شامی باغیوں میں اختلاف

شام کے بحران کے حل کے لیے جنیوا میں دوسری کانفرنس کے انعقاد کی تیاری کی جارہی ہے اور دوسری طرف شامی باغی گروہوں میں اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی جارہی ہے چنانچہ اسی وجہ سے مبصرین کا کہنا ہے کہ شاید جنیوا کانفرنس سے قبل ہی باغی اتحاد کا خاتمہ ہوجائے۔ بشارالاسد کے مخالف اتحاد کے ۱۱۴ اراکین میں سے ۴۰ اراکین کا تعلق نیشنل سیرین کونسل سے ہے جنہوں نے دو روز قبل استنبول میں ہونے والے اپنے اجلاس میں اعلان کیا ہے کہ اگر مخالف اتحاد نے جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا تو وہ اتحاد سے نکل جائیں گے۔ نیشنل سیرین کونسل کا کہنا ہے کہ جنیوا میں ہونے والی کانفرنس حقیقت میں امریکہ اور روس کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے منعقد کی جارہی ہے اس لیے اس قسم کی کانفرنس میں شرکت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بعض مسلح گروہوں نے بھی نیشنل سیرین کونسل کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ جنیوا کانفرنس کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلاف نے حکومت مخالف اتحاد میں دراڑیں ڈال دی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال شام میں حکومت کے خلاف مسلح سرگرمیوں میں مصروف باغیوں کے باہمی اختلافات نے پیدا کردی ہے۔

ایک طرف فری سیرین آرمی اور النصرہ محاذ برسرپیکار ہیں جس کے نتیجہ میں دسیوں باغی موت کے گھاٹ اترچکے ہیں اور دوسری طرف داعش (دولت اسلامی عراق و شام) اور کرد نیم فوجی دستوں کے درمیان مسلح جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب حالات یہ ہوچکے ہیں کہ حال ہی میں فری سیرین آرمی نے داعش کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے فری سیرین آرمی پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تو وہ بستان پاشا نامی علاقہ شامی فوجیوں کے حوالے کردیں گے جس کے نتیجہ میں حلب اور اس کے قریب موجود القاعدہ کے دستے شامی فوج کے محاصرے میں آجائیں گے! باہمی اختلافات کا دائرہ اب یہاں تک بڑھ چکا ہے کہ فری سیرین آرمی کے ترجمان فہد المصری نے دعوی کیا ہے کہ چند روز قبل لاذقیہ کے قریب ایک سو نوے سویلین کو قتل اور دو سو افراد کو اغوا کرنے کی کاروائی مخالف اتحاد کے مسلح ونگ کے سربراہ سلیم ادریس کے حکم پر انجام دی گئی تھی۔

شام کے حالات کے بہت تیزی سے افغانستان کے حالات کی طرح ہوتے چلے جارہے ہیں بلکہ افغانستان سے بھی بدتر ہورہے ہیں کیونکہ افغانستان میں مسلح گروہوں کے درمیان جنگ کا آغاز روس کے جانے کے بعد ہوا لیکن یہاں تو دوسال بعد ہی صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ایک دوسرے کے دسیوں افراد کو باقاعدہ گھات لگاکر ماردیا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ جہاں بھی امریکہ نے جہادی گروہوں کو پروان چڑھایا وہاں امریکہ کے مفادات کا دفاع تو ہوتا رہا لیکن عوام کی طرف کبھی کسی کا دھیان نہیں گیا اور پھر وہاں کے عوام کو کبھی سکھ کا سانس نصیب نہیں ہوا۔ تیسری بات یہ بھی کہہ دوں کو مسلح گروہوں کو اگر مذاکرات کی میز پر لانا ممکن ہوتا اور انہیں کسی چیز کا پابند بنانا ممکن ہوتا تو اب تک ترکی، قطر، سعودی عرب ، امریکہ یہ کام کرچکے ہوتے اور شام میں یہ اختلافات نظر نہ آتے ! پاکستان میں بھی کہیں ایسا ہی نہ ہو کہ اے پی سی ون سے اے پی سی ٹو تک ۔۔۔

Dr Azim Haroon
About the Author: Dr Azim Haroon Read More Articles by Dr Azim Haroon: 10 Articles with 7869 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.