واضح رہے عرب دنیامیں تبدیلی کاآغازتیونس سے ہوااوربعدمیں
تبدیلی کی اس لہرنے دیگرعرب ممالک کوایسا اپنی لپیٹ میں لیاکہ ابھی تک عالم
عرب اس مکافات عمل سے باہرنہیں نکل سکااورلگتاہے کہ یہ تبدیلی کابحران ابھی
اورملکوں کواپنی لپیٹ میں لے گاجب تک صہیونی اوراستعماری مفادات کولگام
دینے کیلئے کوئی واضح قوت سامنے نہیں آتی۔تیونس بحیرہ روم پرواقع شمالی
افریقہ کاایک اہم ملک ہے جس کے جنوب مشرق میں لیبیااورمغرب میں الجزائرواقع
ہے۔سابقہ ادوارپرنظرڈالی جائے تویورپی قوتوں نے تیونس کے تمام وسائل پرقبضہ
کررکھاتھا۔نوآبادیاتی دورکے اختتام پر تیونس نے فرانس سے ۱۹۵۷ء/۱۹۵۶ء میں
آزادی حاصل کی ،بعدمیں عرب ممالک میں بڑھتے ہوئے آمرانہ کلچر کے نتیجے میں
یہاں بھی ایکآمرزین العابدین بن علی نے ۱۹۸۷ء میں حبیب بورقیبہ کومعزول
کرکے صدارت کے عہدے پرقبضہ کرلیااوربعدازاں اپنے اقتدارکوطول دینے کیلئے
آئین میں من مانی تبدیلیاں کرتارہا۔
زین العابدین کے ابتدائی دورمیں معاشی ناہمواریاں اتنی کھل کر سامنے نہیں
آئیں مگربدلتی ہوئی دنیاکی طرح یہاں بھی مہنگائی اوربے روزگاری کے اضافے نے
عوام کی زندگی کو اجیرن بنادیا۔۱۸دسمبر۲۰۱۰ء کوتیونس کے عوام کے
صبرکاپیمانہ لبریزہوگیااورایک محنت کش کی خودکشی کے بعدعوامی مزاحمت سامنے
آئی۔عوامی مظاہروں کے نتیجے میں طویل عرصے حکومت کرنے والے زین العابدین
کوجنوری ۲۰۱۱ء میں ملک سے فرارہوناپڑااوربعدمیں ہونے والے انتخابات کے
نتیجے میں معتدل اسلام پسندجماعت النہضہ برسراقتدارآگئی۔ النہضہ موجودہ
تیونس کی سب سے مضبوط سیاسی جماعت ہے جس کے روحانی وانتظامی سربراہ
راشدالغنوشی ہیں۔النہضہ کاقیام حقیقی معنوں میں ۱۹۹۰ء کی دہائی میں وجودمیں
آچکاتھا مگروہ قانونی طورپر۲۰۱۱ء کے انقلاب تیونس کے بعدسامنے آئی۔تیونس کی
سیاسی صورتحال بھی مصر سے مشابہت رکھتی ہے اوریہاں بھی بائیں بازوسے تعلق
رکھنے والی بہت سی سیاسی جماعتیں موجودہیں جواپنے حقوق کی آوازاٹھانے کیلئے
کوشاں ہیں۔ان ہی نظریات کی حامل جماعتوں نے اپنے مطالبات منوانے کیلئے
اکتوبر۲۰۱۲ء میں پاپولرفرنٹ کے نام سے اپوزیشن اتحادقائم کیا،کیونکہ
اتحادمیں شامل جماعتیں تیونس میں بڑھتی ہوئی اسلام پسندی سے انتہائی خوفزدہ
ہیں۔حالیہ کچھ دنوں میں تیونس کی سیاسی صورتحال بگڑتی چلی جارہی ہے
اوراسلام پسندوں اورسیکولرولبرل جماعتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مخالفت نے
تیونس کے سیاسی مستقبل پرسوالیہ نشان لگادیاہے اورموجودہ سیاسی بحران کی
وجہ سے انقلاب تیونس بھی مصرکی طرح خطرے سے دوچارہے اوربہت سے ماہرین اس
بات کابھی اشارہ دے چکے ہیں کہ تیونس کے موجودہ سیاسی بحران کی وجہ سے ملک
کے حالات ۲۰۱۱ء کے حالات سے بھی زیادہ بگڑسکتے ہیں۔
حال ہی میں تیونس کے صدرمنصف مرزوقی بھی اپنے ایک بیان میں عوام
اورسیاستدانوں سے متحدہونے کی اپیل کرچکے ہیں۔تیونس کی موجودہ بگڑتی ہوئی
صورتحال کی ایک وجہ اپوزیشن کے دواہم رہنماؤں شکری بلعیداورمحمدبراہمی
کاقتل بھی ہے جس میں شکری بلعیدکوفروری ۲۰۱۳ء میں قتل کیاگیاتھا۔مخالفین کی
جانب سے شکری بلعیدکے قتل کاالزام حکمران جماعت النہضہ پرعائدکیاگیاجبکہ
النہضہ پارٹی کے سربراہ راشدالغنوشی نے اپنے ایک بیان میں واضح طورپراس قتل
کاالزام زین العابدین کی باقایات پرعائدکیاہے۔ان کے مطابق سابق صدر کے
حمائتی تیونس میں جمہوریت کوپھلتے پھولتے نہیں دیکھناچاہتے۔ابھی اپوزیشن کی
جانب سے شکری بلعیدکے قتل کے خلاف حکومت مخالف مظاہرے جاری ہی تھے کہ
جولائی ۲۰۱۳ء میں ایک اوراپوزیشن لیڈرمحمدبراہمی کوبھی قتل کردیاگیاجس سے
اپوزیشن جماعتوں میں موجودہ اشتعال مزیدبڑھ گیا اوراپوزیشن نے اس قتل
کاالزام بھی حکمران جماعت النہضہ پرعائدکردیا۔
ایک طرف تیونس کااندرونی سیاسی بحران اس کیلئے دردِ سربناہواتھاتودوسری طرف
الجزائرسے ملحقہ مغربی سرحدوں پرعسکریت پسندوں کے حملوں نے ان مسائل میں
مزیداضافہ کردیاہے۔حال ہی میں (یکم اگست کو) عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں
آٹھ فوجی ہلاک ہوئے جس کے فوری جواب میں تیونس کی فوجی قیادت نے الجزائرکی
سرحدکے نزدیک عسکریت پسندوں کے خلاف بری اورفضائی کاروائیاں شروع کردیں۔ماہ
اگست میں اپوزیشن حکمران النہضہ جماعت کے کارکنوں کی جانب سے ریلیاں نکالنے
کاسلسلہ شروع ہوگیا۔اپوزیشن کی ایک ریلی کے جواب میں۳اگست کوحکومت کی حمائت
میں لاکھوں افرادکے مظاہرے کااہتمام کیاجس میں مظاہرین نے تیونس کے قومی
پرچم لہراتے ہوئے حکومت کے حق میں بڑے پرجوش نعرے لگائے جارہے تھے۔ اپوزیشن
نے فوری ردعمل کے طورپر۶اگست کوحکومت مخالف ریلی نکالی جس میں حکومت کے
خاتمے کامطالبہ کردیاگیا۔
اپوزیشن کی ریلی سے پہلے دستوری اسمبلی کے سربراہ مصطفیٰ بن جعفر نے
دستورسازی کے عمل کوروک دیااورواضح کردیاکہ دستورسازی کاکام جب تک شروع
نہیں کیاجائے گاجب تک حکومت اوراپوزیشن اپنے اختلافات کوباہمی مشارت سے حل
نہیں کرلیتے۔تیونس کے سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق دستورسازی روکنے کے عمل
نے اپوزیشن جماعتوں کواپنے مطالبات پرمزیدمضبوط کردیاہے اوروہ اب پہلے سے
زیادہ شدت اورقوت کے ساتھ اپنے مطالبات پرقائم ہیں۔تیونس کے صدارتی
مشیرالہادی العباس بھی ماہ اگست میں ملک کی بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے
باعث اپنے عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں۔۱۴/اگست کو جرمن وزیرخارجہ
گیڈوویسٹرویلے نے تیونس کے دوروزہ دورے کے دوران تیونس کی اپوزیشن اورحکومت
پرزوردیاکہ وہ ملکی سیاسی بحران کوبات چیت کے ذریعے حل کریں تاکہ ملک
کومصرجیسی صورتحال کاسامنانہ کرناپڑے۔
۱۵/اگست کوتیونس کی حکمران جماعت کے سربراہ راشد الغنوشی کی جانب سے
غیرجانبدار حکومت کے قیام کامطالبہ مستردکردیاگیااورکہاگیاکہ ایسی حکومت
ملک کے مسائل کوحل نہیں کرسکتی۔انہوں نے مزیدکہاکہ وہ قومی اتحادکی حکومت
کوصرف اسی صورت قبول کریں گے جب اس میں تمام سیاسی جماعتوں کونمائندگی حاصل
ہو۔انہوں نے مزیدکہاکہ اپوزیشن کے مطالبے ملک کی موجودہ صورتحال سے مطابقت
نہیں رکھتے اور اپوزیشن کی جانب سے فوری طورپراسمبلی تحلیل کرنے کامطالبہ
بھی مستردکردیا۔واضح رہے جولائی ۲۰۱۳ء میں تیونس کے وزیراعظم علی العریض
عام انتخابات کیلئے ۱۷دسمبر۲۰۱۳ء کی تاریخ کااعلان کرچکے ہیں،ان کے مطابق
دستورسازاسمبلی اپنا%۸۰کام مکمل کرچکی ہے اوراکتوبرتک باقی کام مکمل
کرلیاجائے گا۔موجودہ تیونسی حکومت میں پارلیمنٹ فورم پربھاری اکثریت رکھنے
والی النہضہ کے ساتھ دوبائیں بازوکی جماعتیں کانگرس فارریپبلک اورالتکتل
بھی شامل ہیں جس میں وزیراعظم علی العریض النہضہ سے،صدرمنصف مرزوقی کانگرس
فا رریپبلک سے اوردستورسازاسمبلی کے سربراہ مصطفیٰ بن جعفرالتکتل سے تعلق
رکھتے ہیں۔
النہضہ دسمبرمیں قومی انتخابات کی پیشکش کرچکی ہے مگراپوزیشن کی جانب سے
غیرجماعتی حکومت کامطالبہ کیاجارہاہے جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں بھی
تیونس سیاسی بحران سے نکلتادکھائی نہیں دے رہا۔واضح رہے کہ تیونس میں بھی
اپوزیشن کی جانب سے حکومت سے اس طرزپرمطالبات کئے جارہے ہیں،جس طرح مصرمیں
محمدمرسی کی حکومت سے وہاں کی سیکولر ولبرل جماعتیں مطالبہ کررہی تھیں جس
کی وجہ سے ملک میں سیاسی بحران پیداہواجس نے ملک کی اقتصادی مشکلات میں بھی
اضافہ کیااورمصری فوج نے اپوزیشن کی جانب سے پیداکردہ حالات کوجوازبناکر
محمدمرسی کی حکومت کوبرطرف کردیا۔موجودہ تیونس کے سیاسی بحران کی وجہ سے
یہاں بھی اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہورہاہے جس کی وجہ سے انقلاب تیونس بھی
انقلاب مصرکی طرح خطرے سے دوچارہے شائدتیونس کی جمہوری حکومت کابھی یہ
قصورہے کہ اس نے صہیونی اوراستعمارکے احکام بجالانے سے انکارکردیا جس کا
مصری حکومت شکارہوچکی ہے۔
دشت کی پیاس بڑھانے کیلئے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کیلئے آئے تھے
اپنے مطلب کے سوالوگ کہاں ملتے ہیں اب کے بھی سانپ خزانے کیلئے آئے تھے |