عالمی دہشت گرد امریکا نے نائن الیون واقعات کی آڑ میں
امت مسلمہ کو تہس نہس کرنے اور اسلام پسندوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا
اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا، دراصل یہ ایک صلیبی جنگ تھی۔ اس
وقت پاکستان کے آمر جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے سامنے گھنٹے ٹیک کر غیر
مشروط اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا ۔افغان
پالیسی پر یوٹرن نے جہاں قومی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا یا وہیں
ہمیں سنجیدہ اندرونی و بیرونی مسائل سے دو چار کر دیا ۔وطن عزیز میں ڈرون
حملے آج بھی جاری ہیں اور ان ڈرون حملوں کے نتائج آج ہر پاکستانی بھگت رہا
ہے، ایک طرف وہ لوگ جو براہ راست ان کا نشانہ بن رہے ہیں اور دوسری طرف آئے
دن ہونیوالے خودکش حملوں کی صورت میں ساری قوم خمیازہ اٹھارہی ہے اور اس
وقت تک اٹھاتی رہے گی جب تک ہم بے بسی اور بے حسی سے یہ تماشا دیکھتے اور
برداشت کرتے رہیں گے ۔اس آمر کے کیے ہوئے معاہدے تادیر ہمارا پیچھا کرتے
رہیں گے اور دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ کے نام پہ یونہی بے گناہوں کا
خون بہتا رہے گا۔ جارج بش کی حکومت میں دہشت گردی کیخلاف اس نہا د جنگ میں
امریکن سی آئی اے نے ڈرون طیارے کے ذریعے 18جون 2004 میں پہلی دفعہ قبائلی
علاقوں کو نشانہ بنایا جس میں5 سے 8 افراد ہلاک ہوئے اور پھر یوں یہ سلسلہ
چل پڑا جس میں وقت گزرنے کے ساتھ تیزی آتی گئی۔ باراک اوباما کے صدر بننے
کے بعد، اور پاکستان میں زرداری حکومت کے قائم ہونے کے بعد ان حملوں کی
تعدد اور شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔یہ ڈرون حملے،پاکستان کی سالمیت اور
خودمختاری کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہیں ۔محض اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا
بلکہ اب توامریکی صدرتو بے گناہ مسلمانو ں کے خون کا اتنا رسیا ہو چکا ہے
جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی ۔اس بارے میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز
لکھتا ہے کہ باراک اوباما ہر ہفتہ قتل کے لیے افراد خود چنتا ہے۔ان ڈرون
حملوں میںمہلک کیمیائی ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں ۔انسانی حقوق کا
ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکی صرف ڈرون حملوںمیں مرنیوالے بے گنا ہ مسلمانوں
کے خون سے سیر نہیں ہوتے بلکہ حملہ کے بعد امدادی کاروائی کرنے والوں پر
ڈرون طیارے دوبارہ حملہ آور ہوتے ہیں یہی نہیں بلکہ ان ڈرون حملوں میں شہید
ہونیوالوں کے جنازے بھی ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے ہیں ۔
بد قسمتی سے پاکستان شاید دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں انسانی
زندگی سب سے ارزاں ہے جہاں اب تک ڈرون حملوں میں ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں
کو شہید کیا جا چکا ہے ۔برطانوی ادارے ''بیورو آف انسٹی گیٹو جرنلزم ''کے
مطابق پاکستان میں اب تک 376ڈرون حملوں میں 3613 افراد مارے جا چکے ہیں ان
میں سے 926افراد سویلین اور 200بچے تھے ،جبکہ ان حملوں میں 1505فراد زخمی
ہوئے مارے جانیوالوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔امریکن ری پبلیکن پارٹی کے
سینیٹر اور ڈرون حملوں کے حامی لنڈسے گراہم نے اپنے ایک بیا ن میں کہا کہ
امریکہ کی جانب سے خفیہ ڈرون حملوں میں تقریبا 4,700 افراد ہلاک ہوئے جن
میں بعض عام شہری بھی شامل تھے۔اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ان حملوں
میں 80 سے 90 فی صد لوگ بیگناہ مارے جارہے ہیں۔ڈرون حملوں میں سب سے زیادہ
افراد 2010میں مارے گئے اس سال 90حملوں میں 831ہلاک جبکہ 85سے زائد زخمی
ہوئے جبکہ ا نسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2010 میں امریکی ڈر و ن
حملوں سے900افرادہلاک ہوئے۔ حتمی اعداد ذرائع ابلاغ کی اس جگہ غیر موجودگی
کے باعث آج تک معلوم ہی نہیں ہو سکے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ دہشت گردی
ختم کرنے کے نام پہ کتنی بے گناہ جانیںامریکا کی کھلم کھلا جارحیت کا شکار
ہوکے منوں مٹی تلے دفن ہوگئیں۔
ڈرون حملوں کی بظاہر حکومتی حلقوں کی جانب سے کئی بار پرزور مذمت کی گئی
وزیر اعظم نواز شریف بھی بارہا کہ چکے ہیں کہ یہ ڈرون حملے ملکی سا لمیت
کیخلاف ہیں۔ دفتر خارجہ نے بھی اس حوالے سے بہت بار بیانات جاری کیے ہیں،
جن میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کا کوئی جواز نہیں یہ ہمارے ملکی وقار پر
حملہ ہے، ان کو کسی صورت میں بھی قبول نہیںکیا جا سکتا۔ ڈرون حملوں کو ملکی
سالمیت پر حملہ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر بند کرانے کا پرزور مطالبہ بھی
کیا گیا۔ مختلف دینی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے کئی بار احتجاجی ریلیاںبھی
نکالی گئیںلیکن اس کے باوجود ڈرون حملے جاری ہیں آئیے اب ہم اس بات کا
جائزہ لیتے ہیں کہ قوم کے بھر پور احتجا ج کے باوجو ڈرون حملے کیو ں جا ری
ہیں؟برطانوی اخبار دی ٹائمز( 18 فروری 2009 )کے مطابق ڈرون حملوں کے لیے
پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔ 2011 میں جب امریکیوں نے 24 پاکستانی فوجیوں کو
شہید کیا اس کے بعد پاکستان نے امریکی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ واشنگٹن
پوسٹ نے 4 اکتوبر 2008 میں یہ دعوی کیا تھا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے
پاکستان اور امریکا کے درمیان خفیہ ڈیل ہے اور امریکا یہ حملے پاکستان کے
تعاون سے کررہا ہے۔ امریکا کا اس حوالے سے یہ موقف رہاہے کہ یہ حملے
دہشتگردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہیں اوریہ پاکستان اور امریکا کے تعاون سے
ہورہے ہیں جن میں ہم نے بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔25 مارچ 2010 کو
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے قانونی مشیر نے ان حملوں کو جائز قرار دیتے ہوئے
کہا تھاکہ بین الااقوامی قانون کے مطابق امریکا اپنے دفاع کے لیے کہیں بھی
کارروائی کرنے کاحق رکھتا ہے ۔بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس ڈرون
طیارے گرانے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود قبائلی علاقوں میں بے
گناہ عورتیں، بچے مر رہے ہیں نہ جانے اس پاک زمیں پہ آخر خون ناحق کب تک
بہتا رہے گا اور دہشتگردی کے نام پر ابھی اور کتنی زندگیاں موت کی آغوش میں
جائیں گی۔وزیر اعظم نواز شریف امریکا کے دورے پریہ عزم لے کر گئے ہیں کہ وہ
امریکی صدر سے ملاقات میں ڈرون حملوںکا مسئلہ اٹھائیں گے اب دیکھنا یہ ہے
کہ وہ عوامی مسئلہ کے حل کو تر جیح دیتے ہیں یا امریکا کے ساتھ سابقہ
حکمرانوں کے کئے گئے معاہدوں اور پالیسی کو جاری رکھتے ہیں المختصر وزیر
اعظم نواز شریف کو اس حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل اپنانا ہوگا ورنہ بے
گناہوں کے خون کے دھبے سا بقہ حکمرانوں کی طرح ان کے دامن کوبھی ہمیشہ
داغدار ہی رکھیں گے۔ |