عوامی حکومت کا نیا عوام کش اقدام

حکومت نے بجٹ کے بعد عوام پر ایک اور بجلی ”کاربن ٹیکس“ کی صورت میں گرائی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اس کو ”عوام دوست“ فیصلے سے 7 جولائی معطل کردیا تھا اور تین رکنی بنچ نے متفقہ طور پر حکومت اور اوگرا کو کاربن ٹیکس کے نفاذ سے رٹ درخواست کے حتمی فیصلہ تک روک دیا اور اوگرا کو حکم جاری کیا کہ کاربن ٹیکس کے نفاذ کے بغیر پٹرولیم کی کی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے چنانچہ اوگرا نے اگلے روز یعنی 8 جولائی 2009 کو انہی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جو یکم جولائی کو موجود تھیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کم قیمتوں کے نوٹیفکیشن کے اجراء کے باوجود ملک کے بہت سے علاقوں میں ٹیکس سمیت قیمت وصول کی جاتی رہی اور حکومت نے اندر کھاتے پٹرولیم ایجنسیوں کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ راتوں رات حکومت نے عوام کے مسائل سے نظریں چرا کر اور سپریم کورٹ کو احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام پر ”قانونی“ کلہاڑا چلا دیا اور وزیر اعظم کی ”ایڈوائس“ پر صدر پاکستان نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ سے دوبارہ پٹرولیم مصنوعات پر ڈیوٹی عاید کردی۔ 9 جولائی کو صبح جب غریب پاکستانی عوام اپنے کام دھندے پر جانے کے لئے گھروں سے نکلے اور پٹرول پمپوں پر پٹرول ڈلوانے کے لئے رکے تو حیرت، صدمے اور دکھ کا پہاڑ ان کا منتظر تھا، سیلز مین مسکرا رہے تھے، پمپوں کے مالکان اور پٹرولیم کمپنیوں والی ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں خوشی کے شادیانے بجا رہی تھیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی وجہ سے ان کو مہنگا پٹرول پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سستا بیچنا پڑ رہا تھا لیکن حکومت کے ”بروقت“ اقدام نے ان ”غریبوں“ کی خوشیاں واپس کردی تھیں اور پٹرول کی قیمت دوبارہ سے وہی ہوگئی جو کاربن ٹیکس لگنے سے ہوئی تھی۔ بددیانتی کی انتہاء، عدالتوں کو اپنی باندی رکھنے کی خواہش اور اس ملک کے غریب عوام کو کچلنے کی آرزو نے حکومت کی آنکھیں بالکل ہی بند کر رکھی ہیں۔ یہ کونسی جمہوریت ہے، کیسی عوامی حکومت ہے جسے نہ عوام کی پریشانیوں سے کوئی سروکار ہے نہ عدالتوں کے احکامات کی پاسداری سے کوئی غرض....! حالانکہ سپریم کورٹ نے پٹرولیم کی قیمتوں کے بارے میں باقاعدہ ایک کمیشن بنایا تھا جس کی رپورٹ آنے کے بعد معاملے کا بغور جائزہ لے کر کاربن ٹیکس کے نفاذ کو معطل کیا گیا تھا۔ جسٹس بھگوان داس کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن نے پٹرولیم مصنوعات کے حوالے سے جو رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی وہ بڑی چشم کشا ہے کہ موجودہ حکومت اور اسے پہلی آمریتی حکومت کو عوام کے مسائل سے کتنا سروکار ہے ۔ رپورٹ کے مطابق 2001 سے 2009 تک مرکزی حکومت نے پٹرولیم انڈسٹری سے 10 کھرب 23 ارب اور 64 کروڑ روپے کا خالص منافع حاصل کیا۔ متذکرہ بالا خالص منافع کے علاوہ مرکزی حکومت نے سیلز ٹیکس کی مد میں 548954 ملین روپے، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 33381 ملین روپے، کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 79771 ملین روپے، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 281364 ملین روپے جبکہ انکم ٹیکس کی مد میں 80171 ملین روپے بھی عوام کی جیبوں سے اڑا لئے۔ حکومت کی طرف سے متذکرہ بالا ڈکیتی کے علاوہ کمیشن کی رپورٹ میں ملک میں کاروبار کرنے والی چار پٹرولیم کمپنیوں کے منافع کا بھی ذکر ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نہ صرف خود من مانی کر رہی ہے اور عوام کی جیبوں پر ہاتھ صاف کررہی ہے بلکہ اس نے پٹرولیم سے وابستہ کمپنیوں کو بھی عوام کی جیبیں صاف کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔

ہماری حکومتیں ہمیشہ سے عوام کو تر نوالہ سمجھتی رہی ہیں اور ابھی تک سمجھ رہی ہیں۔ عوام نے بھی اب تک کسی سمجھداری اور شعور کا مظاہرہ کم کم ہی کیا ہے جس کا نتیجہ وہ خود بھی بھگت رہے ہیں اور آنے والی نسلوں کو بھی اسی میں دھکیلا جارہا ہے۔ ایک طرف تو اتنے ظالمانہ ٹیکس ہیں جو عوام کا خون تک نچوڑ کر وصول کئے جارہے ہیں اور دوسری طرف اتنی بڑی کابینہ ہے جس کے ایک ایک رکن کا ماہانہ پٹرول کا خرچ بلا مبالغہ لاکھوں میں ہوتا ہے، دوسرے شاہانہ اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ دنیا کے سامنے ایک طرف کوریا کے صدر لی مویونگ باک کی مثال ہے کہ انہوں نے اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کا 80 فیصد حصہ اپنے ملک کے عوام کے نام کردیا ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں جو پہلے ”دس فیصد“ پر اکتفا کرتے تھے تو اب ”صد فیصد“ پر بھی مطمئین نہیں ہورہے۔ ”غریبوں“ کو ختم کرنے کا ہر روز ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے اور اگر سپریم کورٹ نے حکومت کے کرنے والا کام یعنی عوام کو ”ریلیف“ پہنچانے کا کوئی کام کیا بھی تو اس کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایک دن بھی انتظار نہ کیا گیا، حکومت کے اس اقدام سے بالکل عیاں ہوگیا کہ ان کا پاکستانی عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف اور صرف اپنی تجوریاں بھرنے کی فکر میں ہے۔ عوام آہستہ آہستہ یہ کہنے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں کہ ایسی عوامی اور جمہوری حکومت کا کیا فائدہ جو اپنے عوام سے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی صورت میں ان کے خون کا آخری قطرہ تک بھی نچوڑنے کے چکر میں ہو؟ کیا کبھی پاکستانی بھی امریکہ ، آئی ایم ایف اور ظالم حکمرانوں کے شکنجے سے آزاد ہوسکیں گے؟ حکومت اور وہ بھی جمہوری اور عوامی، کہ جس کا کام عوام کی خدمت کرنا ہوتا ہے، آخر کب تک ایسے ہتھکنڈوں سے اس قوم کی جان عذاب میں مبتلا رکھی جائے گی؟ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اس وقت کو ٹالنا چاہئے جب عوام خود سارے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں، اس وقت نہ کسی کی دستار بچے گی نہ عزت، نہ کسی کی جائیداد کی حفاظت ہوگی اور نہ جان کی۔ اس وقت سے ڈرنا چاہئے جب عوام مجبوراً منافع اور ٹیکس وغیرہ کی مد میں دی جانے والی رقوم سود سمیت واپس لینے کا ارادہ کرلیں تو پھر ملک میں کوئی پٹرول پمپ بچے گا اور نہ کوئی حکومت ....! حکومت کو فوراً نہ صرف موجودہ اضافہ واپس لینا چاہئے بلکہ عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتیں کم ہونے کا فائدہ بھی عوام کو پہنچانا چاہئے، ورنہ عوام کے پختہ ارادوں کے سامنے ہماری حکومت اور سیاستدان ہرگز بند نہیں باند ھ سکیں گے!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207393 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.