کیا طالبان اسلام آباد میں ڈیرے ڈال چکے ہیں؟

 اخباری خبروں کے مطابق پشاور میں افغانستان کی موبائل فون سمیں سرعام فروخت ہورہی ہیں اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی دارالحکومت بھی بھتہ خوروں کے نرغے میں ہے ، لوگوں کو افغانستان کے نمبر سے فون کر کے دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ان دھمکیوں سے تنگ آ کر سینیٹر نجمہ حمید کے عزیزوں نے پاکستان چھوڑ دیا ہے جبکہ آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ دھمکی آمیز کالز پر افغان حکومت سے رجوع کریں۔حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والی مسلم لیگ ن کی خاتون سینیٹر نجمہ حمید نے اجلاس میں انکشاف کیا کہ بھتہ خوروں سے اسلام آباد بھی محفوظ نہیں ہے ، بین الاقوامی گروہ کروڑوں روپے طلب کررہا ہے ، انہوں نے اجلاس میں بتایا کہ ان کے عزیزوں کو بھتے کیلئے افغانستان سے کالز موصول ہوئیں،انہیں مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں جس پر وہ تین کروڑ روپے دینے پر آمادہ بھی ہوگئے ، اب دھمکیوں کے ڈر سے اسلام آباد سے دبئی منتقل ہوگئے ہیں ۔ اس واقعے کی اطلاع آ ئی جی اسلام آباد کو دی گئی تو انہوں نیبے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کوئی جواب نہ دیا۔ اجلاس میں طلب کئے گئے آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے بتایا کہ افغانستان کے نمبر سے کالیں آرہی ہیں ، یہ ہمارے بس میں نہیں ، جنہیں دھمکیاں ملیں، انہیں تحفظ دے سکتے ہیں ۔ چیئرمین کمیٹی طلحہ محمود نے تجویز دی کہ اگر افغانستان سے بھتے کی کالیں آ رہی ہیں تو افغانستان سے موبائل کی رومنگ بند کردی جائے ۔ جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ باہمی معاملہ ہوتا ہے ،رومنگ کو بند نہیں کیا جاسکتا۔آئی جی نے کہاکہ افغان حکومت کو خط لکھیں اور انہیں شکایت کریں اور وہ ان نمبروں کو ٹریس کرکے ایکشن لے ۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے لاہور میں نجی ٹرین میں حادثے کے تحقیقات میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ ادارے کو افغانستان سے بھتے کی کالز موصول ہوئیں ۔ کراچی پہلے ہی اس بھتے کی لعنت سے سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ گزشتہ روز راولپنڈی میں چند افراد کو بھتے کے الزام میں پکڑا گیا اور ڈہوک حکمداد کے علاقے میں دس ہزار روپے بھتہ نہ دینے پر ایک سموسہ فروش کو قتل کر دیا گیا ۔اس حقیقت سے اب زیادہ دیر تک آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں کہ نہ صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بلکہ راولپنڈی اور جڑواں شہروں کے نواحی علاقوں میں بھی بھتہ مافیا خاصہ متحرک ہوچکا ہے اور بعض واقعات نے پولیس دانستہ طور پر بھتہ کی وارداتوں کو لین دین کا تنازعہ ظاہر کرکے پردہ پوشی کر لیتی ہے مگر کراچی کے بعد اسلام آباد اورپنجاب کے دیگر شہروں میں بھتے کی پرچیاں ملنا معمول بنتا جا رہا ہے ۔سینکڑوں واقعات رپورٹ تک نہیں ہوتے کیو نکہ تاجر طبقے نے اپنا کاروبار چلانا ہوتا ہے اور پھر بھتہ دینے والوں نے اپنے خالص منافع کا یہ نقصان بھی تو صارفین سے ہی پورا کرنا ہوتا ہے اور کرتے بھی ہیں لیکن اس دلخراش اور افسوسناک حقیقت سے کیسے نظریں چرائی جائیں کہ اپنی ہی حکومت کے دور اقتدار میں حکومتی جماعت کی ایک سینیٹر کے عزیزوں کو اپنا پیارا وطن چھوڑ کر دیار غیر میں اس لئے پناہ لینا پڑی کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی انکی عزیزہ ان کو بھتہ مافیا سے نہ بچاسکی ۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت بھتہ خوری کو بھی سنگین جرم قرار دے اور اس کی سزاء موت نہ سہی عمر قید،کوڑے اور جائیداد ضبطی کی صورت میں دینے کیلئے قانون سازی کرے ۔اطلاعات کی مطابق ٹیکس دہندگان کی طرف سے کروڑوں روپے کی ادائیگی کے باوجود نہ صرف پولیس بلکہ تمام خفیہ ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے طالبان کی طرف سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا سراغ لگانے میں نا کام ہوچکے، سرکاری دستاویزات کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران جڑواں شہروں کے تاجر طالبان کو پینسٹھ کروڑ روپے اداکر چکے ہیں، اربوں روپے کی ادائیگی کی پولیس اور خفیہ اداروں کو رپورٹ ہی نہیں کی گئی اور تاجروں نے اپنی جان بچانے کے لئے طالبان کے ساتھ خفیہ ڈیل کی، راولپنڈی اور اسلام آباد میں تاوان اور بھتہ کے پینتالیس واقعات ہوئے جن میں طالبان کو پینسٹھ کروڑ روپے اداکئے گئے جبکہ اربوں روپے کا ابھی کوئی سراغ نہیں ہے۔گزشتہ سال جنوری سے پینتالیس واقعات میں چار تاجروں کو طالبان کے مطالبات پورے نہ کرنے پر قتل کیاجا چکا ہے بہت سوں کو رہا کردیاگیا ہے جبکہ کچھ کو تاوان کی ادائیگی کے باوجود رہا نہیں کیاگیا کچھ واقعات میں پولیس نے چند گرفتاریاں بھی کی ہیں۔ محمد صدیق ، حاجی فیض اﷲ، حاجی فراز ، سخی جان کوقتل کردیا گیا ۔اس تمام تر صورتحال میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو اپنی پوری توجہ اس کے سدباب اور یقینی خاتمے کی طرف دینا ہوگی اور اداروں کی روائتی رپورٹوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کیس ٹو کیس پراگریس طلب کرنا ہوگی اس مقصد کیلئے پولیس اور انٹیلی جنس کے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جائیں تو بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ۔جس ملک میں عوامی نمائندے اپنے عزیزوں کو بھتہ مافیا سے نہ بچا اور چھڑاسکیں وہاں عام شہری،تاجر اور کسی بھی عام شخص کے محفوظ رہنے کی کیا گارنٹی دی جاسکتی ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد میں بھتہ مافیا کی بڑ ھتی ہوئی سرگرمیاں ،طالبان کی پیشقدمی کی خشت اول ہیں اور اس حوالے سے حکومت اپنی رات دن کی نیند حرام کرکے دارالحکومت کو بچانے کی تدبیر کرے،تمام ممکنہ وسائل استعمال ،ٹیکنالوجی،آلات ،غرضیکہ جو بھی بن پڑے وہ کرے ۔جب فوج، پولیس، قانون نافذ کرنے والے ،تاجر اور سرمایہ کار محفوظ نہ رہیں اور بھتے کی رقم ریاست دشمن سرگرمیوں میں استومال ہو تو پھر سمجھ لیا جائے کہ پانی سر سے گزنا شروع ہوگیا ہے ۔اس سے پہلے کہ ایس ہوجائے حکومت موثر پیش بندی کرلے۔

Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 57759 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.