بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی مسلسل جاری
ہے۔اتوار کے روز بھارتی فوج نے ایک بار پھر جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے
ہوئے پسرور سیکٹر میں رہائشی علاقوں پر گولہ باری کی۔ جس کے نتیجے میںتین
شہری زخمی ہو ئے۔ چناب رینجرز نے منہ توڑ جواب دیا جس پر دشمن کی گنیں
خاموش ہو گئیں۔بھارت کی اس جارحیت پر پاکستان کی سرحدی عوام نے احتجاج کرتے
ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت کی اس جارحیت
کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ متعددپاکستانی رہنماﺅں نے کہا ہے کہ بھارت منظم
سازشوں ومنصوبہ بندی کے تحت سرحدوں پر جنگ کا ماحول پیدا کر رہا ہے اور
نہتے شہریوں کو نشانہ بناکر دہشت گردی کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ حکومت
پاکستان کواس مسئلہ پر کسی صورت خاموشی اختیارنہیں کرنی چاہیے۔ امریکا کے
خطہ سے نکلنے کے بعد بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار نہیں
رکھ سکے گا۔ پاکستان کو مسئلہ کشمیر، کنٹرول لائن پر جارحیت اور دیگر امور
پر بھارت و امریکا کے کسی دباﺅ میں نہیں آنا چاہیے۔انہوں نےبھارت اور
پاکستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کو اس پورے خطے کے امن کے لیے تشویشناک
صورتحال قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ اس
کشیدگی کی بنیادی وجہ کے حامل مسائل خصوصاً مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لیے
بامعنی مذاکراتی عمل کا آغاز کریں۔ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر
مسلسل یک طرفہ عسکری جارحیت، مقبوضہ کشمیر میں پرتشدد کارروائیوں اور
پاکستان میںبڑھتی ہوئی دہشت گردی، بدامنی کے خلاف چھٹیاں ہونے کے باوجود
آزادکشمیر میں بھی احتجاجی ریلی اور مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے بھارت کے
خلاف اور آزادی کے حق میں زبردست نعرے بازی کی۔
دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو
کنٹرول لائن کشیدگی پر ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے مذاکرات بحال
کرنے چاہئیں، پاکستان جنگ بندی پر سختی سے کاربند ہے اور صرف جوابی
کارروائی کرتا ہے۔ پاکستان، بھارت اور امریکا سمیت تمام ملکوں سے اچھے
تعلقات چاہتا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی جیسے کئی مسائل کا سامنا ہے اور ان
مسائل کے حل سے علاقے میں قیام امن میں مدد ملے گی۔دونوں ملکوں کو جنگ بندی
کے معاہدے کا احترام کرتے ہوئے تمام مسائل کے پائیدار حل کے لیے پیشرفت
کرنی چاہیے۔ بھارت سے ایل او سی کشیدگی کے خاتمے کے لیے بیک ڈور ڈپلومیسی
کی جا رہی ہے۔ جنگ وجدل کسی کے فائدے میں بھی نہیں۔ وزیراعظم میاں نواز
شریف نے انتخابات سے قبل یہ واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان بھارت اور دیگر
علاقائی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔امریکی حکام نے کہا کہ پاکستان
اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری سے حوصلہ ملا۔ پاکستان اور بھارت
دوطرفہ مذاکرات کے عمل کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کریں۔
دوسری جانب پاکستانی حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر جاری
بھارتی جارحیت کے معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھانے کا
فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے دفاعی پیداوار کے وفاقی وزیر
رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ اگر ایل او سی پر بھارتی جارحیت جاری رہی اور
مسئلہ خوش اسلوبی سے حل نہ ہوا تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں معاملے
کو اٹھایا جائے گا۔ پاکستان کو ایل او سی کے دونوں اطراف اپنے مظلوم کشمیری
بھائیوں کا احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اب تک صبر سے کام لیا ہے ۔
کوشش ہے کہ معاملہ خوش اسلوبی اور بات چیت سے حل ہوجائے، لیکن صبر اور امن
کی کوششوں کا مطلب پاکستان کی کمزوری سمجھنا غلط اور خوش فہمی پر مبنی
بھارتی مفروضہ خواب ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں۔ اب بھارت
کو اس کا احساس ہونا چاہیے کہ انتخاب جیتنے کے لیے وہ ایسے منفی ہتھکنڈے
استعمال نہ کرے جس کے نتیجے میں چنگاری بھڑک اٹھے جو نہ صرف دونوں ممالک،
بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے
پاکستان کے خلاف اپنے ملک کے اندر نفرت اور جنگی ماحول پیدا کرکے ووٹ حاصل
کرنا ہر بھارتی سیاسی جماعت کا ماضی میں طریقہ کار رہا ہے۔ غالباً یہی وجہ
ہے کہ موجودہ برسر اقتدار پارٹی بھی لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ
اور گولہ باری کو ایک سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر الیکشن کے موقع پر استعمال
کرنا چاہتی ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی خوشگوار ملاقات کے باوجود
فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رہنا افسوس ناک ہے۔ ذرائع کے مطابق
لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی کے پیش نظر دونوں اطراف کے ڈی جی ملٹری
آپریشنز کی ملاقات بھی آیندہ چند دنوں میں متوقع ہے، تاکہ بارڈر لائن کے
دونوں اطراف موجود ہزاروں کشمیریوں کی مشکلات ختم ہوسکیں، جن کا سامنا وہ
بھارتی فورسز کی بلااشتعال اور بے وقف فائرنگ سے کررہے ہیں۔
لائن آف کنٹرول بنیادی طور پر سیز فائر لائن تھی۔ جب 1948 کے دوران بھارت
یہ مسئلہ یو این او میں لے گیا تو عالمی طاقتوں اور اداروں نے پاکستان اور
بھارت کے درمیان سیز فائر کرایا۔ یہی سیز فائر لائن اب لائن آف کنٹرول
کہلاتی ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں بلاوجہ اور بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ
بھارتی بارڈر فورسز نے مستقل جاری رکھا۔ یہاں تک کہ چھبیس نومبر 2003 میں
دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں طے پایا کہ ایل او سی پر
بلاوجہ اور بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی
بھی صورت سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جائے گا۔ لائن آف کنٹرول پر رہنے
والے مقامی افراد کو غلطی سے لائن آف کنٹرول پار کرلینے کی صورت میں رعایت
دی جائے گی، دونوں اطراف کے کمانڈرز کے درمیان جب بھی ضروری ہوا فلیگ میٹنگ
کرکے معمولی نوعیت کے مسائل فوری طور پر حل کرلیے جائیں گے۔ اس معاہدے کے
باوجود بھارتی بارڈر فورسز نے متعدد بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کی، نہتے
شہریوں کو جب چاہا نشانہ بنایا۔ فائرنگ کرکے انہیں شہید کردیا، یا زخمی کیا۔
یہاں تک کہ قابض بھارتی فورسز موقع ملنے پر ایل او سی کے قریب سے آزاد
کشمیر کے شہریوں کو بھی لے گئیں۔ ان واقعات پر پاکستان نے ہمیشہ بھارت سے
بھر پور احتجاج کیا۔ اس بار اگست کے دوسرے ہفتے سے بھارتی فورسز، سیکڑوں
میل طویل لائن آف کنٹرول کے مختلف مقامات اور پوسٹوں سے بلاناغہ اندھا دھند
فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آزاد کشمیر کا کل رقبہ
تقریباً چار ہزار مربع میل ہے اور اس کے سارے اضلاع سیکڑوں میل طویل لائن
آف کنٹرول پر واقع ہیں۔ مقبوضہ جموں جو ہمارے اضلاع نارروال اور سیالکوٹ سے
متصل ہے، وہاں سے لائن آف کنٹرول شروع ہوکر مقبوضہ کشمیر کے اندر ایک ضلع
کپواڑہ سے ہوتی ہوئی گلگت بلتستان تک جاتی ہے۔ بھارتی بارڈر فورسز کی
فائرنگ سے جہاں آزاد کشمیر کے تمام اضلاع متاثر ہیں، وہیں اب تقریباً چودہ
سال بعد کارگل، دراس سیکٹر پر بھی فائرنگ کرکے ان علاقوں کو بھی میدان جنگ
میں بدل دیا ہے۔بھارتی فورسز کی کارروائیوں میں کیپٹن سرفراز کے شہید ہونے
کے بعد دفاعی پیداوار کے وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے قومی اسمبلی میں اس
واقعے کے خلاف قرار داد مذمت پیش کی، جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔
بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو بھی دفتر خارجہ طلب کرکے ان واقعات خصوصاً کیپٹن
سرفراز کی شہادت پر پُر زور احتجاج کیا گیا، تاہم بھاری فورسز کی یہ
کارروائیاں مسلسل جاری ہیں اور اسی سبب اس معاملے کو جنرل اسمبلی میں
اٹھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔جبکہ بھارت نے کشمیر کے معاملے پر ہر قسم
کی ثالثی قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد
نوازشریف کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے امریکی مداخلت کے مشورے
پربھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھارتی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کو
دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیراعظم نواز شریف کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے
کہا ہے کہ اس معاملے پر کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، ہم بار بار واضح
کرچکے ہیں شملہ سمجھوتے کے تحت کشمیر کا مسئلہ دوطرفہ ہے۔ کشمیر کے معاملے
پر کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو قبول نہیں کریں گے، شملہ معاہد ے کے تحت
مسئلہ کشمیر دوطرفہ تنازع ہے، کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے جس پر کسی کو بھی
سوال نہیں اٹھانا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر پر بات چیت وقت کا ضیاع ہوگا چاہیے وہ
کتنی بھی اہم شخصیت کرے۔ پاکستان کے لیے اہم بات یہ ہے وہ اپنا رویہ درست
کرے اور 2003ءکے جنگ بندی معاہدے پر عمل کرے، انہوں نے کہا کہ کسی کو یہ
کہنے کا حق نہیں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے یہ سمجھوتہ ختم ہوگیا ہے، یہ
معمولی خلاف ورزیاں ہیں تاہم یہ بھی قابل قبول نہیں، فوج بہتر جانتی ہے کہ
وہ کس طریقہ کار پر عمل کر رہی ہے، ہم نے علاقہ اور اس کی صورتحال فوج پر
چھوڑ رکھی ہے، میں اپنے ان فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو مادر وطن
کے تحفظ کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ |