افغانستان میں خلفشار بڑھنے سے طالبان مضبوط ہونگے

پروگرام ٹاپ سٹوری میں سمیع ابراہیم سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے واسع جلیل نے ظفر بلوچ کی ہلاکت پر کہاکہ پیپلز امن کمیٹی کالعدم تحریک ہے ، اس کا پس منظر مجرمانہ ہے ، ان کے مختلف گروپ ہوتے ہیں، کوئی بھی ایسی کارروائی کرسکتا ہے ، ہم تحقیقاتی اداروں پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اس کی تحقیقات کریں ۔انہوں نے کراچی آپریشن کے بارے میں کہا کہ متحدہ کا موقف تھا کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے ، آپریشن کا بہت واویلا کیا گیا لیکن جرائم پیشہ عناصر روپوش ہو گئے یابیرون ملک فرار ہوگئے اس کے باوجود وفاقی حکومت کا ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ احسن اقدام ہے ۔دیکھنا یہ ہے پولیس حکام اس کو کس طرح ہینڈل کرتے ہیں ،جس جگہ یہ واقعہ ہوا ہے وہاں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مارسکتانہ ہی کوئی باہر سے آکر کارروائی کرسکتا ہے ، یہ لیاری کے اندر سے ہی کارروائی ہوسکتی ہے ، اس سے پہلے بھی ان پر حملہ ہوا تھا ،وزارت داخلہ نے ان کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ ظفر بلوچ کی حیثیت امن کمیٹی کے ترجمان کی سی تھی۔انہوں نے کہا اس شہر کا المیہ یہ ہے کہ لوگوں نے فوائد اٹھائے ہیں لیکن شہر کی اونر شپ کوئی نہیں یہ ایک دن کا معاملہ نہیں آگے چل کر صورتحال بہتر ہوگی۔ واسع جلیل نے بتایا گورنر ڈاکٹر عشرت العباد اپنی اہلیہ کے علاج کے حوالے سے بیرون ملک چھٹی لیکر گئے ہیں ۔میڈیا میں قیاس آرائیاں ہیں ۔جو بھی صورتحال ہوگی ایم کیو ایم خود اس بارے میں میڈیا کو آگاہ کرے گی۔طالبان کیا چاہتے ہیں ؟ اس ضمن میں معروف تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے طالبان ایک نظریاتی تحریک ہے ان کی اپنی اسلامی سوچ ہے وہ چاہتے ہیں پاکستان میں اس سوچ کے مطابق سیاسی و معاشرتی نظام نافذ کیا جائے ۔ انہوں نے کہا ان کا ایجنڈا بڑا واضح ہے اور آجکل ہمیں ان میں اعتماد بہت زیادہ نظر آتا ہے کیونکہ انہوں نے چند ماہ میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔انہوں نے کہا امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں خلفشار بڑھا تو طالبان مضبوط ہوں گے اور پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان نے کہا کہ ہمیں سمجھنا چاہئے پاکستان کو جو خطرات ہیں وہ فاٹا یعنی علاقہ غیر کے اندر ہیں وہاں مختلف گروہ ہیں ایک گروپ یہ سمجھتا ہے پاکستان کے اسلامی ریاست کے خدوخال پورے نہیں ہورہے ۔دوسرے گروہ کا تعلق افغانستان سے ہے وہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی جنگ پاکستان کے اندر لائی جائے ،تیسرا جرائم پیشہ گروہ جس کا تعلق ڈرگ مافیا کے ساتھ ہے وہ اس نظریاتی پشت پناہی میں اپنے مفادات کو پورا کر رہے ہیں ۔دوسری طرف سابق جرنیل کہتے ہیں کہ طالبان کے جائز مطالبات ماننے میں کوئی حرج نہیں، دہشتگردی کیخلاف سب ایک ہو جائیں،دھمکی پر آپریشن کیا جائے ،بات چیت جاری رکھنی چاہیے ،مذاکرات باہر ہونے چاہئیں۔سابق جرنیلوں نے کہا ہے کہ بھارتی جارحانہ رویہ کے بعد ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے طالبان سے مذاکرات پاکستان کی بجائے بیرون ملک ہونے چاہئیں ۔ فوج کو میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو سخت جواب دیا جائیگا،طالبان کے جائز مطالبات ماننے میں کوئی حرج نہیں، لیکن بلیک میلنگ کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔جنرل اسلم بیگ کا کہنا تھا کہ کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے 17 مطالبات پیش کئے جا چکے ہیں، جبکہ میرا خیال ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے ، دونوں طرف سے افراد بیٹھ کر مذاکرات کریں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایک ہو جائیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ طالبان کی خبر آنے کے بعد کئی بار تردید کی جاتی رہی، گزشتہ روز آنیوالی خبر جھوٹ بھی ہو سکتی ہے ،جنرل فیض علی چشتی نے کہا کہ طالبان کو کون روک سکتا ہے ، جب گھر کی کھڑکی کھول کر رکھیں گے تو دہشت گرد آئیں گے ، جو گھر کے اندر آکر ہمارے لوگوں کو مارتا ہے ان کے خلاف آپریشن کیا جائے ، بزدلی کی انتہاء ہے کہ وہ گھر کے اندر آکر مار رہے ہیں، ہم انکی عزت کر رہے ہیں، مذاکرات کس سے کرنے جار ہے ہیں ان سے جو ہمارے لوگوں کو مارتے ہیں، اگر طالبان کی جانب سے کوئی ایسا بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے دھمکی دی ہے تو ان کے خلاف فوری آپریشن کرنا چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں ام کا کہنا تھا کہ فوج تو وہی کریگی جو حکومت کہے گی، وزیراعظم حکم دیں گے تو وہ آپریشن کریں گے ۔ آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل (ر)حمیدگل نے کہا کہ یہ ایک حکمت ہے ، اس وقت طالبان کے 30سے 32گروپ کام کر رہے ہیں، حکومت نے ان سے رابطے کئے ہیں، ملاقات ملک سے باہر ہونی چاہیے ، مذاکرات سے امریکہ خوش نہیں ، اور بعض طاقتیں مذاکرات کامیاب نہیں کرانا چاہتی ہیں۔ جنرل راحت لطیف نے کہا کہ طالبان کیساتھ بات چیت کرنے کا جو فیصلہ ہے اسے جاری رکھنا چاہیے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے بعد یہ ہماری فوج کا حصہ بن جائیں گے ۔ مطالبات ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں لیکن مانے سارے نہیں جاتے ہیں۔ملک میں دہشت گردی کے مسئلے پر جیو نیوز کے زیر اہتمام ایک مذاکرے کے شرکاکی رائے تھی کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں طالبان سے زیادہ پاکستانی عوام کا نقصان ہوا،اتنا نقصان بھارت سے تمام جنگوں میں نہیں ہوا۔ مذاکرے میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور تجزیہ کاروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ طالبان سے مذاکرات ناکام ہو جائیں تو پوری قوم آپریشن کی حمایت میں یکسو ہو جائے۔ واضح رہے کہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ میں پہلی بار ملک میں دہشت گردی کی تاریخ، وجوہات اور حل پر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں ، معتبر ترین اور تجزیہ کاروں کے ساتھ یہ سب سے طویل تاریخ ساز نشریات پیش کی گئیں ۔ طویل مباحثے میں پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی ، متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما وسیم اختر ، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما شاہی سید ، جے یو آئی ف کے رہنما محمد جمال الدین ، تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر ، اینکر پرسن سلیم صافی ، معروف کالم نگار و تجزیہ کار عرفان صدیقی ، دفاعی تجزیہ کار شہزاد چوہدری اوردفاعی تجزیہ کار محمود شاہ نے اپنے اپنے موقف کا اظہار کیا۔ شرکا کا اس بات پر بھی اتفاق تھا کہ پاکستانی ریاست نے پرائیویٹ جہاد کو خارجہ پالیسی کے ایک اہم وسیلے کے طور پر اپنائے رکھا جو پاکستان کے اندر بھی مذہبی دہشت گردی کا سبب بنا۔جے یو آئی کے رہنما محمد جمال الدین نے کہا کہ ریاست کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ اپنے مفادات کے تحت ایسی پالیسی اپنائے۔ تمام جماعتوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ پرائیویٹ جہادی تنظیموں کو دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کا پاکستان کو فائدہ نہیں نقصان ہوا۔ تاہم محمود شاہ کا کہنا تھا کہ شروع میں اِس کا فائدہ ہوا تھا۔ سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کی اکثریت کا موقف تھا کہ اِس جنگ میں پاکستانی عوام کا نقصان طالبان سے زیادہ ہوا۔ شاہی سید نے کہا کہ نقصان طالبان کا زیادہ ہوا کیونکہ ان کا ایمان چلا گیا۔پروگرام میں سیاسی جماعتوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ پاکستان میں 50 ہزار جانوں کے ضیاع اور ایک لاکھ ڈالر کے نقصان میں افغانستان کو اپنی اسٹریٹیجک ڈیپتھ سمجھنے کی پالیسی کا بھی قصور ہے۔ تمام فریقین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ پاک فوج طالبان کے خلاف کامیابی کی صلاحیت رکھتی ہے۔انہوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ پاک فوج اور طالبان کے درمیان معاہدے طالبان نے توڑے۔ تجزیہ کاروں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کچھ کارروائیوں میں القاعدہ بھی ملوث ہے۔ القاعدہ سے مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں، کیونکہ القاعدہ غیرملکی تنظیم ہے۔ بریگیڈیئر محمود شاہ نے کہا کہ جنرل ضیا الحق نے روس جیسی سپر پاور کے خلاف جہاد کو بطورحکمت عملی استعمال کیا۔ حامد میر نے پوچھا کہ کیا پرائیویٹ جہادی تنظیموں کو دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کا پاکستان کو کوئی فائدہ ہوا؟ سعید غنی نے اس سوال کا جواب ناں میں دیتے ہوئے کہا کہ فائدہ تو دور کی بات ہے ہمیں شدید ترین نقصان ہوا ہے۔ جو تنظیمیں ہم نے بنائیں وہ ہمارے گلے پڑگئی ہیں۔ شاہی سید نے کہا کہ پرائیویٹ جہاد ی تنظیموں کو استعمال کر کے ہمیں ایمان، دولت اور ریاست کا نقصان ہوا ہے۔ محمد جمال الدین نے اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان پر روسی قبضے کے بعد ہمارے لئے لازم تھا کہ ہم ان کی مدد کرتے۔ سعید غنی نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کوئی ایک تنظیم نہیں ہے۔ اس میں کچھ لوگ اپنے مذہبی نظریے کی بنیاد پر یہ سب کچھ کررہے ہیں مگر تحریک طالبا ن میں بہت سارے گروپس جرائم پیشہ ہی ہیں اورممکن ہے کہ بہت سارے گروپس کسی اور کے پے رول پر بھی کام کررہے ہوں ۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا زیادہ نقصان ہوا ہے، طالبان کے نقصان کو ہمیں مدنظر نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ وہ گمراہ ہیں اور پاکستانی ریاست اور عوام حق پر ہیں۔ شاہی سید نے کہا کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے طالبان کا نقصان زیادہ ہوا ہے، ان کا ایمان گیا ہے،آخرت اور زندگی دونوں تباہ ہوگئی ہیں جبکہ محمد جمال الدین ، سلیم صافی اور اسد قیصر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور طالبان دونوں کا نقصان ہوا ہے۔حامد میر نے اگلا سوال کیا کہ کیا دہشتگردی کیخلاف جنگ میں نقصان بھارت کے خلاف تمام جنگوں میں ہونے والے نقصانات سے زیادہ ہے؟تمام شرکا نے اس سوال کا جواب ہاں میں دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا نقصان بھارت کے خلاف جنگوں میں ہونے والے نقصان سے بہت زیادہ ہے۔ گھر کی جنگ باہر کی جنگ کے مقابلے میں بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔اس جنگ سے ہماری سوسائٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ حامد میر کے سوال کیا پچاس ہزار قیمتی جانوں اور ایک کھرب ڈالر کا نقصان محض تزویراتی گہرائی کے فلسفے کا بھی نتیجہ ہے؟ کا جواب سعید غنی ، وسیم اختر، شاہی سید ، محمد جمال الدین، سلیم صافی اور بریگیڈیئرمحمود شاہ نے ہاں میں دیا۔ شہزاد چوہدری نے ناں میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ساتھ اس کا تعلق ہی نہیں بنتا۔میزبان کاسوال تھا کہ کیا پاکستان کی ریاست کے پاس تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کے ذریعے کامیابی کی صلاحیت ہے ؟ تمام شرکا نے اس سوال کا جواب ہاں میں دیا۔ سعید غنی نے کہا کہ بھرپور صلاحیت ہے ،پہلے سوات آپریشن میں بھی اس صلاحیت کا مظاہرہ کیا گیا، وسیم اختر نے کہا کہ اگر تمام سیاسی مذہبی جماعتیں اور عسکری قیادت تہیہ کرلیں کہ ان سے نمٹنا ہے تویقینا ہم ہر صلاحیت سے مالامال ہیں ۔ شاہی سید نے کہا کہ اس صلاحیت میں کوئی شک نہیں ہے ہماری فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ایک ہے ۔ مولانا جما ل الدین نے کہا کہ صلاحیت یقینا ہے مگر کوشش کی جانی چاہئے مسئلہ کا حل مذاکرات سے نکل آئے۔ اسد قیصر نے کہا کہ صلاحیت ہونے میں کوئی شک ہرگزنہیں ہے مگر مذاکرات کے ذ ریعے عمل کوآگے بڑھایاجانا ضروری ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ صلاحیت یقینا ہے مگر طاقت کے استعمال کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے جس قومی اتفاق رائے اور یکجہتی اور یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہ پہلے تھی نہ آج ہے۔عرفان صدیقی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس بات میں بڑی حد تک صداقت ہے بلکہ اس میں یہ اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ طالبان کی ا سپرٹ پاکستان کے بارے میں بڑی ہمدردانہ تھی -
Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 58767 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.