کا ادراک ہے کہ جب تک بجلی کی کمی ہے اس وقت تک چھوٹی یا بڑی صنعتوں کو ترقی نہیں دی جاسکے گی اور بلاشبہ حکومت اس سلسلے میں قلیل المدت اور طویل المدت پالیسیوں کے تحت تیزی سے کام بھی کررہی ہے لیکن اسے اس حقیقت کو بھی پلے سے باندھ لیناچاہیے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ سے معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا مطلب کسی بھی چیز کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہے اورمہنگی اشیاء عالمی مارکیٹ میں جگہ بناسکتی ہیں نہ مقامی مارکیٹ میں ان کی کھپت ممکن ہوسکتی ہے اس کے برعکس پیداواری لاگت میں کمی سے برآمدات کو فروغ دیا جاسکتاہے اور یہ کمی بجلی کے نرخوں میں کمی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دوسری جانب سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کے باوجود ایف بی آر ،جولائی میں ٹیکس آمدنی کا مجموعی ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ایف بی آر نے جولائی میں 139 ارب روپے ٹیکس آمدنی حاصل کرنے کا ہدف رکھا تھا۔لیکن اس عرصے میں صرف 127 ارب روپے کا ٹیکس اکھٹا ہوسکا جو ہدف سے 12 ارب روپے کم ہے۔ذرائع کے مطابق سیلز ٹیکس کی شرح میں 1 فیصد اضافے کے باوجود ہدف کا پورا نہ ہونا ایف بی آر کی ناقص کارکردگی کا ثبوت ہے۔ ادارہ نئے افراد کو ٹیکس دائرہ کار میں لانے اور نظام میں موجود بدعنوانیوں کے خاتمے میں ناکام نظر آرہا ہے۔ یکم جولائی سے نہ صرف سیلز ٹیکس کی شرح کو 16 سے بڑھا کر 17 فیصد کردیا گیا تھا بلکہ غیر رجسٹر شدہ افراد پر یہ شرح 18 فی صد کردی گئی تھی مگر اس کے باوجود ٹیکس آمدنی کا مجموعی ہدف حاصل نہ ہوسکا۔ حکومت کو جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے پر نظرثانی کرنا ہوگی کیونکہ ملک میں پہلے ہی مہنگائی ہے اور پیداواری لاگت میں اضافہ سے ہونے سے مزید مہنگائی ہورہی ہے۔ اکثر افراد کی رائے ہے کہ حکومت کو عوام سے بالواسطہ ٹیکس نہیں لینا چاہیے۔ بالواسطہ ٹیکس اب تک ختم نہیں کئے گئے۔ حالانکہ جب حکومت براہ راست ٹیکس لے رہی تو پھر ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔گورنر اسٹیٹ بنک مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں حکومت کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کو قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری بحران کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کو معاشی بحران سے بچنے اور معاشی اصلاحات میں مدد دینے کے لیے 6.7 ارب ڈالر کے قرضے دینے کی منظوری دی تھی۔اس قرضے کی 54 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط جلد جاری کی جائے گی جبکہ بقایہ رقم اگلے تین برسوں میں اقساط کی صورت میں دی جائے گی۔کہا جا رہا ہے کہ یہ قرضہ پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر بنانے میں مدد دے گا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ٹیکس چوری اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر آئی ایم ایف سے رضامندی ظاہر کی ہے۔مہنگائی پر سیاست دان کوئی بھر پور ردعمل نہیں دیتے۔لیکن کبھی کبھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ عملی طور پر منی بجٹ ہے حکومت اپنی مقبولیت کھوچکی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بجلی اور گیس کی بدترین لوڈ شیڈنگ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے حکومت نے عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔کائرہ بھی 152ارب روپے مالیت کا مِنی بجٹ متعا رف کرانے پر نگران حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اْسے غیر آئینی قرار دیتے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار اب بھی پر امید ہیں وہ کہتے ہیں کہ 503 ارب روپے کاگردشی قرضہ کرکے لوڈ شیڈیڈنگ پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔ حکومت کوئی منی بجٹ نہیں لائے گی جبکہ وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں 45 فیصداوردوسری تمام وزارتوں کے اخراجات میں 30 فیصد کٹوتی لازمی کی جائے گی۔ ان کا دعوی ہے کہ 5 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کو اس سال ٹیکس کے دائرے میں لایاجائے گا۔لیکن ان کے وعدے کا کیا اعتبار۔۔۔۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387514 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More