شہر کی گلیوں میں ایک شور تھا‘ خوف اور دہشت بھری آوازیں
شہر کے امن کے لئے تباہی کا پیغام دے رہی تھیں۔ ہاتھوں میں ڈنڈے‘ بالے‘
ترشول اور تلواریں پکڑے مسلح افراد کے جتھے پیدل اور سوار آگے بڑھ رہے تھے۔
ان میں مرد‘ عورتیں اور جوان سب شامل تھے۔ ان کی گاڑیوں میں سوار نیتا
لائوڈ سپیکروں میں ان کے جذبات کو برانگیخت کرتے‘ ماتا کی جے کے نعرے لگاتے
شہر کی گلیوں میں گشت کررہے تھے۔ اہل شہر کے لئے ان کے پاس ایک ہی پیغام
تھا’’پاکستان یا قبرستان‘‘ پھر اس ہجوم کے سامنے ریاست کا صاحب اقتدار شخص
نمودار ہوا اور حکم دیا کہ انہیں ایسی مار مارو کہ دوبارہ گودھرا نہ ہو۔ ان
کے سامنے کوئی ٹوپی‘ داڑھی‘ برقعہ یا کوئی ایسا شخص آتا جس پر مسلمان ہونے
کا شک گزرتا وہ کاٹ دیا جاتا‘ ان کے ڈنڈوں کی زد میں آکر جان دے دیتا یا
پٹرول چھڑک کر زندہ جلادیا جاتا۔ گھروں کے دروازے توڑ کر وہ اندر داخل
ہوتے‘ مردوں کو قتل‘ بچوں کو نیزوں میں پروتے‘ عورتوں کی عصمت دری کرتے‘
گھر کا مال لوٹتے اور مکانوں کو نذر آتش کردیتے ۔یوں دنوں اور ہفتوں میں 15
سے 20 ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور بستیوں کی بستیاں آگ
اور خون کی ہولی کا نشانہ بنیں۔
جی ہاں ! یہ 2002ء کے گجرات کی ایک تصویر ہے جس کی سات فیصد آبادی مسلمانوں
پر مشتمل ہے۔ ان مسلمانوں کا قصور یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے چند روز
قبل گودھرا میں ایک ٹرین کو آگ لگائی تھی جس میں66ہندو سادھو سوار تھے اور
ٹرین کے جلنے کی وجہ ے وہ ہلاک ہوگئے۔ اس جرم کا بدلہ پوری ریاست گجرات کے
مسلمانوں کو اس طرح دینا پڑا۔
جب اس ریاست کے وزیراعلیٰ سے اس سارے معاملے کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے
جواب دیا کہ ہر عمل کاردعمل ہوتا ہے۔ اس شخص نے کبھی اس سربریت کے متعلق
اپنی زبان سے ایک مرتبہ بھی افسوس اور معافی کا لفظ نہیں نکالا بلکہ اس میں
براہ راست شامل افراد کو وزارتیں اور عہدے دئیے گئے۔ دنیا اس شخص کو نریندر
مودی کے نام سے جانتی ہے۔ اس شخص کے اس فعل کی وجہ سے دنیا بھر میں اس سے
نفرت کی جانے لگی اور بھارت کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے عیاں ہوا۔
اگر ایسا کسی عراق‘ افغانستان جیسے مسلمان ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ہوا
ہوتا تو امن عالم کے ٹھیکیدار اپنے کروز‘ کلسٹر اور اپاچی اور شینوک کے
ساتھ حملہ آور ہوتے‘ جاسوس طیاروں کے حملوں کا جواز بناتے اور بستیوں کی
بستیاں جلا کر بھسم کرکے دنیا کو ’’امن ‘‘ کی نوید سناتے۔ مگر چونکہ بہنے
والا خون مسلمانوں کا تھا اس لئے بات ویزہ پابندیوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔
اس قصے کو ایک عشرہ گزرچکا ہے مگر مسلمانانِ ہند کا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب
بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP)نے مودی کو 2014ء کے انتخابات میں پارٹی کی الیکشن
مہم کی سربراہی سونپی اور ساتھ ہی یہ شور ہونے لگا کہ بی جے پی کی طرف سے
بھارت کا آئندہ وزیراعظم بھی نریندر مودی ہی ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بی
جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کی مرکزی حکومت سے محرومی نے
انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں شدت لانے اور
ہندوستان کی اکثریتی آبادی یعنی ہندوئوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں
کے سب سے بڑے دشمن مودی کارڈ استعمال کریں تاکہ بھارت کو مکمل طور پر ہندو
ریاست میں تبدیل کیا جائے اور ہندوتوا کا ایجنڈا مکمل کیا جائے۔ جس کی ایک
تازہ مثال بھارت کے نسبتاً پرامن صوبے اترپردیش کے اندر حالیہ مسلم کش
فسادات کا آغاز ہے۔
یوپی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس نے اترپردیش میں انتخابی معرکہ جیت لیا
تو سارا ہندوستان اس کا ہے۔ مودی نے یوپی میں انتخابی مہم کی سربراہی گجرات
فسادات کے ماسٹر مائنڈ اور اپنے منظور نظر سابق ریاستی وزیرداخلہ امیت شاہ
کو سونپی تاکہ وہاں مسلمانوں اور ہندوئوں میں کشیدگی پیدا کرکے ہندوئوں کی
ہمدردیاں سمیٹی جائیں اور مخالف پارٹیوں کا ووٹ تقسیم کردیا جائے۔ یوں بی
جے پی نے ایک معمولی واقعہ کو بنیاد بناکر پوری منصوبہ بندی سے فسادات
کروائے جن میں مظفر نگر اور اس کے قریبی دیہاتوں میں سینکڑوں مسلمانوں کو
قتل کردیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں وہ گھر بدر ہوکر کیمپوں میں محصور
ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یو پی میں دوبارہ فسادات کروانے کے لئے
فضا ہموار کی جاچکی ہے اور ہندوئوں نے دوبارہ ایک بڑی پنچایت کی تیاری شروع
کردی ہے۔
بی جے پی کا یہ مسلم دشمن رویہ مسلمانوں کے لئے حیران کن نہیں ہے۔ مودی کے
لئے وزارت عظمیٰ کی گدی اس کے گجرات میں قتل عام اور مسلم دشمنی کا ہی
انعام ہے۔ اس سے قبل بھی بی جے پی ہزاروں مسلمانوں کے قاتل اور بابری مسجد
کی شہادت کے مرکزی کردار لال کرشن ایڈوانی کو1990ء میں رام مندر تعمیر کرنے
کے لئے رتھ یاترا اور بابری مسجد کی شہادت کے انعام میں مرکز میں وزارت
داخلہ‘ نائب وزارت عظمیٰ اور پارٹی کی صدارت کے فرائض سونپ چکی ہے۔
ایڈوانی کو مودی کا سیاسی استاد مانا جاتا ہے مگر مودی اپنے استاد سے دوقدم
آگے بڑھ کر مسلم دشمن ثابت ہوا ہے۔ مودی ایک خودپرست‘ سفاک اور شاطر انسان
ہے۔ اس کی کاشت پرداخت اور پرورش انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے
ہاتھوں ہوئی ہے۔ اس نے تیرہ برس تک آر ایس ایس کے ایک کارکن کی حیثیت سے
کام کیا ہے۔ اس کے بعد 1980ء میں جب وہ بی جے پی میں شامل ہوا تو خیال کیا
جانے لگا کہ بی جے پی میں ہندو انتہا پسندی کا اثرورسوخ بڑھے گا۔ مودی نے
اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں کتنے ہی مسلمانوں کا جعلی مقابلوں میں سفاکانہ
انداز سے قتل کروایا‘ مخالفین کو دبا کر رکھ دیا اور عیاری سے پارٹی کی
مرکزی قیادت میں جگہ بنائی۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر ایسا
شخص بھارت کا وزیراعظم بن جائے تو بھارت کا مستقبل کیا ہوگا؟
حال ہی میں جب ایک برطانوی صحافی نے انٹرویو کے دوران یہ سوال کیا کہ آپ کو
کبھی گجرات کے قتل عام پر افسوس ہوا ہے یا نہیں؟ اس پر مودی نے حقارت سے
جواب دیا ’’کتا بھی گاڑی کے نیچے آجائے تو افسوس تو ہوتا ہے‘‘
سنگھ پریوار نے بھارت کو مکمل طور پر ہندو ریاست بنانے کے خواب کی تکمیل کے
لئے اور مودی کو کامیاب کروانے کی بھرپور کاوشیں شروع کردی ہیں۔ قومی اور
بین الاقوامی سطح پر مودی کی تشہیر اور اس کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے
کروڑوں روپے خرچ کردئیے گئے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر منظم گروپ بھی
اس سلسلے میں کام کررہے ہیں۔ دوسری جانب بھارت کا کارپوریٹ میڈیا اور بڑے
بڑے تاجر و سرمایہ دار بھی مودی کے ہمنوا ہیں اور نریندر مودی ذاتی طور پر
ان میں گہرا اثرورسوخ رکھتا ہے۔ جن کے دل میں ایک کٹر ہندو توا لیڈر کو
وزیراعظم دیکھنے کی خواہش مچل رہی ہے ۔ جبکہ دوسری طرف کانگریس کی پوزیشن
کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ منموہن سنگھ کی حیثیت کئی ایک وجوہات کی بنا
پرپارٹی میں متنازعہ ہوچکی ہے۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں اختلافات سراٹھا
رہے ہیں۔ اس صورت حال میں بی جے پی‘ سنگھ پریوار اور بھارتی فوج کے بعض
سابق عہدیدار پوری کوشش میں ہیں کہ نریندر مودی کو ہندوئوں کے سامنے بہتر
متبادل کے طور پر پیش کیا جائے اور اس کے لئے حالات سازگار کئے جائیں۔ اگر
ایسا ہوجاتا ہے تو پورے بھارت پر گجرات ماڈل مسلط کردیا جائے گا اور جے پور
میں مسلمانوں کے لئے ٹوپی اور برقعہ لازم قرار دینے کی خواہش (تاکہ ان کی
’’شناخت‘‘ آسان ہو) بھارت پر لاگو کی جائے گی۔ پاکستان سے بھی براہ راست
تصادم کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
مودی کی بطور وزیراعظم نامزدگی سے بھارت کے مسلمان شدید تحفظات اور خوف کی
کیفیت میں مبتلا ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس صورت میں ان کے سامنے کیا لائحہ
عمل ہے؟
پہلی صورت تو یہ ہے کہ وہ مجبور و مقہور ہوکر ہندو کے زیر تسلط زندگی
گزارنے پر تیار ہوجائیں اور ہر کسی کے ستم پر خاموشی تان لینے کی روش
اپنالیں۔
بصورت دیگرمیں وہ اپنے حقوق‘ اپنی آزادی اور اپنے وقار کے لئے جینا سیکھ
لیں اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ قرآن و سنت کو تھام کر اپنے آپ کو
منظم کریں۔ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کا بغل بچہ
اور ان کے مفادات کی چراگاہ بننے کی بجائے ہندوئوں کے تسلط سے آزادی کا
راستہ اپنائیں ۔
ایک طرف تو بھارت میں یہ صورت حال جاری ہے کہ انتخابی کامیابی کی قیمت
مسلمانوں کا لہو ٹھہرا ہے اور ان کی حیثیت مختلف سیاسی جماعتوں کے نزدیک
انتخابی مفادات کی منڈی سے زیادہ نہیں جس کی تائید اترپردیش میںمسلمانوں کے
قتل عام کی حالیہ داستان کررہی ہے اور شاید اس کی کچھ اور مثالیں آنے والے
دنوں اور بھارتی انتخابات کے دوران بھی مل جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بی
جے پی اور مودی بھی اپنے سافٹ امیج کے لئے مسلمانوں کی ہمدردی کی کچھ
گلچھڑیاں اڑا دیں…
مودی کا بطور وزیراعظم نامزد ہونا بھارت میں اسلام اور پاکستان دشمنی کا
پھیلتا ہوا ناسور ’’امن کی آشا‘‘ کے نمک خواروں کو آئینہ دکھانے کے لئے
کافی ہے اور آنے والے ایام میں بھارت کا حقیقی چہرہ ان کے سامنے مزیدکھل کر
آجائے گا۔تاہم یہ صورت حال پاکستان کے مسلمانوں سے اس امر کی متقاضی ہے کہ
وہ اپنے ہمسایہ ملک میں بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کریں۔ اپنے کردار و عمل
کی اصلاح کرکے واضح لائحہ عمل طے کریں جس سے مسلمانوں کے زخموں کی دادرسی
ہو اور اسلام دشمنوں کے منصوبے ناکام ہوں۔ حالات کے بدلتے تیور بھارت کے
خلاف غزوہ ہند کی آمد کی بازگشت ہیں۔ جس میں شریک ہونے والوں کے لئے اللہ
کے نبیeنے دنیا میں فتح اور آخرت میں جنت کی بشارت دی ہے۔ ان بشارتوں کا
مستحق بننے کے لئے امت مسلمہ کے ہرفرد کے لئے اس کی تیاری لازم ہے۔ |