اہل جنوں کے دم قدم سے ہی بزم ہستی کاجمال
سرمدی ہے ۔جریدۂ عالم پر ان وفاکیش ہستیوں کی داستانیں ثبت ہیں جن کے نور
بصیرت نے ہمیشہ ظلمت کدہ دہر کو ضیابارکیا۔ جن کے نفس گرم سے دلوں کے اجڑے
دیار کو حیات نو کی خلعت عطاہوئی۔جن کے حسن تدبیر سے بھٹکے ہوئے آہوراہ یاب
ہوئے۔۔۔ جن کا ظاہری جمال بہار آفریں ٹھہرا اورباطنی کمال ،عالم میں ثبات
بہاراں کی نوید لایا ۔
سراج العارفین شہباز طریقت شارح مکتوبات امام ربانی حضرت علامہ ابوالبیان
پیر محمدسعیداحمد مجددی علیہ الرحمہ کی ذات کو ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔آپ
کی حکمت گفتگو فرزانگی کااعلیٰ نمونہ ہے اورجن کا قابل تقلید کردار دیوانگی
کاآئینہ دار ہے۔ صحرائے عشق ومستی کایہ پرعزم راہی ،عمر بھر سوئے منزل جادہ
پیمارہا ۔ اس راہ میں وہ آبلہ پاضرورتھالیکن نوک خارکی تیزی اس کی سرعت سیر
کو مسدود نہ کرسکی ۔وہ بے سروساماں ضرورتھا لیکن راستے کے نشیب وفراز اس کے
عزائم کو محدود نہ کرسکے۔ اس کا قلب وجگر مجروح ضرورتھا لیکن اس درد جراحت
کی شدت اسے راستہ بدلنے پرمجبور نہ کرسکی۔ اس کا وظیفہ صرف یہی تھا ۔
ع اے عشق آکہ بے سروساماں سفر کریں
معیار رفعت، معیار طاقت کامحتاج نہیں ہوتابلکہ قدرت کی طرف سے عطاہونے والی
صلاحیتوں کو منشاء خداوندی کے مطابق بروئے کارلانے کے صلہ میں مقام رفیع
پرفائز کردیا جاتا ہے کیونکہ
ع یہاں فقط سر شاہاں کے واسطے ہے کلاہ
یہ ایک لازمی حقیقت ہے کہ شخصیت کی تعمیر میں کسی مرددرویش کی تربیت اہم
کردار اداکرتی ہے، کسی شمس تبریز کی صحبت کاپرتوجمال ،آئینہ دل کو جلابخش
کرمولائے روم بنادیتاہے ۔ زبدۃ الاولیاء والا صفیاء حضرت قبلہ صوفی محمد
علی نقشبندی مجددی خلیفہ مجاز آستانہ عالیہ آلومہار شریف علیہ الرحمۃ کی
خصوصی توجہات نے حضرت ابوالبیان علیہ الرحمۃ والرضوان جیسے مرید رشید میں
مذاق سلیم پیدا کردیا ۔اس شیخ کامل نے اس زرخیز زمین میں عشق الہٰی وعشق
رسول کاپودا لگا کر کیف وسرور سے اس کی آبیاری کی ، جوایک عرصہ بعد آئین
جہاں بانی کاتن آور اور ثمربار شجر بن گیا ۔
حضرت ابوالبیان رحمۃاللہ علیہ کو اپنے پیرومرشد کے حسن تربیت نے اتناراست
باز اور آتش مجددیت میں غوطہ زنی نے اتنا کندن بنادیا کہ آپ کو عصر حاضر کے
خرقہ فروشان خانقاہ کا طرزعمل خوش نہ آیا۔ آپ بزم وحدت سے تیغ لاالہ لے کر
نکلے اورضرب الااللہ سے بتان جہاں کو پاش پاش کردیا۔آپ کی نوائے شوق سے
جہان شرک وبدعت میں ایک شور اٹھااور پھرہرطرف سراسیمگی پھیل گئی۔آپ نے اپنی
مستانہ نوائی سے خرافات والحاد کے حلقہء دام کوتوڑ کر قدم قدم پرعظمت اسلام
کویادگار بنادیا۔
خرقہ خلافت عطا ہونے کے بعد حضرت ابوالبیان علیہ الرحمۃ نے خلوت نشینی
پرپیغام رسالت نگرنگر پہنچانے کو ترجیح دی تاکہ سرکش ذہن، طاغوت سے رشتہ
ناطہ توڑ کر پھر سے حلاوت ایمان کے مزے لیں ۔اس اہم مشن کی ترویج وترقی کی
خاطر آپ نے شب وروز سفر کیا ،تین تین چارچار مقامات پربیانات توآپ کا معمول
تھا، اکثر نماز فجر سے قبل آپ اپنی رہائش گاہ مرکزی جامع مسجد نقشبندیہ بی
بلاک ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ واپس تشریف لاتے تو بدن تھکن سے چور چور
ہوتا۔تہجداورنماز فجر کے بعد اوراد ووظائف میں مشغول رہتے ۔پھرملاقات کرنے
والوں کا تانتا بندھ جاتاتو آپ ہر ایک سے بلاامتیاز ملتے۔ امیر، غریب
،چھوٹا، بڑاجوبھی آتاآپ تبسم ریز، دونوں ہاتھ واکیے اسے سینے سے لگاتے
،چھوٹوں پرہمیشہ دست شفقت رکھتے ۔ہرکوئی یہ محسوس کرتاکہ حضرت ابوالبیان
رحمۃاللہ علیہ نے مجھ پر اپنے کرم کی انتہا کردی ہے۔ آپ علیہ الرحمہ سادات
، مشائخ اورعلماء کاانتہائی ادب واحترام فرماتے ۔سراپا عجز بن کر ان کی
خدمت میں ارادتمندوں کی طرح دوزانوہوکر بیٹھتے۔ آپ کے انکسار اوراعلیٰ ظرفی
کی ان گنت مثالیں ہیں جوآپ کے عقیدت مندوں کیلئے مشعل راہ ہیں ۔
آپ کی عدم موجودگی میں اگر کوئی خادم یاطالب علم کسی کی مہمان نوازی میں
تساہل سے کام لیتااور یہ شکائت آپ تک پہنچ جاتی تو آپ مہمان سے معذرت
فرماتے اورغفلت کرنے والے کوبھی احساس دلانے کے سواکچھ نہ کہتے ۔مجھے یاد
ہے کہ ایک دفعہ خطیب العصر حضرت صاحبزادہ سیدافتخار الحسن شاہ فیصل آبادی
رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے تو اتفاق سے حضرت صاحبزادہ محمدرفیق احمد مجددی
بھی موجود نہ تھے ۔حضرت شاہ صاحب کے مقام ومرتبہ کے مطابق ان کی خدمت نہ
ہوسکی توانہوں نے حضرت ابوالبیان کے سامنے بھرپور شکوہ فرمایا ،توآپ نے اس
فروگذاشت پر معذرت کی اور مجھے بلاکر ارشاد فرمایا کہ حضرت شاہ صاحب کی
معقول عزت افزائی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے آپ نے برہمی کااظہار فرمایاہے
آئندہ آپ میں سے جوکوئی یہاں موجود ہو وہ مہمانوں کاخصوصی خیال رکھا کرے۔
آپ حضور ضیاء الامت پیرمحمد کرم شاہ الازہری قدس سرہ‘ العزیز سے انتہائی
عقیدت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے مرکزی جامع مسجد نقشبندیہ بی ماڈل
ٹاؤن گوجرانوالہ میں جامعہ مدینۃالاسلام کے نام سے دینی ادارہ قائم فرمایا
تواسے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کے ساتھ ملحق کردیا۔آپ اکثر حضور
ضیاء الامت کے مرتب کردہ نصاب تعلیم کے بارے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ
یہ نصاب تعلیم ولی کامل کامرتب کردہ الہامی نصاب ہے اوردور حاضر کی ضرورت
ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت اورقدر خود بخود آشکار ہوتی جائے
گی اور علماء اسی نصاب کو یااس سے ملتا جلتا نصاب تعلیم اپنے مدارس میں
رائج کرنے پر مجبور ہوں گے ۔
قارئین کرام!اس درویش کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ اس دور میں بھی حرف بحرف
سچے ثابت ہورہے ہیں۔
جامعہ ریاض المدینہ گوجرانوالہ کی زمین کی خریداری وتعمیر سے لے کر نصاب
تعلیم رائج کرنے تک مختلف مراحل میں آپ نے مرکزی کردار اداکیا اورانتہائی
انتھک اورپرخلوص کوشش فرمائی۔ یہ جامعہ عروج وزوال کے مراحل طے کرتا رہا
بالآخر اس جامعہ کاانتظام وانصرام دوبارہ حضرت ابوالبیان علیہ الرحمۃ کے
سپردکیاگیا ۔علالت کے پیش نظر آپ نے بطور معاون اپنے ہی ایک شاگرد حضرت
علامہ محمدنصرت اللہ مجددی کاانتخاب کیا جوآپ ہی کے قائم کردہ دارالعلوم
نقشبندیہ امینیہ کے ناظم اعلیٰ بھی ہیں آپ کے وصال کے بعداس جامعہ کانظم
ونسق انہی کے ہاتھوں میں ہے ۔
روحانی تربیت کے پیش نظر آپ نے اپنے مریدین ومتوسلین کو جمع فرماکر ادارہ
تنظیم الاسلام کی داغ بیل ڈالی۔الحمدللہ !اس ادارہ نے قلیل عرصہ میں اندرون
ملک اور بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور اس کی متعدد شاخیں قائم
ہوئیں جوانتہائی سرعت کے ساتھ ترقی کے مدارج طے کررہی ہیں۔
آپ کے روحانی واصلاحی دروس میں راقم الحروف کو شرکت کرنے کا موقع ملا تومیں
نے محسوس کیاکہ مصلح ومربی میں جن اوصاف کاپایا جانا انتہائی ناگزیر ہے وہ
تمام بدرجہ اتم آپ کی ذات میں موجود تھیں۔ آپ ادق مضامین کو نہایت سادہ
الفاظ اور دلنشین انداز میں سامعین تک پہنچااور سمجھا دیتے۔دروس تصوف کی
سماعت کے بعد محسوس ہوتاکہ واقعی کچھ حاصل ہواہے اوردل سے الائش دنیا کا
بارگراں کم ہواہے ۔مجالس ذکر وفکر کے بعد ہم نے بارہا مشاہدہ کیا کہ لوگوں
کا قلبی میلان عبادات کی طرف کچھ زیادہ ہی ہوجاتاتھا۔
جامعہ مدینۃ الاسلام کے ایک طالب علم عزیزم مولانا عابد حسین ہزاروی مجددی
تھے ان کے جی میں کیا آیا کہ تعلیم ترک کرکے کسی موٹر سائیکل مکینک کی خدمت
میں حاضرہوگئے۔ میں نے حضرت علامہ محمدنواز ظفر صاحب مدظلہ العالی سے مشورہ
کیا جو ان دنوں میرے ساتھ اسی جامعہ میں پڑھایا کرتے تھے ۔ آپ انتہائی قابل
اورمدبر قسم کے استاذ ہیں اورآج کل ادارہ منہاج القرآن لاہورمیں تدریس کی
ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور آپ نے بطور مشورہ مجھے فرمایا کہ بچہ قابل ہے
ضائع ہوجا ئے گا آپ اسے لے آئیں ۔میں گیا اور عزیز کو سمجھا بجھا کر لے آیا
اور اسے حضرت ابوالبیان کے حضور پیش کردیا اور عرض کی کہ اسکی قلبی وذہنی
تربیت فرمائیں۔ حضرت نے چند منٹوں میں اپنی خصوصی توجہ سے عزیز کے ذہنی
غبار کو بالکل صاف کردیا اور مجھے فرمانے لگے کہ آپ نے اسے ڈوبنے سے
بچالیا۔
اسی ضمن میں ایک اور واقعہ تحریر کیے دیتا ہوں مجھے جامعہ مدینۃ الاسلام کے
ناظم تعلیمات کی حیثیت سے جامعہ کے تدریسی انتظامات میں بسااوقات سخت موقف
بھی اپنانا پڑتا ۔ بعض لوگوں نے اپنے طور پر یہ گمان کرلیاکہ یہ شخص ہٹ
دھرم ہے ۔ حالانکہ فی الواقعہ ایسا نہیں تھا۔میں اصولوں پر عملدرآمداور
طلباء کو رعایت دینے میں یکسانیت کاحامی رہاہوں ۔ ایک دفعہ میرے بعض کرم
فرماؤں نے حضرت مجددی علیہ الرحمۃ کے پاس میرے اس رویے کی شکایت کی توآپ نے
مجھے طلب فرمایا ۔میرا موقف سن کر فرمانے لگے آپ کانظریہ بالکل درست ہے
لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فرمان کو بھی عملی طورپر اپنالو
’’یسرواولا تعسروا‘‘آسانی پیدا کرومشکل پیدانہ کرو۔
پھر کسر نفسی کے طو رپر فرمانے لگے کہ میں نے آپ سے بہت کچھ سیکھاہے ۔آپ
حضور ضیاء الامت کے پروردہ اور شاگرد خاص ہیں آپ جیسے لوگوں کی میں دل سے
قدر کرتاہوں۔ آپ گفتگو فرمارہے تھے اور میںآب دیدہ ہوکر سوچ رہا تھا کہ
کتنا دردہے انسانیت کیلئے انکے د ل میں ،کتنی چاہت ہے انہیں امت مصطفی سے
،کتنے مخلص ہیں اپنے ساتھیوں کیلئے ،کتنے قدرداں ہیں اصحاب علم کے ۔
اسی جامعہ میں عزیزم صاحبزادہ محمد رفیق احمد مجددی سجادہ نشین درگاہ حضرت
ابوالبیان، عزیزم مناظر اسلام علامہ صوفی محمد عباس رضوی (دبئی)‘ عزیزم
پروفیسر حافظ ابرار حسین ساقی گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ اورعزیزم مولانا
غلام مصطفی حنیف سب ہم درس تھے ۔ان سب کا علمی ذوق اورلیاقت مسلم تھی۔ حضرت
ابوالبیان نے تنہائی میں مجھے بلاکر فرمایا :مبارک ہو آپ کے یہ شاگردان
رشیدمستقبل میں ملت کاعظیم سرمایہ ثابت ہونگے میری نگاہ انہیں اقلیم علم
وحکمت کاتاجدار دیکھ رہی ہے بحمد ہ تعالیٰ آپ نے نور بصیرت سے جوکچھ دیکھا
وہ بالکل درست ثابت ہورہاہے ۔
آپ نے صاحبزادہ محمد رفیق احمدمجددی کاانتخاب بطور خلف الرشید فرمایا اور
عزیز کی تعلیم وتربیت پرخصوصی توجہ مرکوز کردی ۔ آپ مجھ سے اکثر فرمایا
کرتے تھے کہ آپ میری عدم موجودگی میں میرے اس عزیز کو زیادہ وقت اپنے ساتھ
رکھا کریں ۔اسے علم نہیں کہ کتنی ذمہ داریوں کابارگراں اس کے سر پر ہے ۔میں
اس کی صلاحیت ولیاقت کامعترف ہوں مجھے قوی یقین ہے کہ یہ بچہ مستقبل میں
ملت اسلامیہ کے لئے عظیم راہنما ثابت ہوگا۔
الحمد للہ حضرت ابوالبیان کے سجادہ نشین کے طورپر حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف
یہ ذمہ داری احسن طریقہ سے سرانجام دے رہے ہیں اورحضرت ابوالبیان کا فیضان
تقسیم فرمارہے ہیں۔ اللہ پاک ان کو مزید خیروبرکت سے نوازے اورعمر دراز
فرمائے۔آمین ثم آمین
عشق رسول حضرت ابوالبیان کاسرمایہ حیات تھا۔عمر بھر اسی سرمائے کو تقسیم
کرتے رہے اور یہی سرمایہ بطورمیراث اپنے ارادت مندوں کے لئے چھوڑ گئے ۔ آپ
نے عشق رسول سے اپنی خلوتوں کو معنبر ومنور کیا اوراپنی جلوتوں میں ذکر
رسول کی خیرات سے مسلمانوں کے دلوں کو گرمایا ۔ ارادت مندوں کا جم غفیر
ہویا نہاں خانہ دل کی تنویر ، محفل وعظ وتذکیر ہویاتقدس قرطاس تحریر، ہرجگہ
آپ ناموس رسالت کے پاسدار دکھائی دیتے تھے ۔اہل اللہ اس بات کے معترف ہیں
کہ آپ واقعی سچے عاشق رسول تھے۔ حضور ضیاء الامت کے خلیفہ مجاز پیرطریقت
حضرت علامہ سیدنذیر حسین شاہ صاحب مدظلہ العالی پرنسپل دارالعلوم محمدیہ
غوثیہ سیالکوٹ کینٹ نہایت ہی علمی وروحانی شخصیت ہیں گیارہ اگست ۲۰۰۲ء کو
حضرت قبلہ شاہ صاحب ،حضرت صاحبزادہ سید عارف بہاؤالحق شاہ صاحب ، حضرت
علامہ ظہور احمد بروہی صاحب اور راقم الحروف حضرت ابوالبیان کی نماز جنازہ
ادا کرچکے تو قبلہ شاہ صاحب فرمانے لگے ’’الحمداللہ ایک عاشق رسول کی نماز
جنازہ اداکرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
رب کائنات نے حضرت ابوالبیان علیہ الرحمۃ پراپنے کرم کی ہمیشہ بارش کی ایسے
محسوس ہوتاتھا کہ درمصطفی ا سے ان کی خصوصی تربیت کابندوبست کیاگیا ہے۔ آپ
نے محمدی خزانہ رحمت ورافت کو خوب لوٹا اور میخانہ وحدت کے ساقی کی عطا
کردہ شراب طہور سے اپنی تشنگی کو ہمیشہ کیلئے بجھا لیا۔
آپ جب بھی حج وعمرہ کی سعادت سے بہرہ ور ہوکر واپس تشریف لاتے توسابقہ
معمولات کے ساتھ ساتھ کئی نئے معمولات سے اپنے آپ کو مزین کیے ہوتے تھے۔
یقیناًیہ نوازشیں اور عنائتیں بارگاہ نبوی سے ہی عطاہوتی تھیں۔ آپ نے متعدد
مرتبہ اس بات کا اظہارتشکر کے طور پر راقم الحروف سے بھی کیا اور چند دیگر
راز داران طریقت سے بھی اس کاتذکرہ کیا کہ سبزگنبد کے والی کا ابر رحمت جس
قدر زور سے برسااسی قدر آپ کے خشوع وخضوع اور عجزوانکسارمیں اضافہ
ہوتاچلاگیا۔
قارئین کرام!عشق رسول میں ڈوبے ہوئے بیشمار بیانات اور تحریروں میں سے ایک
تحریر کا اقتباس خوابیدہ قلوب کو بیدار کرنے اور گرمانے کی غرض سے آپ کی
نذر کرتاہوں۔
وہ محبوب مطلق جس کی ہرادا محبوب خدا ، ہرنگاہ مرکز ہدی ، ہرعشوہ جان وفا ،
ہرجلوہ جہان سخا، ہرتیورکان حیا، ہردم دلربا، ہرقدم دلکشا ،ہرسخن
جانفزابلکہ سارابدن معجزہ نما۔۔۔جواٹھے توفلک کوعروج ملے ، بیٹھے تودھرتی
کو سکون ملے، پسینہ آئے توگلشن مہکنے لگیں ، مسکرائے تو ستارے چمکنے لگیں ،
لب ہلائے تو عنادل چہکنے لگیں، بات سنائے توپھول جھڑنے لگیں-
جس کے چہرے سے صبح کو سویراملے ، جس کی زلفوں سے شب کواندھیراملے، جس کے
تبسم سے جنت مچلنے لگے، جس کے غصے سے جہنم ابلنے لگے-
جواشارہ کرے تو آفتاب فق ہوجائے، جوانگلی اٹھائے توماہتاب شق ہوجائے
جوسراٹھاکے بولے توقرآن بنتا جائے، جوسرجھکاکے بولے توحدیث بنتی جائے۔
جو چادر اوڑھ کے لیٹے تو خدا پکارے۔۔۔۔۔۔ یایھاالمدثر
جو کمبل اوڑھ کر نکلے تو کہا جائے ۔۔۔۔۔۔ یایھاالمزمل
جس کے دانتوں کے چمکارے ۔۔۔۔۔۔ یٰسیٓن و طٰہٓ
جس کے چہرے کے نظارے ۔۔۔ ۔۔۔ والضحٰی
جس کی آنکھوں کا خما ر ۔۔۔۔۔۔ مازاغ البصر
جس کی زلفوں کا نکھار ۔۔۔۔۔۔ لیلۃ القدر
دنیا میں حسن یوسف کے چرچے ہیں لیکن حسن مصطفی کی جلوہ سامانیاں چودہ طبق
کومحیط ہیں، حسن یوسف میں صباحت غالب تھی اور حسن مصطفی میں ملاحت کاغلبہ
تھا ۔ حسن یوسف پہ نظریں جمتی نہ تھیں اورحسن مصطفی سے نظریں ہٹتی نہ تھیں۔
وہ حسین تویہ احسن ہیں، وہ شریف تھے تویہ اشرف ہیں وہ کریم تھے تویہ اکرم
ہیں ، وہ کامل تھے تویہ اکمل ہیں، وہ جمیل تھے تویہ اجمل ہیں ۔
حسن یوسف دیکھ کر مصر کی عورتوں نے انگلیاں کاٹ لیں مگر ایمان نہ لائیں اور
حسن مصطفی دیکھ کر عرب کے مرد ایمان پہلے لائے اور گردنیں بعد میں کٹائیں
‘‘
قارئین ذی وقار !ملت کے اس عظیم سپوت کو جتنا بھی خراج خلوص وعقیدت پیش کیا
جائے ،کم ہے۔ آپ کی حیات مستعار کوسامنے رکھ کر میں اس نتیجہ پرپہنچا ہوں
کہ حضرت ابوالبیان مظہر تسلیم ورضا بھی تھے اور وقار دست دعا بھی۔ آپ ماحی
دستور جفا بھی تھے اور حامی اقرار وفابھی، آپ مطلع ہدایت پرآفتاب بن کر
طلوع ہوئے اور اپنی حیات بخش کرنوں سے گیتی کے دروبام کومنور کرتے رہے ، آپ
اٹھے توبرق تپاں تھے، جس نے ملت کفر کی نگاہوں کو خیرہ کردیا آپ رکے توکوہ
گراں تھے جس نے حوادث اور طوفانوں کو راستہ بدلنے پرمجبور کردیا، یقیناًآپ
پھیلے توسمندر کی بے کرانیوں کومات کرگئے ،اورجو سمٹے توراہ حق میں اپنے
وجود کانذرانہ پیش کرگئے ۔
ع خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را |