اقبال علیہ الرحمہ نے ایک بار کہا تھا کہ جمہوریت وہ نظام
ہے جس میں بندے گنے تو جاتے ہیں تولے نہیں جاتے۔وہ اس زمانے کی بات ہے جب
اقبال جیسے قائدین قیادت کے منصب پہ فائز تھے۔آج جیسی اندھی روحیں ہیں ویسے
ہی گنجے فرشتے ہیں۔انہیں گنا جائے یا تولا کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔عمران
خان کی تحریک انصاف آئی تو ہم سدا کے حرماں نصیبوں کو لگا کہ اب بس کچھ ہی
دن میں نہ صرف ہماری بلکہ ہمارے وطن کی تقدیر بھی بدلا چاہتی ہے۔پاکستانی
سیاست سے انتہاء درجے کی مایوسی کے باوجود ہم بھی سونامی کی لہروں پہ سوار
ہو گئے۔اس سفر کے دوران ہم نے کیا کیا دیکھا یہ کہانی پھر سہی لیکن ایک بات
طے ہے کہ عمران خان میں کچھ خاص ہے۔وہ دھن کا پکا ہے۔ارادے کا دھنی ہے۔اپنی
سوچ کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔مشورہ وہ کم
ہی لیتا ہے، لے بھی لے تو اس پہ عمل اس کی اپنی مرضی پہ منحصر ہے۔ایک تو یہ
اس کا مزاج ہے اور دوسرا وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہے کہ سونامی کی ساری
طغیانی اسی کی بدولت ہے۔تحریک انصاف کے باقی سارے چھوٹے بڑے بس شامل باجہ
ہیں اور اﷲ اﷲ خیر صلا۔
ہم نے اس پارٹی کے اندر رہ کے دیکھا کہ عمران خان کے فدائین ان کا نام ایسے
لیتے ہیں جیسے کسی پیر کا کوئی مرید بھی کیا لیتا ہوگا۔میں نے ایسے دیوانے
بھی دیکھے جو عمران خان کو صرف عمران کہنے پہ گلے پڑ جایا کرتے تھے۔ہمارے
ہاں سیاسی کارکن کم ہی ہوتے ہیں اکثریت غلاموں کی ہے اور تحریک انصاف اس
خوبی سے مستثنیٰ نہیں۔سیاسی کارکنان کو سیاسی تربیت کی ہمہ وقت ضرورت رہتی
ہے۔انہیں ہمیشہ اگلے عہدے کے لئے تیار کیا جاتا ہے ۔ہمارے ہاں سوائے جماعت
اسلامی اور ایم کیو ایم کے باقی جس پارٹی میں جو جہاں ایک دفعہ بیٹھ گیا سو
بیٹھ گیا پھر زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔یعنی زمین تو اپنی جگہ سے ہل سکتی
ہے گل محمد ایک جگہ جہاں بیٹھ گیا وہاں سے نہیں ہل سکتا۔خیبر پختونخواہ کے
وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو صوبے کی صدارت کا الیکشن ہارنے کے بعد جس طرح
پارٹی کا جنرل سکریٹری بنایا گیا اور پھر جس طرح وزیر اعلی بننے کے بعد
انہوں نے سیکریٹری جنرل کی سیٹ چھوڑنے سے انکار کیا اس سے ان کا گل محمد
ہونا ثابت ہے۔
الیکشن سے پہلے یہ ضروری تھا کہ کارکنوں کو الیکشن لڑنے کی تربیت دی جاتی
لیکن اس وقت پارٹی اپنے جماعتی الیکشن میں اس قدرالجھی ہوئی تھی کہ کسی کو
سر کھجانے کی فرصت نہ تھی۔کچھ ہمدردوں نے جب خان صاحب کے کان میں یہ بات
ڈالی کہ پاکستان میں مقبولیت تو مل جاتی ہے لیکن الیکشن جیتنے کے لئے جو
تکنیک ضروری ہے وہ آپ کے کارکنان کے پاس نہیں تو خان صاحب نے کہنا شروع کیا
کہ تحریک انصاف کا مینڈیٹ چرانے کی پلاننگ کر لی گئی ہے۔اس کے ساتھ ہی
انہوں نے جلدی میں ایک فورس بنانے کا اعلان کیا جس نے الیکشن والے دن
دھاندلی کو روکنا تھا۔یہ فورس بہت پر جوش تھی لیکن الیکشن کے دن جب یہ فورس
دن گیارہ بجے جاگ کے پولنگ سٹیشنز پہ پہنچی تو کام ہو چکا تھا۔یار لوگ اپنا
کام کر کے فارغ ہو چکے تھے۔جب نتائج آنا شروع ہوئے تو سونامی بقول پرویز
رشید سمٹ کے راوی بن گیا تھا۔سونامی کے پانی پہ ڈاکا ڈل گیا تھا۔جس طرح
بھارت نے ہم سے راوی کا پانی چھینا ہے ایسے ہی سونامی کا مینڈیٹ بھی چھین
لیا گیا تھا۔جو کسر کہیں رہ گئی تھی وہ پوسٹ پول رگنگ نے پوری کر
دی۔راولپنڈی کے ایک حلقے میں جب گائے بلے سے جیت گئی تو ہماری حیرت دیدنی
تھی کہ کبھی گائے بھی بلے یا ڈانگ سے جیتی ہے لیکن وہ پنجابی کی ایک کہاوت
ہے ناں کہـ" ستیاں دے کٹے "
جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔میاں صاحب نے رات دس بجے ہی جبکہ ابھی گنتی بھی مکمل
نہیں ہوئی تھی خود ہی اپنے برادر صغیر اور دیگر پارٹی قائدین کی معیت میں
اپنی جیت کا اعلان کر دیا۔عمران خان بستر علالت سے بس اتنا ہی کہہ پائے کہ
ہم نتائج کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یارو چند حلقوں میں میں ہی سہی انگوٹھے کے
نشانوں کی تصدیق کرا لو تاکہ میں اپنے کارکنوں کو تسلی دے سکوں۔کراچی میں
تو لوگ سڑک پہ بیٹھ گئے تھے اور لاہور میں بھی۔خان صاحب نے پریشان ہو کے
عدلیہ کے بھی لتے لے لئے اور پھر ایک نیا "گھڑ سمبھا "شروع ہو گیا۔
عدلیہ کے ساتھ پھڈے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ خان صاحب کے مطالبات کو سیریس
لیا جانے لگا۔کراچی کے ایک حلقے میں نادرہ کی مدد سے جب چھان بین کی گئی تو
دھاندلی کے واضح شواہد ملے اور ابھی کل ہی کراچی کے دوسرے حلقے کی رپورٹ
بھی نادرہ نے جمع کروا دی ہے جس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس الیکشن میں
دھاندلی نہیں دھاندلہ ہوا ہے۔جیتنے والے کے کوئی بارہ ہزار ووٹ درست ہیں۔
باقی کے ووٹ کیسے ڈلے کس نے ڈالے اس کی کسی کو کچھ خبر نہیں۔اب جب یہی مشق
لاہور کے کسی حلقے میں ہو گی تو کیا بنے گا؟ سونامی کو ٹی وی پہ آ کے راوی
کہنے والوں کی حالت دیکھنے لائق ہو گی۔نادرہ کی اس گواہی سے ایک بات تو
ثابت ہو گئی کہ عمران خان جب سوچ کے بولتا ہے تو اس کی بات میں وزن ہوتا ہے
لیکن اگر سوچ کے بولے تو۔دیوتا تو لیکن دیوتا ہوتے ہیں انہیں سوچ کے بولنے
کی بھلا کیا ضرورت؟ |