احمد بلال کا شمار ایسے محب وطن لوگوں میں کیا جاسکتا ہے
جو پاکستان اور پاکستانی قوم کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں میری ان کے
ساتھ جتنی بھی ملاقاتیں ہوئی وہ انہی کے کسی نہ کسی پروگرام میں ہی ہوئی
اور جہاں تک میں نے دیکھا وہ کسی بھی قسم کے دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر
اپنا کام جاری رکھتے ہیں حکومت کے برے کاموں پر تنقید بھی کھل کرکرتے ہیں
اور جہاں اچھے کام نظر آئیں وہاں تعریف بھی کرتے ہیں انہوں نے سیاستدانوں
کی اصلاح کے لیے بھی بہت سے پروگرام کیے ابھی چند روز قبل انہوں نے اپنی
تنظیم ’’پلڈاٹ‘‘کے زریعے حکومت کے سو دنوں کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی
ہے اور اس رپورٹ میں انہوں نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی پہلے 100 دنوں کی
کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ (ن) لیگی حکومت کے پہلے 100
دنوں میں مہنگائی تاریخی عروج پر پہنچی ہے وفاقی حکومت نہ تو اپنی کابینہ
مکمل کرپائی نہ ہی چیئرمین نیب سمیت کئی اہم عہدوں پر تقرریاں عمل میں لائی
جاسکیں اے پی سی کے بعد طالبان سے مذاکرات کی پالیسی بھی مبہم ہے۔ وزراء کے
چناؤ میں غلطیوں کے باعث استعفوں اور برطرفیوں کے معاملے دیکھنے میں آئے
دوسری جانب حکومتی اہم ترین عہدے وزارت امور خارجہ،وزارت قانون،وزارت
مواصلات،وزارت تجارت،وزارت دفاع سمیت امریکہ میں پاکستانی سفیر کی تعیناتی
اور دیگر ابھی تک خالی پڑے ہیں اور جن عہدوں پر تعیناتیاں ہوئیں جیسے صدر
اور گورنر پنجاب ان میں بھی مشاورت اور ادارہ جاتی نظام اور بغیر کسی طریقہ
کار کے کام کیا گیا وزیراعظم میاں نواز شریف کی سینٹ اور قومی اسمبلی جبکہ
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں میں عدم
موجودگی کو غیر جمہوری طرز عمل قرار دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشت
گردی کے مسئلے پر بلائی گئی اے پی سی کے بعد طالبان سے مذاکرات سے متعلق
پالیسی بھی مبہم ہے جس کا کوئی مکمل میکنزم نظر نہیں آتا وفاقی و صوبائی
حکومتوں کی ٹیکس اصلاحات نہ کرنے، اسٹینڈنگ کمیٹیز کے قیام ، اسمبلی قوانین
کی خلاف ورزیوں اور مقامی حکومتوں کے قیام سے متعلق عدم دلچسپی پہلے سو
دنوں کا خاصہ رہی جیسا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں دوسرے صوبوں کی نسبت سب
سے کم اجلاس ہوئے اور حکومت لوکل گورنمنٹ بل دیر سے پیش کرنے اور جہازی
سائز کابینہ جس میں وزیراعلیٰ کے پی کے کے 13وزراء 5 مشیر، 7معاون خصوصی
اور 32 پارلیمانی سیکرٹریز ہیں جبکہ سو دن سے زائد گزرنے کے باوجود ابھی تک
وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک اپنی کابینہ ہی تشکیل نہ دے سکے ۔
میاں نواز شریف نے 6جون 2013ء کو حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی اور اب تک
کے گذرے ہوئے انکی حکومت کے 100دن ملک کے کروڑوں غریب عوام پر بھاری گزرے
حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا اورعوام سے کیا
گیا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوسکا بلکہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے
ایجنڈے پر عمل درآمد کرتے ہوئے بجلی اور پٹرولیم قیمتوں میں ظالمانہ اضافے
کے نتیجے میں ملک بھر میں مہنگائی کا ایک بد ترین طوفان آگیا ہے۔ ملک کا ہر
شہری بالخصوص غریب اور متوسط طبقے کے لوگ انتہائی پریشان ہیں اور انہیں
سمجھ نہیں آتی کہ وہ گزر اوقات کس طرح کریں پیٹرول کی قیمت 100دن پہلے
100.50روپے فی لٹر تھی جو اب 113.50روپے فی لٹر تک پہنچ گئی ہے ۔ سی این جی
100دن پہلے 73روپے فی کلو گرام تھی جو اب بڑھ کر 84روپے فی کلو گرام ہوگئی
ہے ۔بجلی کی فی یونٹ قیمت 100دن پہلے 5روپے تھی جو اب بڑھ کر16روپے فی یونٹ
ہوگئی ہے ۔ آٹا جو 100دن پہلے 36روپے فی کلو گرام تھا اب بڑھ کر 46روپے فی
کلو گرام ہوگیا ہے ۔ گیس سلینڈر 100دن پہلے 103روپے فی کلوگرام پر بھرا
جاتا تھا وہ 100دن بعد150روپے فی کلو گرام پر بھرا جاتا ہے ۔ چاول سو دن
پہلے 110روپے فی کلو گرام تھا جو اب بڑھ کر 145روپے فی کلو گرام ملتا ہے
۔پیاز 100دن پہلے 33روپے فی کلو گرام تھا اب 60روپے فی کلو گرام مل رہا ہے
۔ دال ماش 100دن پہلے 115روپے فی کلو گرام دستیاب تھی جو اب 100دن بعد
120روپے فی کلو گرام مل رہی ہے ۔لوبیا پہلے 120روپے فی کلو مل رہی تھی جو
اب بڑھ کر0 14روپے ہوگئی ہے۔ سرخ مرچ سو دن پہلے 140روپے فی کلو گرام تھی
جو اب 200روپے فی کلو گرام مل رہی ہے جبکہ سالن مصالحہ 220روپے بڑھ کر
240روپے ہوگیا ہے ۔ موبائل فون پر سو دن پہلے سو روپے لوڈکرنے پر 17روپے
ٹیکس کٹتا تھا جو اب بڑھ کر 25روپے ہوگیا ہے بات صرف یہیں تک نہیں ہے بلکہ
امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کی وجہ سے
کارخانوں کے لئے مصنوعات کی تیاری کے لئے درکار درآمدی پرزے یا اشیاء اور
درآمدی خام مال بھی انتہائی مہنگا ہوگیا ہے پٹرول، بجلی ، گیس کی قیمتوں
میں اضافے سے جہاں عام آدمی کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو چکا ہے وہاں اس کے
نتیجے میں ملک کی صنعت ، تجارت ا ور زراعت تباہ ہوکر رہ گئی ہے ۔ |