محمد مجیددن بھر اپنی طرح کے معمر اور خستہ رکشے پر
سواریوں کو ان کی منزل مقصود پہنچاتا رہا جیسےہی شام ہوئی اسے اپنے بیوی
اوراکلوتے بیٹے کی فکر لاحق ہوئی اور رکشہ اپنے گھر کی طرف دوڑانے لگا لیکن
اس کےخستہ حال رکشے کی حالت پھر سے بگڑنے لگی محمد مجید کی کافی کوشش کےبا
وجود رکشے نے اسٹارٹ ہونے سے انکارکر دیا۔دن بھر کا تھکا ہارا محمد مجید
رکشے کو مکینک کی شاپ پر لے کر آیا حسب سابق مکینک نے محمد مجید سے کہاکہ
بابا مجید اب نہ تو یہ رکشہ اس قابل ہے کہ سواریوں کا بوجھ اٹھا سکے اور نہ
ہی آپ کی عمر ہےکہ آپ رکشہ چلائیں۔اگر آپ نے رکشہ چلانا ہی ہے تو میں ہزار
بار کہہ چکا ہوں کہ میں ایک بڑےافسر کے امیربیٹے سے آپ کو کچھ رقم لے دیتا
ہوں تا کہ آپ نیا رکشہ خرید سکیں لیکن آپ نجانےکیوں ہربار انکار کر دیتے
ہیں میرا دوست دل کا بہت اچھا ہے وہ اکثر و بیشتر لوگوں کی مدد کرتا رہتا
ہے لیکن شاید آپ اس چیز کو بھیک سمجھتے ہیں لیکن بابا جی یقین جانیں مجھ سے
آپ کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی جب مکینک خاموش ہوا تو محمد مجید گویا ہوا
بیٹا اللہ آپ کےدوست کے رزق میں مزید اضافہ فرمائے میں نے پوری زندگی
اپنےہاتھ سے حلال رزق کمانے کو ترجیح دی ہے میری اللہ سے ہر وقت یہی دعا
رہتی ہےکہ اللہ مجھے بس کسی کا محتاج نہ کرے میں رزق حلال کےلیے مشقت کو
عار نہیں بلکہ عبادت سمجھتا ہوں۔اور آپ جانتے ہی ہومیرے بیٹے نےیونیورسٹی
میں پہلی پوزیشن لی ہے بیٹا اس نے ہمیشہ میرے نقش قدم پر چلنےکی کوشش کی ہے
اسی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے کہ آج کامیابی میرے بیٹے کےقدم چھو رہی ہے
مجھے اپنےبیٹے پرفخرہے۔ہاں بیٹامیں تمہیں یہ بتانا ہی بھول گیا تھا کہ میرا
بیٹا عنقریب باہر کے ملک جا رہا ہے اس نےامتحان دیا تھا جس میں اسے کامیابی
ملی ہے۔
بس اب وہ ویزے کا انتظار کر رہا ہے۔آپ بھی دعا کرنا کہ میرےکاشف کا ویزہ
جلدی آ جائے پھر دیکھنا میرے دن کیسے بدلتے ہیں یارا تم میرے حال پہ نہ
کڑھا کرو میرےبرے دن ختم ہونے والے ہیں میرا کاشف باہر چلا جائے گا تو
اتنےپیسے تو کما ہی لے گا کہ مجھے رکشہ چلانے کی ضوروت نہ رہے گی۔یہ کہتے
ہوئے محمد مجید نے مکینک سے کہا کہ کتنے پیسےہوئے تو رمضان مکینک نے
پیسےلینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بابا جی رہنے دیں کوئی بات نہیں لیکن
محمد مجید نے اس پر اصرارکرنا شروع کر دیا کہ وہ اپنی مزدوری بتائے حالانکہ
محمد مجیدکو بخوبی یہ علم تھا کہ پورے دن کی آمدن سے بس آج رات کا کھانا ہی
کھایا جا سکتا ہے لیکن اس کے بو وجود وہ مکینک کواس کی مزدوری دینےپر بضد
تھا اس نے میکنک کی روایتی محبت پراسے کہا بیٹا مجید یارا میں تمہاری محبت
کو سمجھتا ہوں لیکن یارتو بھی تو اتنا رئیس نہیں ہے کہ میرے جیسوں کےرکشوں
کا بغری اجرت کام کرتا رہے۔ اور تو نے یہ تو سنا ہو گا کہ اللہ کے
پیارےحبیب نے فرمایا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونےسے پہلے دو
تم تو جانتےہی ہو میرے اس پھٹیچر رکشے کا کام صرف تم ہی کرتے ہوباقی مکینک
تو اسے دیکھ کر ہی جواب دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ٹائم نہیں
ہے۔بالاخر محمد مجید کےاصرا پر رفیق مکینک نے کچھ پیسےلے لیے اور اپنے
گھرکی جانب رکشےکو دوڑانےلگا۔محمد مجید اپنے کرائے کے مکان کے دروازے پر
پہنچا تو اس کی بیوی نے رکشےکی آواز سن کر دروازہ کھولا اور اپنےشوہر کا
استقبال کیا محمد مجید نے گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے اپنے اکلوتے بیٹے کاشف
کےبارے میں پوچھا تو اس کی بیوی نے کہا کہ بس آتا ہی ہو گا محمد مجید نے
اپنی بیوی کو خورو نوش کی کچھ اشیا دیتےہوئے کہا کہ کاشف کے آنے تک کھانا
تیارکر دے۔محمد مجید چارپائی پرلیٹ کر اچھے دنوں کے خواب دیکھنے لگا۔
تھوڑی دیر میں اس کا بیٹا کاشف بڑی خوشی خوشی گھر داخل ہوا اور آتے ہی اپنی
ماں کےپاؤں کو چھوا اورآتے ہی اپنےباپ کےگلےمیں بانہیں ڈال کر کہا بابا
مبارک ہو یونورسٹی نے اپنے خرچے پر مجھے بیرون ملک بھیجے گی ایک سے دو دن
میں ویزا آ جائے گا۔اور یہ کہ جس سیٹھ کی شاپ پر میں مون مارکیٹ میں کام
کرتا ہوں اس کا بیٹا فیصل بھی بیرون ملک ہے اسکےبیٹے نے کہا ہےکہ جیسے ہی
پہچوگے آپ کی نوکری کا انتظام ہو جائے گا بابا اس نے ایک مہنے کی تنخواہ
اتنی بتائی ہے کہ چند اس تنخواہ سے چند مہینوں میں ہم اپنا گھرخرید سکیں
گے۔یہ سن کر محمد مجیدکی آنکھوں میں آنسو آ گئے کاشفنے کہا کہ بابا آپ تو
اتنے بہادر انسان ہیں رو کیوں رہے ہیں اس پرمحمد مجید نےکہا یار یہ خوشی کے
آنسو ہیں اور بیٹا تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں اور تمہاری ماں تمہاری جدائی
کیسے برداشت کریں گے۔ اس پر کاشف نے مسکراتےہوئے کہا بابا کس نےکہا کہ میں
ہمیشہ آپ سےدور رہوں گا۔بس تھوڑے عرصہ کے بعد آپ کو بلا لوں گا۔محمد مجید
اس کی بیوی اور کاشف نے خوشی خوشی کھانا کھایا اور آنکھوں میں حسین خواب
سجائے سو گئے۔صبح ہوتےہی حسب سابق محمد مجید اپنے بیٹے کورکشہ پر سوار کرکے
کاشف کو مون مارکیٹ چھوڑا اور خود رزق کی تلاش میں سواریوں کی تلاش میں نکل
پڑا۔
کاشف اپنے سیٹھ کی شاپ پر پہچا تو اس کےسیٹھ نے کہا کاشف تم جانتے ہو کہ
میں نے ہمیشہ تم کو بیٹا سمجھا ہے فیصل تو پہلے ہی باہر تھا اب تم بھی جا
رہے ہو یارتمہاری موجودگی میں مجھے کبھی فیصل کی کمی کا احساس نہیں ہوا
نجانےتمہارے جانے پر میرا دل اتنا پریشان کیوں ہے شاپ پرآنے والے ایک
دیرینہ گاہک نے ان کی گفتگقو سن کر کہا کہ میں تو یہی سمجھتا تھا کہ کاشف
آپ کا بیٹا ہے جس پر سیٹھ ارشد نے کہا بالکل یہ میرا بیٹا ہے۔ مارکیٹ میں
گاہکوں کی ریل پیل جاری تھی کاشف اور سیٹھ ارشد برون ملک کی زندگی پر گفتگو
کر رہے تھے کہ انسانیت کے دشمنوں نے لاہورکی اس بڑی مارکیٹ میں ایک ایسا
خوفناک دھماکہ کیا کہ جس سے درجنوں لوگ آگ میں جل کر راکھ ہو گئے۔سیٹھ ارشد
نے صحیح کہا تھا اس کےلیے کاشف کی جدائی قابل تحمل تھی اسی لیے کاشف کےساتھ
اپنےابدی سفرپر نکل پڑا۔
مون مارکیٹ میں دھماکےکی خبر پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی یہ
خبر کسی طرح محمد مجید تک بھی پہنچی اور اس نے خود کو مون مارکیٹ پہنچایا
مارکیٹ میں انسان نما دنروں کی تباہی دیکھ محمد مجید کو یقین ہو گیا کہ اس
کا کاشف بیرون ملک جانےکی بجائے اپنے خالق کی باگاہ میں پہنچ چکا ہے۔ محمد
مجید نے راکھ سے اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کی کافی کوشش کی لیکن اسے کاشف کا
ایک بال تک نہ مل سکا۔
یہ ایک مجید یا کاشف کی کہانی نہیں ہزاروں کاشف اور مجید انسان نما درندوں
کی درندگی کا شکار بن چکے ہیں میں نے آج ایک بڑی مذہبی جماعت اوراسلام کے
ٹھیکے دار ایک مذہبی لیڈر کا بیان پڑھا تو مجھے ایسے لگا کہ جیسے لیڈر یہ
درندوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کی لاشوں کو نوچ رہا ہو۔کوئی دکھی انسان
کسی نہتے اورمظلوم انسان کو خود کش حملوں میں قتل کر سکتا ہے؟دکھ کے احساس
سےآشنا کوئی شخص کسی انسان کا گلہ کاٹ سکتاہے؟
طالبان دکھی لوگ ہیں یا طالبان کی درندگی کا نشانہ بننے والے ہزاروں معصوم
لوگ؟ اس حقیقت کو ہر با ضمیر اور دکھ درد کے جذبات سے آشنا شخص جانتا ہے۔
کاش حقیقت میں طالبان دکھی لوگ ہوتے اور لا تعداد لوگ ان کے تشدد کا نشانہ
بننےسےبچ جاتے۔
|