ہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں کی
اکثریت جھوٹ بولنے والوں پر مشتمل ہے جو یہ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو
انہوں نے کرنا ہوتا ہے وہ یہ کہتے نہیں اس کی سینکڑوں مثالیں آ کے سامنے
ہونگی مگر ہم سب کوبھی جو ایک بڑی بیماری دیمک کی طرح اندر ہی اندر سے کھا
رہی ہے وہ ہے بھولنے کی بیماری ہم میں سے زیادہ تر تو ایسے ہیں جو پانچ منٹ
بعد ہی بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کی چابی کہا ں
رکھی تھی یا بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کال سننے کے تھوڑی دیر بعد ہی
ہم اپنا موبائل ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں اور ساتھ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ابھی تو
میں نے کال سنی تھی کہاں چلا گیا اور جب ایسے حالات ہوں تو پھر سیاستدانوں
کی پرانی باتوں کو کون یاد رکھتا ہے اسی لیے تو وہ بھی عوام کی نفسیات سے
کھیلتے ہوئے آئے روز کوئی نہ کوئی نیا وعدہ کرتے رہتے ہیں ملک کے کسی بھی
حصے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوجائے تو فوری طور پر بیان داغ دیا جاتا
ہے کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا نہ آہنی ہاتھ ہونگے نہ ان
سے نمٹا جائیگا الیکشن سے قبل موجودہ حکمران کہتے تھے کہ ملک لوٹنے والے
علی بابا اور چالیس چوروں کو سڑک پر گھسیٹیں گے اور ملک کو آئی ایم ایف کے
نرغے میں دینے والا کشکول توڑدینگے کوئی قرضہ نہیں لیں گے مگر ہوا اس کے
برعکس کیونکہ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے وعدے صرف محاورے ہیں جن کو
وہ بار بار دھرا کرعوام کو انکا سبق یاد کروارہے ہوتے ہیں اور یہ بیماری
صرف ہمارے نامی گرامی سیاستدانوں میں ہی نہیں بلکہ یہ وعدہ خلافی شہر کے
ایک کونسلر سے لیکر گاؤں کے ایک معمولی چوہدری تک سب میں درجہ بدرجہ ہر جگہ
موجود ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن اور بلخصوص لڑکپن کے دور میں اپنے
گاؤں میں جب کبھی جانا تو وہاں پر میں کرکٹ ٹیم کا حصہ ضرور بن جاتا تھا
اور پھر اکثر قریبی قریبی دیہات میں جاکر ٹورنامنٹ بھی کھیل لیا کرتے تھے
ہر میچ کا کوئی نہ کوئی مہمان خصوصی ضرور ہوتا تھا جو میچ کے آخر میں ایک
اچھی خاصی رقم کا اعلان کرتا تھا مگر میں نے آجتک وہ رقم کسی کو ملتے ہوئے
نہیں دیکھی اسی طرح کے کچھ اعلانات ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران بھی کرتے
آرہے ہیں جو صرف انکی طرف سے ایک اعلان ہوتا ہے اسکے سوا کچھ نہیں اور انہی
جھوٹے اعلانات کی بدولت ملک اور قوم کا برا حال ہوچکا ہے اغیار کی غلامی سے
نجات دلانے والوں نے ہمیں انکے پاس گروی رکھ دیا بیرونی قرضوں سے انکار
کرنے والوں نے سب سے پہلے اپنے پیٹ بھرنے کے لیے قرضے ہی لیے یہی وجہ ہے کہ
آج ہمارے حکمرانوں نے بیرون ممالک جائیدادیں بنا لی اپنے کاروبار باہر شفٹ
کرلیے جبکہ عوام کو دہشت گردوں اور اپنے بیرونی آقاؤں کے رحم کرم پر چھوڑ
دیا ملک کے ہر شہری کو قرضوں کی زنجیر میں جکڑ دیا تاکہ وہ کہیں بھاگ نہ
سکے ہمارے حکمران آئی ایم ایف کی جن شرائط پر قرضے لے رہے ہیں ان سے ہمارا
اقتصادی استحکام اور سماجی مساوات ختم ہورہا ہے اور اس کا نتیجہ ملک کے طول
وعرض میں بڑے پیمانے پربے چینی وبدامنی کے سوا کچھ اور نہیں نکل رہاجبکہ آج
تک آئی ایم ایف پر انحصارکرنے والے کسی ملک کی معیشت بہتر نہیں ہوئی کیونکہ
بین الاقوامی قرض دہندہ کا ایجنڈا بھوک و افلاس مسلط کرکے آزادی و
خودمختاری سلب کرنا ہوتاہے اسی لیے توآئی ایم ایف اصلاحات کا اقتصادی فائدہ
کم مگر اسکے اثرات عوام، معاشرے، معیشت اور کرنسی پر تباہ کن ہیں آئی ایم
ایف عالمی اجارہ داری یقینی بنانے کا آلہ ہے جسکے حربوں سے درجنوں ممالک
میں ارتکاز زر، ارب پتیوں کی تعداد، غربت، بے روزگاری اورامیر اور غریب کے
مابین خلیج بڑھ رہی ہے جبکہ ترقی پزیر ممالک میں اسکی رفتار تیز ہے۔آئی ایم
ایف کو مسیحا سمجھنے والی کسی ملک کی معیشت اور عوام کی حالت بہتر نہیں ہو
سکی ہے جبکہ آئی ایم ایف سے بار بار کے قرضوں نے ہمیں سماجی عدم تحفظ،
بدامنی اور دیگر مسائل سے دوچار کررکھا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہر حکمران
نے اکنامک منیجراور سینٹرل بینکر آئی ایم ایف کے نظریات کی بلا تعمل پیروی
کی اور انکے ہر فیصلے کو اقتصادی دلیل و ثبوت کے بغیر قبول بھی کرلیا اب
ہمیں بھی مان لینا چاہیے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے جال میں پھنسانے والوں کی
اقتصادی بصیرت وہ نہیں جس کاوہ دعویٰ کرتے ہیں ورنہ معیشت، عوام اور کرنسی
کا یہ حال نہ ہوتا اسکے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے
کہ آئی ایم ایف کے ریسکیو پیکچ غریب کی زندگی مشکل بناتے ہیں جبکہ امراء کی
عیاشیوں کے نئے راستے کھولتے ہیں جس سے معاشرہ توازن کھو دیتا ہے آئی ایم
ایف کی پالیسیاں زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہوتیں اور قرض مانگنے والے
ممالک سے مشاورت صرف دکھاوے کے لئے ہوتی ہے- |