قربانی۔۔فضائل ومسائل

فضائلِ عشرہ ذی الحجہ :اﷲ تعالی نے قرآن مجید کی ’’ سورۃالفجر ‘‘ میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے ، وہ دس راتیں جمہور کے قول کے مطابق عشرۃ ذی الحجہ کی راتیں ہیں۔ خصوصاً نویں ذی الحجہ(یومِ عرفہ) کا روزہ رکھناایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ،لیکن حْجاّج کے لئے نہیں۔ اور عید کی رات میں بیداررہ کر عبادت میں مشغول رہنا بڑی فضیلت اور ثواب کا موجب ہے۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالی کی عبادت کے لئے عشرہ ذی الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں،ان دس دنوں میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابرہے۔(ترمذی ، ابن ماجہ)

تکبیراتِ تشریق :اﷲ اکبر اﷲ اکبر لاالٰہ الااﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد
یومِ عرفہ یعنی ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی فجر سے تیر ہویں تاریخ کی عصرتک ہر نماز کے بعد بآواز بلند ایک مرتبہ مذکورہ تکبیر کہنا واجب ہے۔ فتویٰ اس پر ہے کہ باجماعت اورتنہا نماز پڑھنے والے اس میں برابر ہیں، اس طرح خواتین وحضرات سب پر واجب ہے ، البتہ عورت بآواز بلند تکبیر نہ کہے آہستہ سے کہے۔(شامی )

عید الاضحی کے مسنون اعمال :آپ ﷺ نے فرمایا :جو شخص عید الاضحی کی ر ات عبادت کے لئے بیدار رہا،اس کا مردہ نہیں ہوگا ، جس دن (قیامت کے دن)دل مردہ ہوں گے۔(طبرانی)۔صبح سویرے اٹھنا ، غسل ومسواک کرنا ، نئے سِلے ہوئے یاپاک صاف عمدہ کپڑے جواپنے پاس ہوں پہننا ، خوشبو لگانا، نمازِعید سے پہلے کچھ نہ کھانا ،عید گاہ کو جاتے ہوئے راستہ میں بآواز بلند مذکورہ تکبیراتِ تشریق کہنا۔

نماز عید :نمازعید دورکعت ہیں۔ نماز عید اور دیگر نمازوں میں فرق صرف اتناہے کہ اس میں ہررکعت کے میں تین تین تکبیریں زائد ہیں۔ پہلی تکبیرات رکعت اولی میں سبحانکَ اَللّٰھْمَّ پڑھنے کے بعد قرا ئت سے پہلے۔ رکعت ثانیہ میں قرائت کے بعد رکوع سے پہلے۔ان زائد تکبیروں میں میں کانوں تک ہاتھ اٹھانے ہیں۔ پہلی رکعت میں دوتکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑدیں ،تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں۔ دوسری رکعت میں تینوں تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں ، چوتھی تکبیر کے ساتھ رکوع میں چلے جائیں۔اگر دوران نماز امام یا کوئی مقتدی عید کی زائد تکبیریں یا ترتیب بھول جائے تو ازدحام کی وجہ سے نماز درست ہوگی سجدہ سہو بھی ضروری نہیں۔ اگر کوئی نماز میں تاخیر سے پہنچا اورایک رکعت نکل گئی تو فوت شدہ رکعت کو پہلی رکعت کی ترتیب کے مطابق قضاء کرے گا یعنی ثناء ( سْبحانَکَ اَللّٰھْمَّ) کے بعد تین زائد تکبیریں کہے گا اور آگے ترتیب کے مطابق رکعت پوری کریگا۔
نماز عید کے بعد خطبہ سننا مسنون ہے۔ خطبہ سننے کا اہتمام کرنا چاہیئے، خطبہ سے پہلے اٹھنا درست نہیں ہے۔

قربانی کاحکم: قربانی واجب ہے ،جناب ِرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ہرسال قربانی فرمائی، کسی سال ترک نہیں فرمائی ،جس عمل کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے لگاتار کیا اور کسی سال بھی نہ چھوڑا ہو، تویہ اس عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے قربانی نہ کرنے والوں پر وعید فرمائی ہے، اس حوالے سے احادیث مبارکہ میں بہت سی وعید یں ملتی ہیں،مثلاً: آپ کا یہ ارشاد کہ جو قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ،علاوہ ازیں خود قرآن کریم میں بعض آیات سے بھی قربانی کا وجوب ثابت ہے ، جولوگ حدیث پاک کے مخالف ہیں اور اس کو حجت نہیں مانتے ،وہ قربانی کا انکار کرتے ہیں، ان سے جولوگ متاثر ہوتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ پیسے دے دیئے جائیں ،یا یتیم خانہ میں رقم دے دی جائے، یہ بالکل غلط ہے۔کیونکہ عمل کی ایک تو صورت ہوتی ہے ،دوسری حقیقت ہے۔ قربانی کی صورت یہی ضروری ہے ، اس کی بڑی مصلحتیں ہیں اس کی حقیقت اخلاص ہے۔ آیت قرآنی سے بھی یہی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔

قربانی کے فضائل:مسند احمد کی روایت میں ایک حدیث پاک ہے حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ،قربانی تمہارے باپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ نے پوچھا ،ہمارے لیے اس میں ثواب ہے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،ہر ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں۔

قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں،بالوں ،کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اورزمین تک اس کا خون پہنچنے سے پہلے اﷲ تعالی کے یہاں سے قبولیت کی سند مل جاتی ہے، اسلئے تم قربانی خوش دلی سے کرو۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں،اس دن قربانی سے زیادہ کوئی دوسرا عمل نہیں الایہ کہ صلہ رحمی کی جائے۔(طبرانی )۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی فاطمۃ الزہرائرضی اﷲ عنہا سے ارشاد فرمایا : تم اپنی قربانی ذبح ہوتے وقت موجود رہو، کیونکہ پہلا قطرہ خون گرنے سے پہلے انسان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔قربانی کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں،یہ اسلام کے شعائر میں سے ہے اور اس سلسلہ میں جن شرائط وآداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے ،انہیں اپنے سامنے رکھیں اور قربانی کا جانور بھی خوب دیکھ بھال کر خریدیں۔

مسائل قربانی :مسئلہ نمبر ۱ : جس شخص پر صدقہ فطرواجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے،یعنی قربانی کے تین ایام (۰۱/۱۱/۲۱/ذوالحجہ)کے دوران اپنی ضرورت سے زائد اتنا حلال مال یا اشیاء جمع ہوجائیں کہ جن کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو،تو اس پر قربانی لازم ہے ،مثلاً رہائشی مکان کے علاوہ کوئی مکان ہو،خواہ تجارت کیلئے ہو یانہ ہو، اسی طرح ضروری سواری کے طورپر استعمال ہونے والی گاڑی کے علاوہ گاڑی ہو،تو ایسے شخص پر بھی قربانی لازم ہے۔
مسئلہ نمبر۲: مسافر پرقربانی واجب نہیں۔
مسئلہ نمبر ۳: قربانی کا وقت دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک ہے ، بارہویں تاریخ کا سورج غروب ہوجانے کے بعد قربانی درست نہیں۔قربانی کا جانوردن کو ذبح کرنا افضل ہے، اگرچہ رات کوبھی ذبح کرسکتے ہیں، لیکن افضل بقرعید کا دن پھر گیارہویں اور پھر بارہویں تاریخ ہے۔
مسئلہ نمبر۴: شہر میں رہنے والوں کے لئے عید الاضحی کی نمازپڑھ لینے سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنا درست نہیں ہے ،دیہات اور گاؤں والے صبح صادق کے بعد فجرکی نماز سے پہلے بھی قربانی کا جانور ذبح کرسکتے ہیں ،اگر شہری اپنا جانور قربانی کے لئے دیہات میں بھیج دیں، تو وہاں اس کی قربانی بھی نمازعید سے قبل درست ہے اور ذبح کرانے کے بعد اس کا گوشت منگواسکتاہے۔
مسئلہ نمبر ۵: اگرمسافر مالدار ہو اورکسی جگہ پندرہ دن قیام کی نیت کرے ،یابارہویں تاریخ کوسورج غروب ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائے ،یاکسی نادار آدمی کے پاس بارہویں تاریخ کو غروب شمس سے پہلے اتنا مال آجائے کہ صاحب نصاب ہوجائے ،تو ان تمام صورتوں میں اس پر قربانی واجب ہوجاتی ہے۔ نیز اگر مسافر مالدار ہو دوران سفر قربانی کیلئے رقم بھی ہو اور وہ پندرہ دن سے کم عرصہ کیلئے رہائش پذیر ہونے کے باوجود بآسانی قربانی کرسکتاہوتو قربانی کرلینا بہترہے۔
مسئلہ نمبر ۶: قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا زیادہ اچھا ہے، اگر خود ذبح نہ کرسکتاہو،تو کسی اور سے بھی ذبح کراسکتاہے۔بعض لوگ قصاب سے ذبح کراتے وقت ابتداء ً خود بھی چھری پرہاتھ رکھ لیاکرتے ہیں ،ایسے لوگوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ قصاب اور قربانی والے دونوں مستقل طورپر تکبیر پڑھیں ، اگر دونوں میں سے ایک نے نہ پڑھی تو قربانی صحیح نہ ہوگی۔ (شامی : ۶/۳۳)
۔ْ
مسئلہ نمبر ۹: قربانی صرف اپنی طرف سے کرنا واجب ہے۔اولاد کی طرف سے نہیں ، چاہے بالغ ہوں یانابالغ ،مالدار ہوں یاغیر مالدار۔
مسئلہ نمبر ۰۱: درج ذیل جانوروں کی قربانی ہوسکتی ہے: اونٹ ،اونٹنی ،بکرا ،بکری ، بھیڑ ،دنبہ ، گائے، بیل ،بھینس ، بھینسا۔بکرا ،بکری ،بھیڑ اوردنبہ کے علاوہ باقی جانوروں میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں بشرطیکہ کسی شریک کاحصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اور سب قربانی کی نیت سے شریک ہوں یاعقیقہ کی نیت سے ، صرف گوشت کی نیت سے شریک نہ ہوں۔گائے ، بیس اور اونٹ وغیرہ میں سات سے کم افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں ،اس طورپر کہ مثلاً چار آدمی ہوں ،تو تین افراد کے دو دوحصے اور ایک کا ایک حصہ ہوجائے، نیز اگرپورے جانور کو چارحصوں میں تقسیم کرلیں یہ بھی درست ہے۔ یایہ کہ دوآدمی موجود ہوں تو نصف نصف بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔اسی طرح اگرکئی افراد مل کر ایک حصہ ایصال ثواب کے طورپر کرنا چاہیں، تویہ بھی جائز ہے، البتہ ضروری ہے کہ سارے شرکاء اپنی اپنی رقم جمع کرکے ایک شریک کو ہبہ کردیں اوروہ اپنی طرف سے قربانی کردے اسی طرح قربانی کا حصہ ایک کی طرف سے ہوجائیگا اورثواب سب کو ملے گا۔
مسئلہ نمبر ۱۱: اگر قربانی کاجانور اس نیت سے خریدا کہ بعد میں کوئی مل گیا تو شریک کرلوں گا اور بعدمیں کسی اور قربانی یا عقیقہ کی نیت سے شریک کیا تو قربانی درست ہے اور اگر خرید تے وقت کسی او رکو شریک کرنے کی نیت سے خریدا تھا تو اب اگر شریک کرنے والا غریب ہے تو کسی اور کو شریک نہیں کرسکتا اور اگر مالدار ہے تو شریک کرسکتاہے ،ایک جانور قربانی کرنے کے لئے خریدا، اگر اسکے بدلے دوسرا حیوان دینا چاہے ،تو جائزہے ،مگر یہ لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ دوسرا حیوان کم از کم اسی قیمت کاہو ،اگر اس سے کم قیمت کا ہو، تو زائد رقم اپنے پاس رکھنا جائز نہیں، بلکہ صدقہ کرنا ضروری ہے ،ہاں اگر زبانی طور پر جانور کو متعین نہ کیاہو، بلکہ یہ ارادہ کیا ہو کہ اگر اچھی قیمت میں فروخت ہو رہا ہو،تو فروخت کردیں گے، اس صورت میں اصل قیمت سے زائد رقم اپنے پاس رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
مسئلہ نمبر ۲۱ : قربانی کا جانور گم ہوا ،اس کے بعد دوسرا خریدا ،اگر قربانی کرنے والا امیر ہے، تو ان دونوں جانوروں میں سے جس کو چاہے ذبح کرے ،جب کہ غریب پر ان دونوں جانوروں کی قربانی واجب ہوگی۔اس کی تفصیل یوں ہے کہ امیر آدمی پر نصاب کی وجہ سے قربانی واجب تھی اس نے وہ ادا کردی اس کے حق میں جانور متعین نہیں ہوا تھا اسے اختیار ہے کہ جس جانور کو چاہے ،ذبح کردے جبکہ غریب آدمی پر قربانی لازم نہیں تھی، غریب نے از خود جانور خرید کر اپنے پر قربانی کو لازم کرلیا اور جو جانور اس نے خریدا وہ بھی متعین ہوچکا ،اگر وہ گم ہوجائے تو اس کے بدلے دوسری قربانی لازم نہ تھی ،اس کے باوجود غریب نے دوسرا جانور خرید کر اپنے پر قربانی لازم کرلی، اس بناء پر فقیر آدمی پر دوسری قربانی بھی لازم ہوئی، لہذا غریب آدمی دونوں جانوروں کی قربانی کریگا ،بخلاف مالدار کے کہ اس پر صرف قربانی لازم ہے، جانور متعین نہیں ہے۔دونوں جانوروں میں سے کسی ایک کی قربانی کردے تو کافی ہے۔
مسئلہ نمبر ۳۱ : قربانی کے جانور میں اگر کئی شرکاء ہیں،تو گوشت وزن کر کے تقسیم کریں۔
مسئلہ نمبر۴۱: بھیڑ بکری جب ایک سال کی ہوجائے ،گائے بھینس دوسال کی اور اونٹ پانچ سال کا، تو اس کی قربانی جائز ہے اگر اس سے کم ہے تو جائز نہیں۔ ہاں دنبہ اور بھیڑ (نہ کہ بکرا) اگر اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہو،تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔ موجودہ دور میں جانوروں کو تول کر (وزن کرکے )خرید وفروخت کرنا بھی جائز ہے ،ایسی قربانی بلاشبہ درست ہے۔
مسئلہ نمبر ۵۱: قربانی کا جانور اگر اندھا ہو ، یا ایک آنکھ کی ایک تہائی یا اس سے زائد روشنی جاتی رہی ہو۔ یا ایک کان ایک تہائی یا اس زیادہ کٹ گیاہو، یا دم ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گئی ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
٭ گائے اور بھینس کے دوتھن یا بکری کا ایک تھن خشک ہو چکا ہو یا پیدائشی طورپر نہ ہوں تو ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں۔
مسئلہ نمبر ۶۱ : اسی طرح اگر جانور ایک پاؤں سے لنگڑ اہے یعنی تین پاؤں سے چلتاہے، چوتھے پاؤں سے سہارا لیتاہے ،لیکن لنگڑاکے چلتاہے تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے۔
مسئلہ نمبر ۷۱ : قربانی کا جانور خوب موٹا تازہ چاہیئے ،اگر جانور اس قدر کمزور ہو کہ ہڈیوں میں گودا بالکل نہ رہاہو،تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ بعض لوگ موٹا تازہ جانور محض دکھلاوے یا ریاء و نمود کے لئے خرید تے ہیں ایسے لوگ قربانی کے ثواب سے محروم ہوتے ہیں ،ان پر لازم ہے کہ وہ موٹا تازہ جانور تلاش کرتے ہوئے محض ثواب کی نیت کریں۔
مسئلہ نمبر ۸۱ : اگر کسی جانور کے تمام دانت گر گئے ہوں ،تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے اور اگر اکثر دانت باقی ہوں ،کچھ گر گئے ہوں، تو جائز۔ اگر کسی جانور کی عمر پوری ہو اور دانت نہ نکلے ہوں ،تو بھی قربانی ہوسکتی ہے، تاہم اس سلسلہ میں صرف جانوروں کے عام سودا گروں کی بات معتبر نہیں ہے، بلکہ یقین سے معلوم ہونا ضروری ہے ،یا یہ کہ خود گھر میں پالا ہوا جانور ہو، تو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ نمبر ۹۱ : جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔
مسئلہ نمبر ۰۲ : اگر کسی جانور کے سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ چکے ہوں، اس طورپر کہ دماغ اس سے متاثر ہوا ہو، تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں اور اگر معمولی ٹوٹے ہوں یا سرے سے سینگ ہی نہ ہوں جیسے بغیر سینگ کی گائے بکری تو بلا کراہت جائز ہے۔
مسئلہ نمبر ۱۲ : خارش زدہ جانور کی قربانی جائز ہے ، البتہ اگر خارش کی وجہ سے بے حد کمزور ہوگیا ہو،تو پھر جائز نہیں۔
مسئلہ نمبر ۲۲: اگر قربانی کے جانور میں کوئی ایسا عیب پیدا ہوا ،جس کے ہوتے ہوئے قربانی درست نہ ہو،تو مالدار شخص کے لئے یہ ضروری ہے کہ دوسرا جانور اس کے بدلے خرید کر قربانی کرے ،غریب ہے تو اسی جانور کی قربانی کرسکتاہے۔اگر قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لئے گراتے ہوئے کوئی عیب پیدا ہوجائے ،مثلا: ً ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جائے یا سینگ وغیرہ ٹوٹ جائے تو اس سے قربانی پر اثر نہیں پڑے گا ،البتہ جانور کو گراتے وقت احتیاط ضروری ہے۔
مسئلہ نمبر ۳۲ : قربانی کے گوشت میں بہتر یہ ہے کہ تین حصے کرے ،ایک حصہ اپنے لئے رکھے ،ایک حصہ اپنے رشتہ داروں کو دے ،اور ایک حصہ فقراء مساکین کودے ، لیکن اگر سارے کا سارا اپنے لئے رکھے تب بھی جائز ہے۔
مسئلہ نمبر ۴۲: قربانی کی کھال کسی کو خیرات کے طورپر دے یا فروخت کر کے اس کی قیمت فقراء کو دے۔ البتہ اگر کسی دینی تعلیم کے مدرسہ اور جامعہ کودے دے یہ تو سب سے بہتر ہے کیونکہ علم دین کا احیاء سب سے بہترعمل ہے۔
مسئلہ نمبر ۵۲: قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں بھی لایاجاسکتاہے، اس طورپر کہ اس کا عین باقی رہے ،مثلا ً مصلٰی بنائے ،یا رسی یا چھلنی۔
مسئلہ نمبر ۶۲: قربانی کی کھال کی قیمت مسجد کی مرمت یا امام ومؤذن یا مدرس یا خادم کی تنخواہ میں نہیں دی سکتی، نہ اس سے مدرس کی تعمیر ہوسکتی ہے اور نہ شفاخانوں یا دیگر رفاہی اداروں کی۔
مسئلہ نمبر ۷۲ : قربانی کی کھال قصائی کو اجرت میں دینا جائز نہیں۔ گر کسی کی قربانی کی کھال چوری ہوگئی ،یا چھن گئی تو اسے چاہیئے کہ وہ کھال کی رقم صدقہ کردے اگر استطاعت نہ ہوتو کوئی حرج نہیں قربانی پر فرق نہیں پڑے گا۔
مسئلہ نمبر ۸۲: اگر قربانی کے تین دن گزر گئے اور قربانی نہیں کی تو اب ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کردے اور اگر جانور خریدا تھا مگر قربانی نہیں کی ،تو بعینہ وہی جانور خیرات کردے۔
مسئلہ نمبر ۹۲: ایصال ثواب کے لئے قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتاہے اور دوسروں کو بھی کھلاسکتاہے۔
مسئلہ نمبر ۰۳: اگر کسی شخص کے حکم کے بغیر اس کی طرف سے قربانی کی تو قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو اس کے حکم واجازت کے بغیر قربانی میں شریک کیا،تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر حصہ داروں میں سے کوئی ایک صرف گوشت کی نیت سے شریک ہے تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہوگی۔
مسئلہ نمبر ۱۳ : قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دے سکتاہے البتہ کسی کو اجرت میں نہیں دے سکتا۔
مسئلہ نمبر ۲۳ : گابھن جانور کی قربانی صحیح ہے اگر بچہ زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کردیں۔ اور گوشت آپس میں تقسیم کرنے کی بجائے صدقہ کردیں۔نیز قربانی کے جانور کے بال کاٹنا یا دودھ دوھنا درست نہیں ہے ،اگر کسی نے ایسا کیا تو اسے صدقہ کرے اگر بیچ دیا تو اسکی رقم کو صدقہ کرنا واجب ہے۔ (بدائع : ۵/۸۷ )
مسئلہ نمبر ۳۳ : جوشخص قربانی کرنا چاہے اس کے لئے مستحب یہ ہے کہ یکم ذی الحجہ سے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک نہ اپنے جسم کے بال کاٹے اور نہ ناخن۔(ابو داؤد )
مسئلہ نمبر ۴۳: قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک بھی رکھاجا سکتاہے۔ (ابو داؤد )
مسئلہ نمبر ۵۳: جانور ذبح کرنے کیلئے چھری خوب تیز ہونی چاہیئے تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو۔ (ابوداؤد )
مسئلہ نمبر ۶۳: اگرکوئی شخص اپنی قربانی کا گوشت سارا کا سارا کسی او رکو کھلادے خود کچھ بھی نہ کھائے تو ایسا کرسکتاہے۔(کتا ب الآثار )
مسئلہ نمبر ۷۳: خصی جانور کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے ، آپﷺ سے خصی بکرے کی قربانی ثابت ہے۔
مسئلہ نمبر۸۳: ذبح کرتے قت تکبیر کے علاوہ کچھ اورنہیں کہنا چاہیئے ، مثلا: وغیرہ۔ (کتاب الآثار )
مسئلہ نمبر۹۳: اگرکسی نے قربانی کی نذر مانی اور وہ کام ہوجائے ،تو قربانی واجب ہے، اس سے خود نہیں کھاسکتا سارا فقراء کوکھلادے۔
مسئلہ نمبر ۰۴ : اگر کسی شخص کی ساری یا اکثر آمدنی حرام کی ہو،تو اس کو قربانی میں شریک نہیں کرنا چاہیئے۔ورنہ کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔
مسئلہ نمبر ۱۴ : کسی جانور میں تمام شرکاء اپنا اپنا حصہ تقسیم کئے بغیر فقراء کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
٭ البتہ اگر نذر کی قربانی ہو یا مرحوم کی وصیت کے تحت قربانی کررہے ہیں تو پھر تقسیم سے پہلے کسی فقیر کو دینا درست نہیں۔
مسئلہ نمبر ۲۴ : کسی نے مرتے وقت وصیت کی کہ میرے مال سے قربانی کی جائے ،تو اس کو خیرات کرنا ضروری ہے، خود کچھ بھی نہ کھائے۔
 
Hafiz Mohammad Siddiq Madani
About the Author: Hafiz Mohammad Siddiq Madani Read More Articles by Hafiz Mohammad Siddiq Madani: 62 Articles with 65930 views Mohammad Siddiq Madani from Chaman Pakistan .
Columnist and Writer of Pak
Chief Editor.
Monthly Albahr Chaman
office Weternary Hospital Road P.O B
.. View More