پیپلز پارٹ کا بلدیاتی انتخابات سے فرار - جیو جمہوریت

ملک کے منتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے کہا ہے کہ اگست سے ملک بھر میں ناظمین کی جگہ ایڈ منسٹریٹر مقرر کرنا شروع کردئے جائیں گے۔ اسلام آباد میں ایک کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر سیاسی بنیادوں پر نہیں لگائے جائیں گے بلکہ یہ سرکاری افسران ہوں گے جو اس عہدے پر نامزد کئے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایڈمنسٹریٹر ایک سال کے لئے متعین کئے جائیں گے اور حالات بہتر ہوتے ہی نئے بلدیاتی انتخابات کرا دیے جائیں گے، فی الحال انتخابات کے لئے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔

دیکھا بھائی لوگوں آپ نے کہ بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ پیپلز پارٹی کو اگر کوئی حقیقی جمہوری پارٹی سمجھتا ہے اور کہتا ہے تو اس سے بڑی حماقت شاید ہی کوئی ہو کہ موجودہ پیپلز پارٹی میں جمہوریت پسندی اور انصاف پسندی پائی جاتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے بے ایمانوں کو اچھی طرح علم ہے کہ ملک بھر میں بلدیاتی الیکشن کرانے کی صورت میں پیپلز پارٹی کو شاید سندھ کے گاؤں اور دیہات سے شاید کچھ اکثریت حاصل ہو سکے کیونکہ پاکستان کے چار صوبوں پر بلدیاتی انتخابات کچھ اسطرح نتائج دے سکتے ہیں کہ :

١۔ کیونکہ پنجاب میں تو ن لیگ اور ق لیگ مل بانٹ کر پیپلز پارٹی کا سیاسی دھڑن تختہ یا چلیں جلوس ہی نکال دیں گیں

٢۔ ادھر سندھ میں شہری علاقے ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور چند دوسری پارٹیوں کے مضبوط حلقہ انتخاب ہیں۔

٣۔ سرحد میں اے این پی ، جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) اور جمیعت علمائے اسلام (س) میدان مار لیں گی۔

٤۔ اور رہی بات بلوچستان کی تو جو حشر موجودہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا ہو رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے شاید ایک بھی ناظم پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب نا ہوسکتے۔

اب سمجھ میں آئی ملک کے بھولے بھالوں کہ پیپلز پارٹی کی شاطرانہ زنبیل سے کیسی چیز نکلی کہ اچانک وزیراعظم صاحب کو ملک بھر کے حالات بہتر نہیں نظر آرہے۔ (یعنی حکومت اپنے منہ سے کہہ گئی ہے کہ اسکے دور حکومت میں ملک کے حالات اچھے نہیں وگرنہ حکومتوں کا تو یہ وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں حالات کی اچھائی دکھاتے رہتے ہیں)

پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتاؤں کو اچھی طرح خبر ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی صورت میں پیپلز پارٹی کو جو مینڈیٹ حاصل ہو گا وہ صرف گاؤں دیہات کا ہوگا اور وہاں کے مسئلے مسائل حل کرانے لئے فنڈ بھی اتنا زیادہ مختص نہیں کراسکتے اور جو زیادہ فنڈ ہوگا وہ شہروں کا ہوگا جہاں پیپلز پارٹی کو شاید کونسلرز کی نشستیں بھی حاصل نا ہوسکیں۔

اب ناظم تو اپنی مرضی کے نہیں آسکتے لہٰذا محترم فرماتے ہیں کہ ناظمین کی جگہ ایڈمنسٹریٹرز مقرر کئے جائیں گے جو سرکاری افسران ہونگے۔ (جب ملک میں وفاقی سطح پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے تو افسران بھی پیپلز پارٹی کے ہی ہونگے آئی بات سمجھ شریف میں یا کچھ اور چاہیے سمجھ دانی میں ڈالنے کے لئے)۔ اپنی حکومت کے افسران کو عوامی نمائندگان پر فوقیت دینے والے کس منہ سے جمہوریت کے راگ الاپتے ہیں اور کس طرح جمہوریت کے لیے اپنی قربانیاں یاد دلاتے ہیں۔ اور فی الحال ملک و قوم پر مہربانی کرتے ہوئے وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں کہ ان ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری فی الحال ایک سال کے لئے ہو گی (جس میں ظاہر ہے اضافہ کرنا یا نا کرنا پیپلز پارٹی کی مکمل صوابدید پر ہوگا)۔

اور محترم فرماتے ہیں کہ حالات بہتر ہوتے ہی نئے بلدیاتی انتخابات کرا دیے جائیں گے (یعنی پیپلز پارٹی کا بلدیاتی انتخابات کرانے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ جب تک پیپلز پارٹی کی حکومت ہے حالات اچھے ہو جائیں - ایسے تو حالات نہیں ۔ مشرف جب گیا تھا تو ملک پر ٣٨ ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ تھا جو ڈیڑھ سال میں بڑھ کر ٦٠ ارب ڈالرز کے قریب پہنچ گیا ہے - اتنی ملی خیرات نا پوچھو )۔

ہمارے ملک کے بھولے بھالے عوام کی یاداشت بڑی کمزور ہے یاد کریں جب محترمہ بینظیر بھٹو ایک قاتلانہ حملے میں شہید ہوئی تھیں تو بھی تو ملک کے حالات اچھے نہیں تھے مگر شاباش ہے مشرف جیسے آمر کو کہ پھر بھی چند ہی مہینوں میں انتخابات کرا دیے اور اقتدار سپرد کر گیا وگرنہ وہ بھی کہہ سکتا تھا کہ انتخابات کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں جب حالات درست ہونگے تو انتخابات کرا دیے جائیں گے۔ آئی عقل شریف میں ملک کے بھولے بھالوں کے۔

واہ بھئی جمہوریت کے چیمپئن بننے کے دعوے داروں بلدیاتی ادارے تو انتہائی بنیادی ادارے ہوتے ہیں کسی بھی جمہوری معاشرے میں اور ان سے فرار اور نام لیتے ہو جمہوریت کا اور عوام کا اور عوام کے سامنے جانے سے اتنا ڈرتے ہو تو کیونکر اگلے عام انتخابات (اگر پانچ سال بعد ہوئے وگرنہ کبھی بھی ہوسکتے ہیں) میں عوام کے سامنے جاؤ گے یا انتخابات سے عین پہلے ہی یہ کہہ کر انتخابات کو ٹال دو گے کہ ملک کے حالات کی بہتری تک انتخابات ممکن نہیں۔

واہ بھی جمہوریت کے باڈی بلڈروں مشرف تو جمہوریت میں بھی تم سے نمبر لے گیا۔ اور زرا چند مہینے انتظار کرلو پھر مشرف کو آمریت کی چھتری تلے دیکھا تھا اب زرا اس کا عملی سیاست میں آنے کے بعد مقابلہ کر کے دکھانا۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 540850 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.