مکافات عمل

ریاستی عوام کی بد نصیبی کے انہیں حقائق سے ہمیشہ دور رکھا گیا اوراس پر ستم یہ کہ انہوں نے بھی سچ کی تلاش سے روگردانی کی ،آج سے چھیاسٹھ برس پہلے پاکستانی قبائلی لشکر نے ریاست میں یلغار کی ،تب سے آج تک اس حوالے سے متضاد آراء گردش کرتی رہیں ہیں کسی نے انہیں آزاد کشمیر کی آزادی کا زمہ دار ٹھہرایا تو کسی نے انہیں تقسیم کشمیر کا موجد۔۔۔کسی نے پاکستان کی جانب سے بھرپور مدد کہا تو کسی نے انتہائی اجڑ پن۔۔لیکن مورخ سے نہ کبھی کچھ چھپا ہے ناں چھپ سکے گا ،اس دور کے سیاسی معروض پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو تصویر کافی حد تک واضع ہو جاتی ہے ۔۔۔جیسے کہ پاکستان کے ایک مورخ ،زائد چوہدری اپنی تصنیف ’’پاکستان کی سیاسی تاریخ‘‘کی جلد ۳صفحہ ۱۶۸میں رقم طراز ہیں ’’قبائلی لشکر نے ۱۸ ،اکتوبر کو مظفر آباد پر قبضہ کیا تو اس شہر میں تین دن ہندوؤں اور سکھوں کا قتل عام ہوتا رہا۔ قبائلیوں نے بلا امتیاز غیر مسلم بچوں عورتوں اور مردوں کو قتل کرنے کے علاوہ ان کی جوان لڑکیوں کو اغواہ کیا اور انکے گھروں کو لوٹا ۔سردار ابراہیم خان کا خیال ہے کہ اس کی زمہ داری خورشید انور پر عائد ہوتی تھی جو قبائلی حملے کا انچارج تھا۔لارڈبرڈوڈ کا بیان ہے کہ ۲۲ اکتوبر کو بارہ مولہ میں قبائلیوں نے جو قتل عام اور جو لوٹ مار مچائی ،اس کی زمہ داری بھی خورشید انور پر عائد ہوتی تھی لیکن کسی فرد واحد کو اس گھناؤنی سازش کا زمہ دار ٹھہرانا صیح نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ آفریدی و محسود قبائلیوں نے محض جہادی جذبے سے کشمیر پر یلغار نہیں کی تھی بلکہ ان کا مقصد لوٹ مار تھا’’ جب کہ انہیں یہ راہ دکھانے والوں کے مقاصد کچھ اور ہی رہے ہیں ‘‘انہوں نے مظفر آباد و بارہ مولہ کے علاوہ میر پور ،کوٹلی ،پونچھ،نوشہرہ، اوڑی اور بھمبر کے قصبوں اور دیہات میں بے محابا قتل و غارت ،لوٹ مار ،آتشزدگی اور اغوا کی وارداتیں کیں ۔۔یہ قبائلی بے مہار و غیر منظم تھے اور پاکستان کے ارباب اختیار نے کشمیر پر حملے کا ایسا غیر سرکاری و غیر سنجیدہ اقدام کر کے بڑی ہی کوتا اندیشی کا مظائرہ کیا تھاجس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑھی۔‘‘اور کشمیری عوام کو بھی۔

اور’’کشمیر فائٹ فار فریڈم ‘‘ میں جسٹس(ر) یوسف صراف کے مطابق قبائلی ۲۲ اکتوبر کو بارہ مولہ پہنچ چکے تھے اور ’’سینٹ جوزف‘‘ہسپتال کی مدر سپیرئیرتین راہباؤں اور ایک برطانوی جوڑے کو قتل کر دیا گیا۔میرے پڑوسی تین ہندوشمبھو ناتھ،وید لعل اور ارجن ناتھ جو تینوں سکول میں مدرس تھے کو قتل کر دیا گیااورجہاں تک لوٹ ماراور آتشزدگی کا تعلق ہے ہندومسلم میں کوئی تمیز نہ برتی گئی ۔چار جوان بیٹیوں کے والد ’’غنی‘‘نامی جولاہے کی لوئی’’کمبل‘‘ایک قبائلی بالجبر چھیننے لگا تو غنی نے پوچھا !کیا تم لوگ اسی گھناؤنے مقصد کے لئے کشمیر آئے ہو ؟‘‘ یہ سنتے ہی غنی کو موقع پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
جب کہ سعید سہروردی اپنی تصنیف ’’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘‘میں لکھتے ہیں’’ان پٹھانوں کو بھڑکا کر سرینگر پہنچایا جا سکتا تھا۔افغانی حکمراں پٹھانوں کواشتعال دے رہے تھے کہ وہ پشاور پر قبضہ کر لیں،تو اگر انہیں سرینگر پہنچا دیا جائے تو ان کی نظریں پشاور سے ہٹ جائیں گی اور مہاراجہ گھبرا کر پاکستان سے فوجی مداخلت کی درخواست کریگا ،اور یوں پاکستانی فوج سرینگر میں پہنچ جائے گی۔’’صفحہ ۲۱۸‘‘

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے پر پوری دنیا نے اسے آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا ماسوائے افغانستان کے ۔۔۔اور ان کا یہ احتراض تھا کہ اٹک تک کا پختون علاقہ افغانستان کا حصہ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ آج بھی ڈیوریڈ لائن کو پاک افغان سرحد نہیں مانتے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی بنیادی وجہ یہی قبائل ہیں اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ڈیورڈ لائن تنازعہ ہے اور جب پاکستان بنا تو اسے ہزارہا مسائل کا سامنا تو تھا ہی ایک انتہائی خطرناک مسئلہ انہی پختون قبائل کا تھا جنہیں افغان پاکستان سے بغاوت کے لئے اکسا رہے تھے۔وزیر اعلیٰ سرحدخان عبدالقیوم خان اس حساس مسئلہ کے باعث نسبتاً زیادہ گھبراہٹ کا شکار تھے اور انہوں نے محترم’’ لیاقت علی خان‘‘ اورکئی دوسرے اہم لیگی احباب کی مشاورت سے یہ منصوبہ تیار کیا اور پھر ان قبائل کو پشاور میں جمع کر کے انہیں بھارت دشمنی اور جہاد کشمیر پر لیکچر دئیے گئے بے شک کچھ نامور کشمیری رہنما بھی اس کھیل کا حصہ بنے ۔

اس لئے وہ تمام لوگ جو آج بھی قبائلی یلغار کو صیح مانتے ہیں انہیں واقعے کے چند پہلوؤوں پر ضرور غور کرنا ہوگا کہ آج آزاد کشمیر کی اکثر سیاسی پارٹیاں ۴ ،اکتوبر اور ۲۴، اکتوبر کو بننے والی حکومتوں کا دن مناتی ہیں اور یہ بھی واضع حقیقت ہے کہ ان بننے والی حکومتوں کے چارٹرد میں جن علاقوں کو آزاد دکھایا گیا وہ میر پور ،آدھا پونچھ اور مظفر آباد تھے اور اس حکومت نے ان علاقوں کوآزادی کا بیس کیمپ قراردیا اوردیس کے باقی ماندہ حصے کی آزادی کا عہد کیا اور دیس پر سب سے بڑا خطرہ بھارتی جارحیت کا تھا اور اس کے لئے جموں پٹھان کوٹ ایک واحد زمینی راستہ تھا جہاں سے بھارتی افواج ریاست میں داخل ہو سکتی تھیں دوسرا سرینگر ائر پورٹ ۔۔۔اور قبائلی لشکر ۱۸،اکتوبر کو مظفر آباد اور ۲۲، اکتوبر کو بارہ مولہ تک پہنچ گئے جب کہ بھارتی افواج ۲۷ ،اکتوبر کو سرینگر ائر پورٹ پر اتریں ۔اور اگر وہ لوگ واقعی ہماری مدد کو آئے ہوتے تو پانچ روز میں وہ سرینگر ضرور پہنچ سکتے تھے کیوں کہ بارہ مولہ سے سرینگر زیادہ دور نہیں ہے۔۔۔دوسرا اہم سوال یہ کہ اگر وہ واقعی ہمارے دیس کی آزادی میں ہماری مدد کو آئے تھے تو انہیں سوچیت گھڑھ پٹھان کوٹ’’ جموں ‘‘ہند سرحد پر جا کر بیٹھ جانا چاہیے تھا مظفر آباد نہیں ۔۔۔کیوں کہ مظفر آباد کو مقامی لوگ آزاد کروا کر پہلے ہی آزاد حکومت قائم کر چکے تھے اس لئے یہ دعٰوے سے کہا جا سکتا ہے کہ ان قبائلی گنواروں کے کشمیر آنے سے بھارت کو کشمیر میں فوجی مداخلت کا جواز ملا جس کا وہ پہلے سے منتظر تھا اور پھر ایک آزاد و خود مختار دیس کی وحدت پارہ پارہ ہو ئی،اور ہماری کئی نسلیں لاشے اٹھاتے گزر گئیں اور یہ سلسلہ مذید کہاں تک چلے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی ۔۔۔۴۷ کی عوامی مسلح جدوجہد میں مقامی لوگوں نے صرف ڈوگرہ فورسز کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے اور اوپر کی سطح پر کیا سازشیں اور کھیل کھیلے گئے ان سیدھے لوگوں کو اس کی زرہ خبر نہ تھی ۔جب کے جبراً تقسیم کے بعد غاصب قوتوں نے آر پار کے لوگوں کے درمیاں نفرتیں و قدورتیں بڑھانے کی خاطر اس پار کے لوگوں کے ازہیان میں یہ ڈال دیا تھا کہ اس ظلم و بربریت و قتل عام میں آزادکشمیری قبائل بھی شامل تھے۔

ان تمام حالات و واقعات سے یہ بات واضع ہو جاتی ہے جہاں کشمیر کو مسئلہ بنانے میں کئی قومی اور بین الاقوامی عناصر کا ہاتھ ہے وہاں پاکستانی زمہ داران کی عاقبت نااندیشی بھی عیاں ہے جب کہ پاکستانی سٹبلشمنٹ اور سیاسی قیادت نے پاکستان کی بقا کی خاطر جن مصائب کے لئے کشمیریوں کی گردن کا انتخاب کیاتھا اور ان ’’اجڑڑ ،گنوار،جاہل و انسانیت کے دشمنوں کو ہمارے گلے میں ڈالا تھا جن کے باعث وحدت کشمیر پارہ پارہ ہوئی تھی آج پاکستان مکمل طور پر اسی عذاب کا شکار ہے اوراسے نجات پھر بھی نہ ملی اسے کہتے ہیں ’’مکافات عمل‘‘۔۔۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 89301 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.