دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن سے رستے بنا لئے
وزیر داخلہ نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں کراچی کی صورتحال کے حوالے سے بات
کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا۔مبصرین کہتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان کو یہ سوچنا
چاہئے کہ وہ اپنے اس ’’ کچے مکان ‘‘ کی باقی ماندہ دیواروں کی حفاظت کیونکر
کر سکتے ہیں۔
بتایاجاتاہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دعویٰ کیا ہے کہ
دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی اور کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے کوئی
سیاست نہیں کی جا رہی۔ بلکہ حکومت تمام سماج دشمن عناصر سے نمٹنے کا ارادہ
رکھتی ہے۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر نے جو متضاد بیان دئیے ہیں اس سے تو
یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بخوبی سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کی جگہ لے چکے
ہیں۔رحمان ملک موقع کی مناسبت سے دعوے اور بیانات جاری کرنے میں ماہرتھے۔
کوئی ان کی بات نہیں مانتا تھا مگر سب ان کی باتوں کو غور سے سنتے تھے کہ
شاید کوئی کام کی بات نکل آئے۔ عام طور سے کام کی بات وزیر موصوف کے متضاد
بیانات سے ہی سامنے آتی تھی۔ اب یہی رویہ موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار
علی خان نے اختیار کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے تند و تیز سوالوں کے
جواب دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے
سے کوئی سیاست نہیں ہو رہی لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ وضاحت کرنا بھی
ضروری سمجھا ہے کہ چند ہفتے قبل مہاجر ری پبلکن آرمی کے حوالے سے جس رپورٹ
کا ذکر سپریم کورٹ سے ہوتا ہؤا قومی اسمبلی تک پہنچا تھا، اس کا تعلق ایم
کیو ایم سے نہیں ہے۔چوہدری صاحب نے برہمی سے کہا کہ آخر اپوزیشن اسی نکتے
پر کیوں بات کر رہی ہے اور صرف اپوزیشن ہی کیوں بول رہی ہے۔ آخر سرکاری
بنچوں پر بیٹھنے والوں کو بھی بولنے کا موقع ملنا چاہئے۔ فطری طور پر وہ یہ
تقاضہ کرتے ہوئے یہ بھول گئے ہوں گے کہ 6 ماہ پہلے تک وہ خود اپوزیشن کی
قیادت کر رہے تھے اور ایوان میں ان کی دھواں دار تقریریں گونجا کرتی
تھیں۔چوہدری نثار علی خان نے مہاجر ری پبلکن آرمی کی رپورٹ کو متحدہ قومی
موومنٹ سے علیحدہ کرنے کا جو اعلان کیا ہے ، وہ خالی از علت نہیں ہو سکتا۔
اس کے باوجود وہ یہ بات منوانے پر مصر ہیں کہ کراچی میں سماج دشمن عناصر کے
خلاف کارروائی کے حوالے سے کوئی سیاست نہیں ہو رہی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے
قائد مہاجر ری پبلکن آرمی کی رپورٹ کا ذکر منظر عام پر آنے کے بعد بہ اصرار
یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ’’ شوشہ ‘‘ ایم کیو ایم کو بدنام کرنے اور اس کی حب
الوطنی کو مشتبہ کرنے کے لئے چھوڑا گیا ہے۔ اب وزیر داخلہ نے اس ’’ شوشہ ‘‘
کو کسی نامعلوم قوت کے ساتھ جوڑ کر ایم کیو ایم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا
لیا ہے۔
نئی نویلی دوستی کا مظاہرہ کل سندھ اسمبلی میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں ایم
کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے مل کر الطاف حسین کی
60 ویں سالگرہ پر مبارکباد اور نیک خواہشات کی قرارداد منظور کی اور کورس
میں ’’ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ‘‘ بھی گایا گیا۔ دوستی کا یہ مظاہرہ اس لئے
ممکن ہؤا تھا کیونکہ حکومت نے پولیس افسروں کو قتل کرنے کے الزام میں
گرفتار ہونے والے ایک سابق ایم پی اے کو رہا کر دیا تھا۔ تازہ پولیس رپورٹ
کے مطابق ندیم ہاشمی کے خلاف غلطی سے ایف آئی آر کاٹ دی گئی تھی۔ ندیم
ہاشمی کی گرفتاری پر ایم کیو ایم نے ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران بھی کراچی کو
اوندھا کر دیا تھا۔ املاک کے نقصان سے قطع نظر اس احتجاج میں جو ایک ’’ بے
گناہ ‘‘ کی حفاظت کے لئے کیا گیا تھا جس4 شہری بھی جاں بحق ہو گئے تھے۔
پاکستان کے کئی اینکرز یہ پوچھتے رہے کہ ان ناحق مارے جانے والوں کا خون کس
کے ہاتھ پر ہو گا لیکن اس سوال کا جواب نہ پا کر خود ہی اپنا سا منہ لے کر
رہ گئے۔اسی ندیم ہاشمی کی رہائی پر ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ
(ن) بھائی بھائی ہو گئے ہیں۔ انصاف کا بول بالا ہو گیا ہے اور کراچی کا
ٹارگٹڈ آپریشن بھی ‘‘مشرف بہ اسلام‘‘ ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود اگر ملک کے
وزیر داخلہ قومی اسمبلی کے فلور پر یہ دعویٰ کریں گے کہ انتہا پسندی کے
خلاف جدوجہد میں حکومت کسی سیاسی مفاہمت سے کام نہیں لے گی تو اس پر یقین
کر لینے کے سوا چارہ ہی کیا ہو گا۔
میڈیارپورٹ کے مطابق گزشتہ روز کراچی میں امن و امان کے حوالے سے ایک مقدمہ
کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے فرمایا کہ 90 ء کی دہائی
میں کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسروں کو بعد میں چن چن کر قتل
کیا گیا۔ پولیس اور حکومت آج تک ان کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگا سکی۔ حکومت
کے نمائندے اس استفسار کے جواب میں موجودہ ایکشن کے شاندار نتائج سے عدالت
کو آگاہ کرتے رہے۔
ہم ان سطور میں لکھ چکے ہیں کہ کراچی میں کی جانے والی کارروائی کے حوالے
سے سیاست کا آغاز تو اسی وقت ہو گیا تھا جب چوہدری نثار علی خان نے اس
مبینہ ایکشن کو آپریشن قرار دینے کی بجائے’’ ٹارگٹڈ آپریشن ‘‘ کہنے پر
اصرار کیا تھا۔ یہ لفظوں کا ہیر پھیر بے معنی یا بے مقصد نہیں تھا۔ وزیر
داخلہ اب بھی یہ فرما رہے ہیں کہ اڑھائی سو کے قریب ٹارگٹ کلر شمالی
وزیرستان چلے گئے ہیں۔ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے کہ جن مجرموں کی منزل مقصود
کا وزیر داخلہ کو علم ہے ، انہیں ان کی روانگی کی کیوں خبر نہ ہو سکی۔
حکومت نے کراچی کا ایکشن شروع کرنے سے قبل 800 خطرناک مجرموں کی فہرست جاری
کی تھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وزیر داخلہ باقی ماندہ ساڑھے پانچ سو مجرموں کے
بارے میں بھی بتا دیں کہ وہ کہاں ہیں۔ یا انہوں نے صرف شمالی وزیرستان کی
سرحد پر نگرانی کے لئے کیمرے لگائے ہوئے ہیں۔یہ اطلاعات سامنے آ چکی ہیں کہ
حکومت کے فہرست جاری کرنے سے پہلے ہی یہ مطلوبہ لوگ زیر زمین جا چکے تھے۔
یعنی انہوں نے ایسی پناہ گاہوں میں ٹھکانہ کر لیا تھا جہاں پولیس اور
سکیورٹی ایجنسیز کو دسترس حاصل نہیں ہے۔ ان میں شمالی وزیرستان محض ایک
ٹھکانہ ہو سکتا ہے۔ |