سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی رکنیت کیوں ٹھکرائی؟

باسمہ تعالیٰ

اس ہفتہ عالمی میڈیامیں ایک خبرنے خاص شہرت حاصل کی،خبریہ تھی کہ ایشیاء پیسیفک خطہ کی نمائندگی کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سعودی عرب کوسلامتی کونسل کی ایک نشست کے لیے منتخب کیا،لیکن سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی پیشکش یہ کہہ کرٹھکرادی کہ یہ ادارہ اپنے مقاصدسے منحرف ہوگیاہے اورسلامتی کونسل کی کارکردگی پرسوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے اسے دوہرامعیاربرتنے والاادارہ بتاکرسلامتی کونسل کی رکنیت کومستردکردیا۔سعودی عرب کے اس فیصلہ نے جہاں عالمی رہنماؤں کوسکتہ میں ڈال دیا وہیں کچھ رہنماؤں نے اسے سعودی عرب کاعجلت میں اٹھایا گیا غیردانشمندانہ قدم بھی بتایاہے۔سعودی عرب نے اس سے قبل بھی اسی طرح کامظاہرہ کیاتھاجب اسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریرپیش کرنے کے لیے دعوت دی گئی تھی اس وقت بھی سعودی عرب نے تقریرپیش کرنے سے یہ کہہ کرانکارکردیاتھاکہ جب تک اقوام متحدہ مشرق وسطیٰ بالخصوص شام اورفلسطین جیسے اہم اورپیچیدہ مسائل کوحل نہیں کرتاوہ جنرل اسمبلی کی بائیکاٹ کرتارہے گا،اورسلامتی کونسل کی رکنیت کومستردکرتے ہوئے بھی سعودی عرب نے تقریبا پھرسے وہی مسائل اٹھائے ہیں جس میں شام کاتذکرہ بطورخاص کیاگیاہے ،لیکن خودسعودی عرب بھی اپنے اس احتجاج میں اپنے دوہرے معیارکوچھپانہیں سکاکہ ایک طرف تووہ شام کے مسئلہ کی حل کی پرزوروکالت کرتاہے وہیں دوسری جانب مصر کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے،جوکہ خودسعودی عرب کے دوہرے معیارکی ایک واضح دلیل ہے۔سعودی عرب نے ظاہری طورپرسلامتی کونسل کی رکنیت کی پیشکش کوٹھکراکریہ تاثردینے کی کوشش کی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے مسائل کوحل کرنے کی ایماندارانہ کوشش کررہاہے،اوراس کے لیے وہ اپنے دیرینہ دوست امریکہ بہادرکوبھی آنکھیں دیکھاسکتاہے ،لیکن کیاسعودی عرب اس پیشکش کوٹھکرانے میں واقعتاًمخلص ہے؟کیاسعودی عرب کایہ قدم واقعتاجرأتمندانہ اورایمانی غیرت وحمیت کی علامت ہے یاپس پردہ کچھ اورہی ہے؟کیوں کہ ایک بہت ہی تلخ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب ایک ایساملک ہے جواپنی فوجی ضروریات کے لیے مکمل طور پر امریکہ پرمنحصرہے،اوراقوام متحدہ کوآنکھیں دکھاناگویابراہ راست امریکہ بہادرکوچیلنج کرناہے جوکہ سعودی عرب کے لیے مستقبل میں بہت بڑاخطرہ بن سکتاہے اوروہ سعودی عرب جوہمیشہ سے امریکہ بہادرکے اشاروں پرناچتارہاہے کیاواقعتااس کے اندراتنی ہمت وجرأت پیداہوگئی ہے کہ وہ اپنے آقاامریکہ بہادرکوآنکھیں دکھاسکے؟حالاں کہ ابھی تک اس سلسلہ میں امریکہ کاکوئی واضح ردعمل نہیں آیاہے جواس ڈراماکومزیدپیچیدہ بنادیتاہے۔

اس سے قبل کہ سعودی عرب کے اس اقدام پرمزیدگفتگوکی جائے،ایک نظراقوام متحدہ اورسلامتی کونسل پہ ڈالتے چلیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعدجب عالمی رہنماؤں نے یہ محسوس کیا کہ اب دنیامزیدکسی تیسری جنگ عظیم کابوجھ برداشت نہیں کرپائے گی،انہوں نے ایک ایسے ادارے کے قیام کاخاکہ تیارکیاجوتمام ممالک کوایک چھت کے نیچے جمع کرکے اس کے مسائل کوحل کرنے کی جانب ایماندارانہ کوشش کرے،حالاں کہ اس وقت بھی اس طرح کی ایک تنظیم ’’لیگ آف نیشنز‘‘کے نام سے موجودتھی،لیکن وہ ادارہ عالمی بحران کوحل کرنے میں بری طرح ناکام رہاجس کے نتیجہ میں دنیاکودوسری جنگ عظیم کا سامنا کرنا پڑا۔اقوام متحدہ کاقیام دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد۲۵؍اکتوبر۱۹۴۵ء کوہوا،اقوام متحدہ کی بنیاد۵۱ممالک کی رکنیت سے پڑی اوراس وقت دنیاکے ۱۹۳؍ممالک اس عظیم تنظیم کے رکن ہیں۔دنیامیں امن وسلامتی کے قیام کویقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی’’سلامتی کونسل ‘‘قائم کی گئی جس کی پہلی باضابطہ میٹنگ ۱۷؍جنوری ۱۹۴۶ء کولندن کے ویسٹ منسٹرکے چرچ ہاؤس میں ہوئی۔سلامتی کونسل میں پانچ ر کن ممالک کومستقل رکنیت کی حیثیت دی گئی اوراقوام متحدہ کے منشورکے خالقوں نے ان پانچ ارکان کوکسی بھی تجویزکوویٹوکرنے کاخصوصی اختیاردیا۔منشورکے خالقوں کی یہ دلیل ہے کہ یہ پانچ مستقل اراکین جن میں چین، فرانس، روس، برطانیہ اورامریکہ شامل ہیں،انہوں نے دوسری جنگ عظیم کوروکنے اوراقوام متحدہ کے قیام میں اہم کرداراداکیاہے اسی لیے انہیں یہ خصوصی اختیارات دیے جارہے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں بھی اپنے اس اہم کردارکے ذریعہ دنیامیں امن وسلامتی کوقائم رکھنے میں خصوصی کرداراداکرتے رہیں۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل کے دس غیرمستقل ممبران ہوتے ہیں جودوسال کے لیے منتخب ہوتے ہیں،اس کاطریقہ کاریہ ہوتاہے کہ ہرسال جنرل اسمبلی پانچ غیرمستقل ممبران کومنتخب کرتی ہے جودنیاکے مختلف خطوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔سلامتی کونسل میں پاس ہونے کے لیے کسی بھی تجویزکو۹؍ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ ان پندرہ مستقل وغیرمستقل ممبران کے ووٹ پرمشتمل ہے۔ تجویزکوپاس ہونے کے لیے ۹؍ووٹ کی ضرورت ہے لیکن اسے ردکرنے کے لیے پانچ مستقل ممبران میں سے کسی ایک کا’’ویٹو‘‘کردیناکافی ہے۔اب تک ویٹوپاورکااستعمال کرنے والوں میں روس سب سے آگے ہے۔روس نے ۱۲۳؍مرتبہ اپنے ویٹوپاورکااستعمال کیاہے جب کہ امریکہ۸۹؍،برطانیہ ۳۲؍فرانس۱۸؍اورچین نے ۶؍مرتبہ اپنے اس خصوصی اختیارکواستعمال کیاہے۔سلامتی کونسل کے مقاصدمیں اہم یہ ہیں:دنیامیں امن وسلامتی قائم کرنا،مختلف ممالک کے درمیان پیداہونے والے تنازعات کوپرامن طریقہ سے حل کرنا،تنازعات کوحل کرنے کے لیے روڈمیپ بنانا،مختلف ممالک کے لیے اسلحوں کے نظام کوباقاعدہ بنانا،ایسے امورکی نشاندہی کرناجوامن وسلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہوں اوران کے حل کے لیے مناسب طریقہ کارمتعین کرنا،رکن ممالک کی ایک دوسرے ملک کے خلاف حملوں کوروکنے کے لیے طاقت کااستعمال کیے بغیر معاشی پابندیوں کے ذریعہ اسے اس قدم سے بازرکھنا،جہاں ممکن ہووہاں ملٹری ایکشن لینا،نئے ممبرکے داخلہ کی سفارش کرنا،اقوام متحدہ کے لیے سکریٹری جنرل کے انتخاب اورانٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے لیے ججوں کے تعین کے لیے جنرل اسمبلی کوسفارش کرنا وغیرہ سلامتی کونسل کے اہم اغراض ومقاصدمیں شامل ہیں۔لیگ آف نیشنزکی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے ارکان ہیڈکوارٹرمیں موجودنہیں ہوتے تھے جس کی وجہ کربحرانوں کوحل کرنے میں کبھی سالوں لگ جاتے تھے جبکہ سلامتی کونسل کے ارکان ممالک کے لیے یہ لازم ہے کہ ان کے نمائندے ہروقت ہیڈکوارٹرمیں موجودرہیں تاکہ کسی وقت بھی کسی بھی بحران سے فورانمٹاجاسکے۔سلامتی کونسل کی صدارت ہرمہینہ بدلتی رہتی ہے۔

سلامتی کونسل کے حالیہ انتخاب میں سعودی عرب کوپاکستان کی نشست ملی ہے کیوں کہ اب تک پاکستان ایشیاء پیسیفک خطہ کی نمائندگی کررہاتھاجواپنی میعادپوری ہونے کے بعد رخصت ہونے والاہے اوروہ نشست جنرل اسمبلی کی ووٹنگ کے بعدسعودی عرب کوملی ہے جسے سعودی عرب نے ٹھکرادیاہے۔۲۰۱۴ء اور۲۰۱۵ء کے لیے جن پانچ غیرمسقتل ممبران کاانتخاب عمل میں آیاہے ان میں چاڈ، چلی، لیتھونیا، نائیجیریا اور سعودی عرب شامل ہیں۔۱۹۳رکنی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سعودی عرب کو۱۷۶ووٹ حاصل ہوئے جواس بات کی علامت ہے کہ سعودی عرب کوبین الاقوامی کردارادکرنے والے ادارہ میں بہت خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

اب یہاں ایک بڑاسوال پیداہوتاہے کہ آخروہ سعودی عرب جس کی ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ وہ سلامتی کونسل کی نشست حاصل کرے،اس نے یہ نشست آخر کیوں ٹھکرائی؟ رہا اس کایہ الزام کہ دنیاکاسب سے طاقتورادارہ بے راہ روی کاشکارہوچکاہے اوروہ اپنے مقاصدسے منحرف ہوچکاہے تویہ کوئی نئی بات نہیں ہے،عالمی سیاست پرنظررکھنے والاہرشخص جانتاہے کہ اقوام متحدہ اس وقت چندبڑے ممالک کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن چکاہے اوروہ اسے دنیامیں امن وسلامتی قائم کرنے کے لیے نہیں بلکہ دنیاکے امن کوبگاڑنے کے لیے استعمال کررہے ہیں،ایساتونہیں ہے کہ سعودی عرب اس سے قبل اس سے واقف نہیں تھا،جب عراق پرحملہ ہواشایداس وقت بھی سعودی عرب جانتاتھاکہ یہ حملہ غلط ہے،اسی طرح افغانستان کاحملہ بھی کسی سے ڈھکاچھپانہیں ہے توپھراس وقت سعودی عرب نے یہ جرأت رندانہ کیوں نہیں دکھائی؟فلسطین کامسئلہ جوکہ عالم اسلام کے لیے کسی تازیانہ سے کم نہیں ہے،آج قبلۂ اول کی بے حرمتی اوراس پرقبضہ دنیاکے ہرمسلمان کے لیے باعث تکلیف ہے،سعودی نے کبھی پرزورطریقہ سے اس کے خلاف آوازاٹھائی؟مصرمیں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کوماراجارہاہے،بالخصوص اسلامی کردارکے حامل مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے لیکن سعودی حکومت نے کبھی آوازاٹھائی ؟نہیں بلکہ ایک طرح سے وہ خود اس کھیل میں برابرکاشریک ہے،توپھرشام کے مسئلہ پراتنی ناراضگی کیوں؟کیایہ دوہرامعیارنہیں ہے؟جس سعودی عرب نے سلامتی کونسل اوراقوام متحدہ پردوہرے معیارکاالزام لگایاہے وہ پہلے ہی خوداس دوہرے معیار کا شکار ہے، اصل مسئلہ یہ نہیں ہے جووہ بول رہے ہیں،واشنٹگن پوسٹ نے سعودی عرب کے اس فیصلہ پربڑااچھاتبصرہ کیاہے اورکہاہے کہ سعودی کوچاہیے تھاکہ وہ رکن بن کرسلامتی کونسل میں بیٹھ کراس مسئلہ کاحل نکالتا،نہ کہ ٹھکراکر،ٹھکرانادانشمندی نہیں ہے۔لیکن جولوگ سعودی عرب کی پالیسی سے بخوبی واقف ہیں ان کے نزدیک سعودی حکومت کایہ فیصلہ انتہائی عیارانہ ہے،اس فیصلہ سے ایک طرف جہاں اس نے عالم اسلام کویہ تاثردینے کی کوشش ہے کہ وہ عالم اسلام کے مسائل کوحل کرنے کے لیے سلامتی کونسل جیسے اہم ادارہ کی رکنیت کوٹھکراسکتاہے وہیں اس نے اپنے ناقدین کاناطقہ اس طورپربندکرنے کی کوشش کی ہے کہ اگروہ سلامتی کونسل میں بیٹھ جاتا ہے توپھراس کی پول کھل جائے گی،کیوں کہ باہررہ کروہ آسانی سے خاموشی کے ساتھ امریکہ بہادرکی کارروائیوں کودیکھ سکتاہے ،لیکن اگروہ سلامتی کونسل میں بیٹھ گیاتواسے ہرحال میں ووٹ کرناہوگا،اب اگروہ حمایت میں ووٹ کرتاہے تواسے عالم اسلام کی طعن وتشنیع کاسامناکرناپڑے گااوراگروہ مخالفت میں ووٹ کرتاہے تواسے اپنے آقاامریکہ بہادرکی ناراضگی مول لینی پڑے گی جووہ کبھی نہیں چاہے گاکیوں کہ سعودی عرب نے اپنی فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے آپ کوپوری طرح امریکہ بہادرپرمنحصرکردیاہے اوراس طرح ممکن ہے کہ اسے بہت ساری پابندیوں کاسامناکرناپڑے۔اسی لیے سعودی عرب نے اسی میں عافیت سمجھی کہ سلامتی کونسل کی نشست سے زیادہ قیمتی امریکہ بہادرکی وفاداری ہے اوروہ وفاداری اسی صورت اداہوسکتی ہے کہ اپنے آپ کوسلامتی کونسل کی نشست سے باہررہ کرفیصلہ سازبننے کے بجائے تماشائی بن جائے،اسی میں بھلائی اورعافیت ہے۔یہ ہے اصل رازاورمقصدجس کی وجہ سے سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی نشست کوٹھکرادیا۔سلامتی کونسل کی نشست کوٹھکرانے میں کسی ایمانی جذبہ یادینی غیرت وحمیت کاکوئی عمل دخل نہیں ہے،جوکہ دیگربہت سارے امورمیں سعودی عرب کی مجرمانہ خاموشی سے ظاہرہے۔اﷲ ہدایت نصیب کرے۔ آمین۔٭٭٭

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50693 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More