من موہن سنگھ اور سونیا گاندھی کی امریکی عدالت میں طلبی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ماورائے عدالت قتل و غارت گری پر

بھارت دنیاکی واحد ریاست ہے جہاں اکثریت کے نام پر ایک قلیل ترین برہمن اقلیت برسراقتدار ہے۔ہندوستان میں بہت کثرت سے پائے جانے والے مذاہب اور پھر ان مذاہب میں ان گنت فرقوں کا وجود صدیوں سے بھارت کی تہذیب وتاریخ کا حصہ رہاہے۔ان لاتعداد گروہوں میں سے صرف ’’برہمن ‘‘وہ طبقہ ہے جس نے مذہبی کتب جیسی مقدس دستاویزات میں بھی نقب لگاکراپنے ناجائزحقوق بالادستی کو باقی طبقات انسانیت پربذریعہ چابک دستی مسلط کررکھاہے۔دنیاکی سب سے بڑی پارلیمانی حکومت میں اس طبقہ کی چیرہ دستیوں سے جہاں س کے ہم مذہب عوام نالاں و پریشاں ہیں وہاں باقی ماندہ اہلیان مذاہب کے بے بسی و تنگ دستی کیا کیاکہنا ہوگا۔ایک زمانے میں اس طبقے کے کارپرداران خود عنان ظلم و ستم سنبھالے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیکولزازم کے سکھائے گئے اسباق کی بدولت اب انہیں پسماندہ طبقات و زیرنگیں مذاہب کے ماننے والوں میں بھی اپنے آلہ کار مل جاتے ہیں جس کے باعث ’’برہمن‘‘وقتی طور پر دنیاسے اپنا چہرہ چھپانے میں کافی حد تک کامیاب ہو جاتاہے ۔خاص بھارت میں تواس طبقے کی مسلط کردہ غربت اور جہالت کے باعث گویا’’برہمن‘‘کا جادوسو سر چڑھ کر بولتاہے لیکن شعور و آگہی کی باقی دنیاؤں میں اس طبقے نے اپنے سیاہ کارناموں اور داغدار ماضی کی بدولت صرف بری شہرت اورذلت و رسوائی کاہی کسب کیاہے،جس کا مصدقہ ثبوت بھارتی قیادت کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران بھارتی حکمرانوں کے خلاف امریکی عدالت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی ایک مقدمہ کا اندراج ہے۔گویااب ظلم کی داستانوں کی گونج اوربہتے ہوئے انسانی خون کی رنگت مغرب کی وادیوں تک بھی جا پہنچی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکی عدالت نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور بھارتی کانگریس کی صدر سونیاگاندھی ،کہ جس کے خاندان کی گردن پر سینکڑوں یاہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کاخون ہے ،ان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عدالت میں پیش ہونے کے سمن جاری کئے ہیں۔یہ سمن25ستمبر2013کو امریکہ کی ایک ضلعی عدالت کے جج جیمز ای بوسبرگ(James E. Boasberg)کی عدالت سے جاری ہوئے،اورعدالت نے اپنے احکامات کی پیروائی کے لیے ایک سو بیس دنوں کی مہلت دی ہے جب کہ ان دنوں سمن جاری کیے گئے دونوں افراد امریکہ میں موجود ہیں،من موہن سنکھ سرکاری دورے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے اور سونیاگاندھی اپنے علاج کے لیے امریکہ میں مقیم ہیں۔ذرائع کے مطابق بھاری بھرکم حفاظتی اقدامات کے باعث چونکہ براہ راست سمن کی تعمیل ممکن نہیں اس لیے امریکی عدالت عالیہ سے درخواست کی جائے گی کہ امریکی صدر کے ملاقات کے دوران ایوان صدر کا عملہ من موہن سنگھ سے ان عدالتی احکامات کی تعمیل کرائے ۔جبکہ سونیاگاندھی کے بارے میں متضاد اطلاعات آرہی ہیں بعض ذرائع کے مطابق نیویارک شہر کے سلان کیٹرنگ اسپتال (Sloan Kettering hospital)میں دوران علالت ان سے تعمیل کرالی گئی ہے جبکہ بعض ذرائع ان اطلکاعات کی تصدیق نہیں کررہے۔عدالت میں یہ مقدمہ دودفعات کے تحت درج کیاگیاہے،پہلی دفعہ ’’قانون دعوی نقصان بدیسی‘‘(Alien Tort Claims Act (ATCA))اوردوسری دفعہ’’قانون تحفظ مظلوم‘‘(Torture Victim Protection Act (TVPA))ہیں۔ان قوانین کی دفعات کے تحت سونیاگاندھی اور من موہن سنگھ پر الزامات ہیں کہ انہوں نے پنجاب میں ماورائے عدالت ہزارہا انسانوں کے احکامات قتل اور ان احکامات پر عمل کے لیے ریاست کے دفاعی اداروں کوبھاری رقومات فراہم کیں۔

بھارت دنیاکی ایسی ریاست ہے جس کی کتاب کا پہلاباب ہی قتل و غارت گری اور کشت و خون سے آلودہ ہے۔جس ریاست کی بنیاد میں استعمال کیاگیا مصالحہ ہی انسانی خون سے تیارگیاہواورجہاں انسانوں کونسل پرستی اور جہیزجیسے ترازؤں میں تول کر ان کی قیمت کاتعین کیاجاتاہواور اس پرمستزادیہ کہ اس ریاست کی نظریاتی اساس بھی سیکولرازم جیسے پلندہ کذب و نفاق پررکھی گئی ہو اس ریاست سے انسانی حقوق کی پاسداری کی توقع رکھناسوائے نادانی کے اور کیاہوسکتی ہے۔بھارتی قیادت نے ریاست کی تاسیس کے روز اول سے ہی ظلم و تعدی اور مکروفریب کواپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا حصہ بنایا۔ایک طرف حیدآباد دکن اور جونا گڑھ کی ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ اعلان الحاق کے باوجودانہیں زبردستی اپنی قلمرومیں شامل کرلیاجبکہ کشمیریوں کی مرضی کے خلاف انہیں آج تک اپنی زنجیرزبردستی میں جکڑ رکھاہے۔بھارت میں بسنے والی کوئی بھی اقلیت اپنے حکمران طبقے سے خوش نہیں ہے جبکہ کوئی پڑوسی ملک بھارتی قیادت کی شرانگیزیوں سے مامون نہیں ہے۔مشرق وسطی میں جس طرح اسرائیل نے اپنے عوام اور ہمسایہ ریاستوں کا جینا دوبھرکررکھاہے اس سے کئی گنا زیادہ مکروہ کردار بھارتی ریاست کا ہے جس کے عوام مشرق سے مغرب تک ریاستی دہشت گردی سے تنگ آکر کہیں تو بجنگ آمد ہیں اورکہیں علیحدگی کی منزل کے راہی بن چکے ہیں۔

27صفحات پرمشتمل امریکی عدالت میں دائر کی گئی درخواست بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے عنوان سے بھارتی حکمرانوں کی قتل غارت گری کے خلاف ایک احتجاج کا اظہار ہے۔یہ مقدمہ سکھوں کی تنظیم سکھ برائے انصاف(The Sikhs For Justice)نے دائر کیاہے۔مقدمہ میں دی گئی درخواست کے مطابق سونیاگاندھی کو 1984میں ہونے والی سکھوں کے خلاف کاروائی میں ظلم کا ساتھی بتایا گیاہے اور سونیاگاندھی پر یہ الزام بھی لگایا گیاہے کہ سکھوں کے قتل عام میں ملوث اپنی پارٹی کے ارکان اوربھارت اعلی افسران کمل ناتھ،سجن کمار اورجگدیش تٹلرجیسے لوگوں کو انہوں نے پناہ دی۔دائر کی گئی درخواست کے مطابق یکم سے چار نومبر1984کے دوران تیس ہزار سکھ مارے گئے اور اس قتل عام میں بھارتی کانگریس پارٹی کے گروہوں کی تنظیم،ان کی تسلیح اورپھر ان کی نگرانی سب کی ذمہ دار سونیاگاندھی ہیں۔ اور من موہن سنگھ پرالزام ہے کہ نوے کی دہائی جب وہ بھارت کے وزیرمالیات تھے تب انہوں نے سکھوں کی ماورائے عدالت قتل کے لیے بے پناہ رقومات سرکاری خزانے سے جاری تھیں جس کے نتیجے میں بھارتی عسکری اداروں نے ہزارہا سکھوں کو قتل کیا۔یہ مقدمہ دو سکھوں جسبیر سنگھ اورمہندر سنگھ کی طرف سے دائر کیاگیاہے جن کے بہت سے رشتہ دار1984والی فوجی کاروائی میں مارے گئے تھے۔ اپنے مقدمے کو مضبوط کرنے کے لیے امریکہ اورکینیڈا سے سکھوں کی مختلف تنظیمیں بھارتی اور امریکی قیادت کی ملاقات کے دوران مظاہروں کا بھی ارادہ ظاہر کر چکی ہیں۔درخواست میں یہ انکشاف بھی کیاگیاکہ اگست 2013میں کانگریس کے بدمعاشوں کے ایک گروہ نے نئی دہلی میں ایک کالونی پر دھاوابولا جہاں سکھوں کے خلاف فوجی کاروائی کے کچھ عینی گواہ موجود تھے۔

جون1984کی اس فوجی کاروائی پر آج بھی سکھ ملت آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے جب بھارتی سیکولرافواج نے مذاہب کی مقدس عبادت گاہوں کو اپنے ناپاک جوتوں سے روند ڈالاتھا۔سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی گرفتاری کا بہانہ کرتے ہوئے کل فوجی مشینری امرتسر کے گولڈن ٹمپل میں داخل ہو گئی تھی اور بندوقوں کے دہانوں سے نکلتی ہوئی آگ اورپگھلے ہوئے سیسے نے اس معبد میں موجود پجاریوں کو ابدی نیند سلا دیا تھا۔’’اپریشن بلیواسٹار‘‘کے نام پر سیکولرازم کے روایتی کھیل میں ماوارائے عدالت قتل و غارت گری میں بھارتی حکمرانوں نے اپنی نوعیت کے جداگانہ ریکارڈ قائم کیے ہیں۔کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ گولڈن ٹمپل کے بعد چالیس مزید گردواروں میں یہی خونین کھیل رچایاگیااور جب مشرقی پنجاب کے دیگر علاقوں سے سکھ مذہب کے لوگ اپنی عبادت گاہوں اور ہم مذہب بھائیوں کی مدد کو آنے لگے توان کے راستے روک کرانہیں قتل زخمی اور بے شمار کو ناجائز گرفتارکیاگیا،ان گرفتارسکھوں میں سے کچھ کاتو پتہ چلااور کچھ آج تک لا پتہ ہیں،یہ ہے سیکولرازم اور بھارتی قیادت کا اصل چہرہ۔

ظلم و ستم اور سفاکی و خونریزی کی یہ مشق ستم بھارت میں بسنے والی اقوام کی اب تیسری نسل بھکت رہی ہے۔آسام کا علاقہ،بوڈو قبائل،مانی پور،ناگالینڈ،تری پورہ،میغالہ،آرنچل پردیش،تامل ناڈو اور وسطی و شمالی ہندوستان کی کتنی ہی اقوام اور علاقے ہیں کہ جو 1947سے برہمن کے زیر نگیں نیم مردنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔سکھ اور کشمیری مسلمان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی بدحالی اور کسمپرسی سے دنیاکسی حد تک واقف حال تو ہے جبکہ ہندوستان میں خود ہندؤں کی نیچ اور ملیجھ ذاتوں کے باشندے تو درحقیقت جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ہمیں معلوم ہے کہ سکھوں کے دائر کردہ اس مقدمے کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے اور خود اس مقدمے کے مدعیوں کو بھی اس کا بخوبی ادراک ہوگا لیکن ان کی یہ کاوش کبھی بھی رائگاں نہیں جائے گی ،بہت لمباسفر بھی سب سے پہلے ایک قدم اٹھانے سے ہی شروع ہوتا ہے ۔ ہندوستان کی گزشتہ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے مسلمانوں سے پہلے بھی یہاں جنگ و جدال کا دور دورہ تھااگرچہ اسے مذہبی ومقدس جنگوں کامقام دے دیا گیااور مسلمانوں کے بعد بھی تاج برطانیہ کادور ہو یا برہمن کا سیکولرازم ہو عوام بدحال ہی رہے،پس پوری دنیاکی طرح متحدہ ہندوستان پر بھی مسلمانوں کا حق حکمرانی آج بھی قائم ہے اوریہ آسمان ایک بار پھر دیکھے گا کہ ہندوستان کی کل اقوام اسلام کے پرچم آسودگی تلے ضرور جمع ہوں گی،انشاء اﷲتعالی۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 535788 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.