وزرا کا دورا گنگا چوٹی

آپ میں سے بہت سے لوگوں نے اس دوڑ پرسفر کیا ہوگا اور اگر کسی نے نہیں کیا تو وہ وقت نکال کے ایک بار باغ سے سدھن گلی روڈ پر سفر کر کے دیکھ لے اسے چھٹی کا دوھ دنہ یاد آیا تو کہنا ،باغ سے سدھن گلی روڈ آثار قدیمہ کا منظر پیش کرتی ہوئی جگہ جگہ سے کھنڈرات بنی ہوئی نصف صدی سے روزانہ ہزاروں لوگوں کو اپنی اپنی منزل تک پہنچاتی ہے باغ سے کچھ کلومیٹر آگے پدر نالہ مال پر ایک پل جو عرصہ آٹھ سال سے زیر تعمیر ہے اس پل کی کہانی بھی ہمارے نصاب میں ا نگلش کی طرح ہے جو نہ آتی ہے نہ جاتی ہے مطلب یہ کہ پل بھی نہ تعمیر ہوتا ہے اور نہ منسوخ ہوتا ہے عوام اس سے امید لگائے بیٹھی ہے کروڑو روپے کے بجٹ سے تعمیر ہونے والا یہ پل اپنے اندر بے بسی کی بے شمار کہانیاں رکھتا ہے کبھی اس کا پیلر ناقص قرار دے کر کام رودیا جاتا ہے اور کبھی اس کی بیم کو غیر معیاری کہہ کر عوام کے صبر کا امتحان لیا جاتا ہے۔ کبھی اس پر کمیشن کی لڑائی لگ جاتی ہے کبھی بھاری برکم رشوت کا الزام،مسئلہ کچھ بھی ہو لڑائی انتظامیہ اور ٹھیکیڈار کی ہے متاثر عوام ہوتی ہے۔لوگ ہیں کہ اس کی آس پر آئے روز نالہ مال کی مشکل گزار دشوار اور جان لیوا راستوں سے ریسک لے کر باغ شہر آتے جاتے ہیں۔ اس پل کی تعمیر کئی کئی سال روک جاتی ہے، جب عوام علاقہ کو یہ خیال آتا ہے کہ یہ پل تو عوام کی سہولت کے لئے بن رہا ہے ایک نسل تواس کے انتظار میں بوڑھی ہو چکی ہے ،سب دوسری کی باری ہے تو لوگوں کو کچھ غیرت آتی ہے وہ سڑکوں پر نکل کر کچھ وقت کے لئے احتجاج کرتے ہیں۔جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انتظامیہمیں کچھ ہل چل مچتی ہے ،اور کام شروع کروا دیا جاتا ہے۔ کچھ دن گزرتے ہیں تو پھر نیا ایشو سامنے آتا ہے اور کام رک جاتا ہے بارش اور مال میں پانی زیادہ ہونے کی صورت میں اس پل پر سے بچے ،عورتیں ،بوڑھے اپنی زندگیوں کو داو پر لگا کر بیم سے پیدل نالہ پار کرتیہیں عوام بھی کرے تو کیا کرے کوئی سننے اور رحم کرنے والا ہی نہیں پل کو کراس کرو تو اگے سڑک لاوارث قوم کی لاوارث اولاد کی طرح بے حال ہے جگہ جگہ سے ٹوٹی بھوٹی ،کھڈے،گھڑے سمت باغ شہر کو مظفرآباد سے ملاتی ہے سڑک باغ سے سدھن گلی چکار اور پھر مظفرآباد تک میں لنک ہے مگر بے بسی ،لاچارگی کی تصویر بنی یہ سڑک کسی مسیحا کی منتظر اپنی قسمت کو رو رہی ہوتی ہے اس کے بعد آزاد ہونے والے ملک آج سپر طاقت بن چکے ہیں مگر یہ سڑک یوں کی توں جیسے تھی ویسے ہی ہے ۔28ستمبر 2013کی صبح صبح جگہ جگہ ٹھیکیدار ،مزدور،ہاتھوں میں بڑ ے بڑے جھاڑو لئے اسے صاف کر رہے تھے کچھ لوگ گینتی،بیلچہ،پکڑے اس کے چہرے سے کھڈے چھپا تے ہوئے مٹی کا میک اپ کر رہے تھے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی بوڑھی عورت کو کوئی دلہا دیکھنے آرہا ہے اور اس کے بڑھاپے کو چھپا کر جوان کیا جارہا ہے۔مزدوراس کی مرہم پٹی کر نے میں یوں مصروف تھے جیسے یہ اس ملک کے وفادار اور عوامی خدمت گار دن رات اپنی دیانت داری کے ساتھ اپنے فارئض سر انجام دے رہے ہوں۔۔پدر نالہ مال کا کچا راستہ جس کی وجہ سے پل کی تعمیر ہو رہی ہے جو معمولی بارش میں بھی نا قابل استعمال ہو جاتا ہے جس سے گاڑی تو دور کی بات پیدل گزرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے یہاں پر تیز طوفانی بارشوں میں طغیانی آنے کے بعد بھی کئی کئی دن مشین نہیں آتی اس دن پہلے سے وہاں موجود مشین، حیرانگی کا باعث تھی ۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آج اس سڑک پر عوام کی نہیں بلکہ کسی اور دنیا کی مخلوق کا گزر ہے یہ وہ مخلوق ہے جس کو جنم تو عوام کے ووٹوں نے دیا اور جس کی سانسیں عوام کے ٹیکسوں سے چل رہی ہیں، مگر جنم دینے کے بعد یہ مخلوق اپنی دنیا میں گم ہو جاتی ہے اس کو یہ یاد تک نہیں رہتا کہ عوام بھی کسی دنیا کی مخلوق ہے۔ سڑک پر مٹی سے کھڈے بھر کے ٹکیاں لگانے کا مقصد یہ تھا کہ اس پر سے گزرنے والے قائم مقام وزیر اعظم چوہدری یاسین اور دوسرے وزرا کو اس سڑک کی حالت زار نظر نہ آئے اور کسی قسم کا کوئی ایسا جھٹکا بھی نہ لگے جس سے ان کی کمر میں سے کسی طرح کا درد نکل آئے،ان وزرا کا دورہ گنگا چوٹی جو ان کی بد قسمتی اور اس سڑک کی خوش قسمتی تھی کہ اس پر سے گزر کر جانا تھا دورہ گنگا چوٹی سے پہلے جو میک اپ کیا گیا تھا وہ تیز طوفانی بارش نے دھو تو ڈالا اس کا چہرا نگا تو کیا مگر اس پر سے گزرنے والے نام نہاد عوامی لیڈروں کو شاہد پتہ نہ چلا ہو کہ اس سڑک کا کیا حال ہے کیونکہ وہ تو اپنی ہوٹرز اور جھنڈیوں کی مستی میں گم تھے۔دورہ کیسا رہا ہوگا ،کیا کیا مہربانیاں کی گئی ہیں یہ سب تو آپ نے پڑھ اور سن لیا ہوگا مگر عوام کی وزیراعظم آزادکشمیر اور دوسرے وزرا جو ساتھ تھے ان سے درخواست ہے کہ کب تک یہ بناوٹی ٹکیاں لگا کر اس سڑک کاچہرے چھپایا جائے گا عوام کے حال پر رحم کر کے پدر نالہ مال اور بیرپانی نالہ پر پل تعمیر کروایا جائے تاکہ عوام کو کم از کم دوران بارش جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ تو نہ ہوں اس سڑک پر بننے والے پل اور اسکی اوور حالی کے نام پر کتنی بار بجٹ منظور ہو کر کھا لیے گئے ہونگے مگر عوام آج بھی دوران سفر کلمہ کا ورد کرتے رہتے ہیں سڑک بھی چیخ چیخ کر اپنے لیڈروں سے یہ کہتی ہے کہ مجھ پر رحم کیا جائے جب سے میرا وجود بنا مجھ پر کسی نے نظر کرم نہیں کیا کبھی کھبار اگر کوئی خلائی مخلوق مجھ پر سفر کرے تو میرا چہرا دھو یا جاتا ہے اس کے علاوہ تو میرے ساتھ دشمنوں والا سلوک کیا جاتا ہے۔پل کا روکا ہوا کام شروع کر وا کے اس کو جلد از جلد قابل استعمال کیا جائے،گنگا چوٹی پر جو مرضی ترقی کر دی جائے مگر اس کا راستہ تو یہی ہے اس کا روبطہ بھی اسی پل سے ہے اگر بنیاد ہی خراب ہے تو چوٹی پر علان کرنے کا کیا فائدہ۔امید ہے وزیر اعظم آزادکشمیر اس پر نظر کرم کریں گے۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75051 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.