ہر حال میں مقتل ہی مقدر ہے ہمارا

یاسین بھٹکل کے اعترافِ جرم کے بعد بھی حمایت بیگ قصوروار؟

جس وقت یاسین بھٹکل این آئی اے کی تحویل میں جرمن بیکری میں بم دھماکہ کرنے کا’ اعتراف‘ کررہا تھا اور اس معاملے میں اس کے’ ماسٹر مائنڈ‘ ہونے کی خبریں میڈیا چٹخارے لے لے کر بیان کررہا تھا ، اس وقت میڈیا کی گہماگہمی سے دور ممبئی کی آرتھر روڈ جیل کے ایک تاریک کمرے کے کھردرے فرش پر بیٹھا ایک نوجوان ہائی کورٹ میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے عدالت میں اپنی پیشی کا منتظر تھا۔ اس نوجوان کو نچلی عدالت نے عمر قید اور پھانسی کی سزا سنائی ہے جسے اس نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے ،جہاں اس کی سماعت جاری ہے ۔ اس نے عدالت میں اپنے وکیل کے ذریعے اس پورے معاملے کی ازسرِ نوتفتیش کی درخواست بھی دائر کررکھی ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اسے غلط طریقے سے پھنسایا گیا ہے اور اس کا اس جرم سے کوئی واسطہ نہیں ہے جس میں اسے نچلی عدالت سے سزا سنائی گی ہے۔

یاسین بھٹکل کے حوالے سے انڈین مجاہدین کی تشکیل اور مسلم نوجوانوں کی اس میں شمولیت کی کہانیاں پیش کرنے کی جب میڈیا میں ہوڑسی لگی ہوئی تھی اور بین السطورمسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششیں جاری تھیں ، عین اسی دوران تفتیشی ایجنسیوں کی جانب سے مذکورہ نوجوان کے بارے میں یہ خبریں بھی کچھ اخبار ات اپنے صفحات پر پیش کررہے تھے کہ و ہ جرم کا ماسٹر مائنڈ نہیں ہے بلکہ اس جرم کا شریک ہے۔ اس وقت اس نوجوان کو اس بات کا ذرا بھی اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ جیل کی اس کال کوٹھری کے باہر کوئی اور اسی جرم کو انجام دینے کا اعتراف کررہا ہے جس جرم میں عدالت نے اس کے لئے سزائے موت تجویز کی ہے۔ اس بدنصیب نوجوان کا نام حمایت بیگ ہے جسے جرمن بیکری بم دھماکہ معاملے میں تفتیشی ایجنسی نے گرفتار کیا اور اس کے خلاف عدالت میں دوہزار سے زائد صفحات پر مشتمل فردِجرم عائد کی ،جس کی بنیاد پرعدالت نے اسے پھانسی وموت کی سزاسنادی ہے۔

جرمن بیکری بم دھماکہ معاملے میں یاسین بھٹکل کے مبینہ ’اعترافات‘ نے دھماکے کی تفتیش ،حمایت بیگ کی گرفتاری اور عدالت کے ذریعہ اسے مجرم قرار دینے کے پورے عمل کونہ صرف ریت کا ایک گھروندہ بنادیا ہے بلکہ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ جرمن بیکری بم دھماکہ کا اصل ’مجرم‘ کوئی’ اور‘ ہے اورحمایت بیگ کو اس معاملے میں پھنسایا گیا ہے ۔یہ باتیں صرف یاسین بھٹکل کے مبینہ اعترافِ جرم کے بعد ہی نہیں بلکہ جس وقت پونے کی سیشن عدالت نے حمایت بیگ کو پھانسی اورعمر قید کی سزا سنائی تھی، اسی وقت سے مختلف سطحوں پر اٹھنے لگی تھی کہ حمایت بیگ بے قصور ہے۔مشہور تحقیقی رسالہ ’تہلکہ‘ کے رپورٹر آشیش کھیتان نے تومئی 2013 میں ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کرکے اس تعلق سے اپنی تحقیق کو پیش کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حمایت بیگ بے قصور ہے اور اسے تفتیشی ایجنسیوں نے پھنسایا ہے ۔ اس کے علاوہ 20ستمبر 2013کو ممبئی کے مراٹھی پترکار سنگھ میں آشیش کھیتان نے ان گواہوں کا اسٹنگ آپریشن پیش کیا تھا جن کی گواہی پر حمایت بیگ کو عدالت نے سزا سنائی ہے۔ یہ تمام گواہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اے ٹی ایس کے اہلکاروں نے ان سے زبردستی اپنی مرضی کے مطابق گواہی دینے پر مجبور کیا تھا اور اس کے لئے انہیں ٹارچر بھی کیا تھا ۔(دیکھئے www.gulail.com)

ممبئی ہائی کورٹ میں جاری حمایت بیگ کے مقدمے کی سماعت کے دوران بھی یہ بات واضح طور پر سامنے آئی تھی کہ اسے صرف بلی کا بکرا بنایا گیا ہے اورنہایت منصوبہ بند طریقے سے اسے ’فٹ‘ کیا گیاہے۔ حمایت بیگ کو جس جرم میں نچلی عدالت کی جانب سے پھانسی اور عمر قید کی سزا ملی ہے ، اسی جرم کے تعلق سے نئے حقائق کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس معاملے کی ازسرِ نو تفتیش کی جاتی مگر ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے اور گمان غالب ہے کہ ایسا کچھ ہوگا بھی نہیں۔یوں بھی مہاراشٹر کے وزیرداخلہ آر آر پاٹل نے 16ستمبر2013کو اور مرکزی وزیرداخلہ سوشیل کمار شندے نے اس کے دو روز بعدیعنی کہ 19ستمبرکو جرمن بیکری معاملے کی ازسرِ توتفتیش کے امکان کو سرے سے خارج کردیاہے۔اگر اس کی دوبارہ جانچ ہوتی تو یقینی طو رپر حمایت بیگ کی گرفتاری اور تفتیشی ایجنسیوں کی متعصبانہ دھاندلی کے ساتھ ساتھ یاسین بھٹکل کے مبینہ اعتراف کی حقیقت بھی عوام کے سامنے آجاتی۔

جرمن بیکر ی بم دھاکہ معاملے میں تفتیشی ایجنسیوں کی دھاندلی ،دعوں اور تضادات کو ہم کئی بارقارئین کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں ۔ہم یہ بھی بتاچکے ہیں کہ حمایت بیگ کی بے گناہی ثابت کرنے والا واحد شخص قتیل صدیقی تھا جس کا پونے کے یروڈہ جیل میں 8جون2012کو قتل کردیا گیا تھا۔دوسرا شخص جوحمایت بیگ کی اس معاملے میں شمولیت کو اجاگر کرسکتا تھا وہ یاسین بھٹکل تھا جو اس وقت مفرور تھا۔اگر حمایت بیگ کو سزا سنائے جانے سے قبل یاسین بھٹکل گرفتار ہوگیا ہوتا تو اس پورے معاملے کی اصلیت اجاگر ہوگئی ہوتی اور بہت ممکن تھا کہ حمایت بیگ کے تعلق سے عدالت کا رویہ کچھ اور ہوتا ۔خیر! اب جبکہ 29اگست2013کو یاسین بھٹکل کی گرفتاری ہوچکی ہے اور اس نے جرمن بیکری دھماکہ کا اعتراف بھی کرلیا ہے توپر اب نہ صرف یہ کہ حمایت بیگ اس پورے معاملے میں کہیں نظر نہیں آرہا ہے بلکہ تفتیشی ایجنسی اپنی ہی تفتیش کی جال میں الجھتی ہوئی محسوس ہونے لگی ہے ۔ واضح رہے کہ ستمبر2010میں حمایت بیگ کی گرفتاری کے بعد حمایت بیگ کو دھماکے کا ماسٹر مائنڈ بتایا گیا تھا ۔ اس تعلق سے جو خبر میڈیا میں آئی وہ یہ تھی کہ ’لاتور ضلع کے اودگیر کے گلوبل سائبر کیفے میں دھماکے کی سازش رچی گئی تھی، جہاں حمایت بیگ کی محمد احمد جرارصدیقی اور یاسین بھٹکل کے ساتھ 3 فروری 2010 کو ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ 7 فروری 2010 کو حمایت بیگ اور یاسین بھٹکل نے سائبر کیفے میں دھماکہ خیز مادہ جمع کیا تھا، جس کا استعمال13 فروری 2010 کو جرمن بیکری دھماکہ میں کیا گیا تھا‘۔(تفصیل کیلئے دیکھئے آئی بی این-7،8ستمبر2010)

جمعیۃ علماء (محمود مدنی ) کے ذریعے ہائی کورٹ میں چیلنج حمایت بیگ کے مقدمے کی پیروی کرنے والے سپریم کورٹ کے مشہور وکیل محمود پراچا توحمایت بیگ پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کئے جانے پر ہی معترض ہیں۔ ایک ماہ قبل جب وہ حمایت بیگ کے مقدمے کی پیروی کے لئے دہلی سے ممبئی تشریف لائے تھے تو میری ان سے اس تعلق سے طویل گفتگو ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بغیر مرکزی حکومت اور چیف جسٹس کی اجازت کے کسی پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا ہی نہیں جاسکتااور حمایت بیگ پریواے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنے میں نہ مرکزی حکومت سے اجازت لی گئی تھی اور نہ ہی چیف جسٹس سے۔ خیر یہ تو قانونی اور عدالتی معاملے ہیں،جس پرگفتگو مجھ جیسے کم علم کیلئے کسی طور مناسب نہیں ہے ۔مگر یاسین بھٹکل کے مبینہ’اعترافِ جرم‘کے بعد اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس پورے معاملے کی ازسرِ نو تفتیش کی جائے ۔اس ازسرِ نو تفتیش سے صرف یہی نہیں کہ جرمن بیکری بم دھماکہ کی اصل حقیقت اجاگر ہوجائے گی ، بلکہ اس سے ایک بے قصور کی بے قصوری بھی ثابت ہوجائے گی، جس کے لئے پھانسی کا پھندہ طئے کیا جاچکا ہے۔ لیکن مرکزی وریاستی وزرائے داخلہ کے رویوں نے انصاف پسندوں کو اس تعلق سے مایوس کردیا ہے۔

یاسین بھٹکل کی گرفتاری اور جرمن بیکری کے تعلق سے اس کے انکشافات سے اگر حمایت بیگ کی بے قصوری ثابت ہوتی ہے تو وہیں یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ این آئی اے ابھی بھی بہت حد تک آئی بی کی گرفت سے آزاد ہے۔ کیونکہ ملک کی بیشتر تفتیشی ایجنسیوں کی زمامِ کار کسی نہ کسی طور پر آئی بی کے ہاتھ میں ہے اورآئی بی جس طرح چاہتی ہے، تفتیش اسی رخ پر مڑجاتی ہے۔ اب اگر ایسے میں ملک کی ایک اور تفتیشی ایجنسی آئی بی کے طئے کردہ نتائج کے برخلاف کوئی اور انکشاف سامنے لاتی ہے تو یہ آئی بی کے لئے بھی تضحیک کاباعث ہے۔ ایسی صورت میں اس بات کا امکان کم لگتا ہے کہ حمایت بیگ کے تعلق سے آئی بی یوٹرن لے اور علانیہ اپنی تضحیک کرائے۔مگر چونکہ ملک میں عدالتی نظام بھی رائج ہے ، اس لئے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ عدالت آنکھ موند کر تفتیشی ایجنسیوں کے دعوں پراعتماد کرلے گی۔ اس سے جو تصویر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ حمایت بیگ کی بے قصوری ایک نہ ایک دن ضرور ثابت ہوجائے گی ، بھلے ہی اس میں کچھ وقت لگے۔ مرکزی وریاستی وزرائے داخلہ کی جانب سے جرمن بیکری دھماکہ کی ازسرِ نو تفتیش کے امکان کو خارج کئے جانے کے پسِ پشت دراصل آئی بی کی بریفنگ کارفرما ہے۔ کیونکہ سرکاریں اس طرح کے معاملات میں اپنے طور پر فیصلہ لینے کے بجائے متعلقہ ایجنسی سے صلاح ومشورہ ضروری سمجھتی ہیں۔ اس لئے یہ بات صاف طور پر سمجھ لینی چاہئے کہ مرکزی وریاستی وزراء داخلہ نے جرمن بیکری کے تعلق سے جوبیانات دئے ہیں وہ آئی بی کی منشاء پر دئے ہیں ۔ اس سے این آئی اے اور آئی بی کے درمیان کی پیشہ وارانہ چپقلش بھی کچھ حد تک واضح ہوتی ہے۔

اس کے باوجود حکومتیں اپنے اختیارات کے مطابق فیصلہ کرنے میں مکمل طور پر آزادہوتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ این آئی اے کے انکشافات کے بعد مرکزی وریاستی حکومتیں اس معاملے میں اپنے اختیارات کا استعمال کرتیں مگر ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ اور یہ اس لئے بھی نہیں ہوا کہ معاملہ ایک مجبور قوم کے ایک مجبور نوجوان کے تعلق سے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مرکز اور ریاست دونوں جگہوں پر سیکولر پارٹی کی حکومت ہے اور دونوں وزرائے خارجہ کا تعلق انہیں پارٹیوں سے جو مرکز اور ریاست میں ِ اقتدار میں شریک ہیں۔ سیکولرازم کے دعوے کے باوجود ان حکومتوں کا مسلمانوں کے تعلق سے جو رجحان سامنے آرہا ہے وہ نہایت تشویشناک ہیں۔خاص طو ر سے دہشت گردی کے معاملات میں مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کا جو عمل جاری ہے، اس نے پوی مسلم اقلیت کو مشکوک بنادیا ہے ۔(واضح رہے کہ ممبئی کے چوراہوں اور نکڑوں پر انعامی مسلم ملزمین کی تصویریں ضرور لگتی ہیں مگر مالیگاؤں دھماکوں میں مفرور انعامی ہندوؤں کی کوئی تصویر نہیں لگائی گئی ہے ۔)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تفتیشی ایجنسیاں ہی جس کو قصور وار بتائیں وہی قصور وار ٹھہرے تو ان تمام عدالتی کارروائیوں کی کیا ضرورت ہے؟ کیا ہماری حکومتوں میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں ہے کہ جب یاسین بھٹکل کے ذریعے جرمن بیکری دھماکہ کرنے کا اعتراف سامنے آگیا ہے تواس تعلق سے اس پورے معاملے کی ازسرِ نوتفتیش کرکے اصل حقیقت کو سامنے لاسکے؟ کیا ہماری ان سیکولر حکومتوں کے یہاں بھی پولیس وتفتیشی ایجنسی کا مورال کسی بے گناہ کو سزا دئے جانے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزرائے داخلہ انصاف کے اس بنیادی اصول سے ناواقف ہیں کہ بھلے ہی سو مجرموں کو سزا نہ ملے ،مگر کسی ایک بے قصور کو سزا نہیں ملنی چاہئے؟۔

حمایت بیگ کا معاملہ تو بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح ہے۔ ہائی کورٹ میں حمایت بیگ کی جانب سے ازسرِنوتفتیش کی جو درخواست داخل کی گئی ہے ، اس میں واضح طور پر تفتیشی ایجنسی کی زیادتی کا ذکر کیا گیا ہے ۔مگر ہمارے وزیرداخلہ شایدیہ طئے کئے بیٹھے ہیں کہ تفتیشی ایجنسی نے جو کیا ہے وہ غلط نہیں ہے۔ جبکہ اسی جرمن بیکری کے معاملات کو ملک کی ایک اور ایجنسی نے اپنے اپنے طور پر حل کرلینے کا دعویٰ کیا تھااور دونوں کے دعوں کا تضاد اسی وقت ابھر کر سامنے آگیا تھا جب قتیل صدیقی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یاسین بھٹکل کے اعترافِ جرم سے حمایت بیگ بے قصوری واضح ہوئی ہے ، مگر حکومت ہے کہ پھر بھی اسے پھانسی کے پھندے تک پہنچانے پر بضد معلوم ہوتی ہے۔ یہ تو غنیمت ہے کہ عدالتی سسٹم پر حکومتیں اثرانداز نہیں ہوپاتی ہیں ، ورنہ حمایت بیگ جرمن بیکری دھماکے کا18واں مہلوک کب کا بن چکا ہوتا۔یہ ایک صریح ناانصافی ہے اور اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند ہونی چاہئے ۔حمایت بیگ اگر واقعی مجرم ہے تو اسے قرارواقعی سزاملنی ہی چاہئے ، مگر جب اسی معاملے کا ایک ملزم اس کی شمولیت کا منکر ہو تو پھر اس معاملے کی ازسرِ نو تفتیش کیوں نہ کرائی جائے ،جس سے حقیقی صورت حال واضح ہوسکے۔

Azan Shahab
About the Author: Azan Shahab Read More Articles by Azan Shahab: 7 Articles with 3948 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.